Sunday 18 October 2015

میرا رختِ سفر مجھے طے کرنے دیجئے

0 comments

آجکل کچھ لوگ یہ واویلا کرتے دیکھائی دیتے ہیں کہ زیادہ تر کمپنیاں اور جدید ادارے محض نمائش و زیبائش کے لیے خواتین ملازمین کو ہائیر کرتے ہیں. جنہیں نوکریوں کے بہانے اپنے پراڈکٹ کی سیل کے لیے بطور ٹوکن استعمال کیا جاتا ہے.ان کی رائے میں یہ خواتین کا استحصال ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ جب لاکھوں کی تعداد میں بے روزگار مرد حضرات موجود ہیں وہاں خواتین کو دفتروں میں ملازمت دینا بالکل غیر ضروری، نا مناسب اور غیر اخلاقی ہے. یہ معاشرے میں فحاشی، بے راہ روی اور عدم توازن کی ایک بڑی وجہ ہے. باہر نکلنے والی ایسی عورتوں کی وجہ سے اخلاقی گراوٹ جنم لیتی ہے اور ریپ جیسے واقعات وقعع پذیر ہوتے ہیں. مثال کے لیے لوگ بھارت اور یورپ کی مثال سامنے رکھ دیتے ہیں۔ ان لوگوں سے دس منٹ بات کر کے محسوس ہونے لگتا ہے جیسے معاشرے کے تمام مسائل کی وجہ عورت کا دہلیز پار کرنا ہی ہے۔

ایسے میں پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہمارے یہاں عورت کی خود مختاری اور آزادی کو معاشرتی بگاڑ سے مشروط کیے بغیر مسائل کی وجوہات تلاش کرنا کیوں ممکن نہیں ہے؟ آزاد عورت کیوں معاشرے کے اجارا داروں کو کھٹکنے لگتی ہے؟َ کیا واقعی عورت اتنی مضر ہے جتنا پروپگینڈا کیا جاتا ہے؟ عورت کی ذات اور اس کے کردار کوزمینی حقائق اور عورت کی اپنی ضروریات کی بنیاد پر پرکھنے کے بجائے ہمیشہ کتابی تاویلیں اور مسخ شدہ معاشرتی حوالوں سے محدود کرنے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے؟ مجھے اسکی دو وجوہات ہی سجھائی دیتی ہیں۔ یا تو انسانی تہذیب (جسے مردانہ تہذیب کہنا زیادہ مناسب ہو گا) عورت سے خوفزدہ ہے یا پھر عورت کا انسان ثابت ہونا ابھی باقی ہے۔
سب سے پہلے آغاز ریپ کے مفہوم، اسکی حدود اور مغربی معاشروں سے درآمد شدہ  اعدادوشما کی ممکنہ وجوہات سے کرتے ہیں.
مغربی دنیا کی ڈکشنری کے مطابق ریپ ایسا جماع ہے جس میں
دونوں فریقین میں سے کسی فریق کی رضا مندی ملحوظ نا رکھی گئی ہو بھلے وہ فریق بیوی ہی کیوں نا ہو۔
رضامندی کے حصول کے لیے دھونس، دھمکی یا جذباتی بلیک میلنگ اور جسمانی طاقت کا استعمال کیا گیا ہو۔
ٹارگٹ فرد ذہنی طور پر بے بس اور ناکارہ ہو۔ یعنی وہ ہوش مندی سے فیصلہ کرنے کے لیے درکار ذہنی قوت سے محروم ہو۔
یہاں دو باتیں مزید قابل غور ہیں
خاموشی کا مطلب رضا مندی نہیں ہے۔
دوران جماع اگر ایک فریق سرگرمی روکنے کا فیصلہ کرتے ہوئے انکار کرتا ہے لیکن اس کے باوجود دوسرا فریق اسکو جاری رکھے تو وہ ریپ تصور کیا جائے گا۔
as no meanS stop۔
گویا مندرجہ بالا طے شدہ حدود میں سے کسی ایک کی بھی خلاف ورزی کی صورت میں مغربی عورت ریپ کا کیس دائر کر سکتی ہے۔ جسکا سنجیدگی سے نوٹس لیا جاتا ہے۔ لہزا اپنے گھناؤنے اعمال اور ذہنی پسماندگی کی توجہہ کے لیے مغرب سے ریپ کے واقعات درآمد کرنے والوں کو یہ ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہاں فریق کی معمولی نا کو بھی گھناؤنا جرم تصور کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے یہاں پولیس اسٹیشنز پر اجتمائی زیادتیوں پر بھی کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔الٹا اخلاقی گراوٹ کی اصل وجوہات تلاش کرنے کی بجائے خودمختاری کے حصول کے لیے کوشاں خواتین پر قدغن لگانے کے لیے طرح طرح کے جواز تلاش کیے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی انہیں یہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اصل میں وہ کون سے معاشرے ہیں جو ریپ کی لعنت میں گناگوں ڈوبے ہوئے ہیں اور کون سے معاشروں میں قانونی عمل داری کی مقدس چادر تلے  یہ کرائیہ عمل عالم سرور میں سر انجام پاتا ہے۔  کون سے معاشرے ہیں جہاں VICTUM کو مرتے دم تک احساس نہیں ہوتا کہ اس کا ریپ ہوتا رہا ہے۔۔ اس لیے انہیں کبھی رپورٹ درج کرانے کا خیال نہیں آیا۔

ترقی یافتہ ممالک سے اٹھنے ٹیکنالوجی کے ریلے میں دوسری دنیا کے پسماندہ ممالک  نہا تو گئے ہیں مگر بیرونی ماحول میں ہونے والی یہ برق رفتار ترقی ان ممالک کے باسیوں کی ذہنی پسماندگی اور جہالت ختم کرنے میں اب تک ناکام رہی ہے۔ نتیجتا ٹیکنالوجی کے بطن سے جنم لینے والے پرسہولت لوازمات کے غلط استعمال کا تناسب اس کے مفید استعمالات سے زیادہ ہے۔ الٹراساؤنڈ کی سہولت میسر آئی تو بھارت کے جہالت میں ڈوبے معاشرے کو بیٹیوں سے جان چھڑانے کا ایک آسان اور مفید طریقہ ہاتھ لگ گیا۔یہ معلوم پڑتے ہی کہ ماں کے بطن میں بچی ہے اسکا ابارشن کروا دیا جاتا۔۔ گزشتہ سالوں کے دوران لاتعداد لڑکیاں پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دی گئیں۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں جنس کا توازن بگڑ گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں اب ایسے علاقے وجود میں آ چکے ہیں جہاں لڑکوں کو شادی ے لیے لڑکیاں میسر نہیں اور مرد بوڑھے ہو رہے ہیں۔ معاشرے میں ہر طرف جنسی گھٹن پھیل چکی ہے۔یوں بھارت میں شیرخوار لڑکیوں سے لے کر ملکی و غیر ملکی  خواتین سمت ہر عمر کی عورت ریپ کا شکار ہو رہی ہے۔ یہ ماضی کے اعمال کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ فطرت عدم توازن کسی طور برداشت نہیں کرتی۔

صنعتی انقلاب سے پہلے دنیا پر زراعت نے راج کیا ہے۔تمام تاریخ دان اس بات پہ متفق ہیں کہ عورت دیوی اس پیشے کی موجد ہے۔ کھیتی باڑی سے متعلق ایسا کونسا کام ہے جو زرعی تاریخ میں عورت نے سر انجام نہیں دیا۔اس دوران کہیں بھی اسکی جسمانی  کمزوری آڑے نہیں آئی۔ ناہی اس کی جسمانی کشش آسمان سے شہاب ثاقب برسانے کا سبب بنی۔ آج بھی اگر کھیتوں کی طرف نکل جائیں توعورت کھیتوں میں کام کرتی دیکھائی دے گی۔ سڑکوں پہ روڑی کوٹتی ملے گی۔۔ بھٹوں میں اینٹیں پکاتی ملے گی۔ فیکٹریوں میں مشینیں چلاتی ملے گی۔ کھدر بنتی ملے گی۔۔ سیالکوٹ میں فٹ بال سیتی ملے گی۔ ٹریفک کے اشاروں پہ گھگھو گھوڑے بیچتی ملے گی۔ لیکن آپ نے کسی قدامت پسند سے ان کے حق یا مخالفت میں واعظ دیتے ہوئے نہیں سنا ہو گا۔ شائید ہی کسی واعظ کو کبھی ان خواتین کا معاشی و جسمانی استحصال دیکھائی دیا ہو۔ انہیں مسئلہ تب ہوتا ہے جب عورت ادنی سے اعلی کی طرف سفر کرتی ہے۔ جب وہ گارے مٹی میں اٹے چہرے کو دھو کر ریسپشن پہ بیٹھتی ہے۔ رہٹ چلاتی اور کھوتے ہانکتی ادھ ننگی عورت سے انہیں مسئلہ نہیں ہے۔انہیں صاف ستھرا لباس پہننے،سلیقے سے بال جمائے،ڈرائینوگ سیٹ پر بیٹھی عورت سے خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ دفتروں میں عورتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد انہیں خوفزدہ کرتی ہے کیونکہ  انہیں معلوم ہے کہ جس دن ہماری عورت معاشی طورآزاد ہو گئی اس دن وہ اس ذہنی غلامی کو بھی رد کر دے گی جس کی بنیاد پر ہمارا مرد خود کو برتر ثابت کرکے پھولا نہیں سماتا۔

ہمارے ملک کی باون فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ملکی آبادی کے اتنے بڑے تناسب کو معاشی معاملات میں فعال کرنے کی بجائے انہیں مفلوج افراد بنا کر گھروں میں محصور رکھنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ باون فیصد کے تعاون اور کارکردگی کے بغیر ملک کا ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ناممکن ہے۔ یہ وہ زمینی حقائق ہیں جن کو جعلی مفروضوں کی چادر تلے چھپنا ملک دشمنی ہے۔.خواتین کا معاشی معاملات میں کارگر ہونا نا صرف انفرادی سطح پر آسودگی لاتا ہے بلکہ  خاندانی اور ملکی سطح پر خوشحالی کا باعث بھی ہے۔ خوش آئیند بات یہ ہے کہ اس وقت یونیورسٹیوں میں مردوں سے زیادہ خواتین زیر تعلیم ہیں۔ زندگی کے ہر شعبہ میں خواتین اپنا لوہا منوا رہی ہیں۔ ہر شعبے میں خواتین کا بڑھتا ہوا تناسب خواتین دشمن نظریات اور روایات پر کاری ضرب کے مترادف ہے۔