Tuesday 19 January 2016

جمہور ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

0 comments

سالہا سال سےعوام کو مائل بہ مٹر گشت کرنے کے لیے جس شے کو بطور چارا استعمال کیا جاتا ہے اسکا نام انقلاب ہے۔ انقلاب عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لفظی معنی ایک حالت کی جگہ اس کی متضاد حالت کی صورت حال کا ظہور کے ہیں۔ مفہوم کے اعتبار سے انقلاب کا مطلب اچانک اور یک مشت تبدیلی ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ میں انقلاب سے زیادہ شاید ہی اور کوئی دوسرا لفظ استعمال کیا گیا ہو۔ اسے استعمال کرنے والے مداری اس کی افادیت سے بھی خوب واقف ہیں۔ تب ہی ذاتی مفادات کے لیے بار بار اپنی پٹاریوں سے اس چارے کو برآمد کرکے عوام کی فکری سمت کو پاتال میں دھکیلنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
چونکہ انقلابی تبدیلی اچانک واقع ہوتی ہے اس لیے اسے برپا کرنے کے لیے کم محنت اور کم وقت درکار ہوتا ہے۔ یوں یہ لفظ کاہل یا کم مشقت کے ساتھ زیادہ وقت صرف کیے بنا راتوں رات کایا پلٹنے کے خواہش مندوں کے لیے بہت پرکشش ہے۔ ہم اپنے عوام کا جائزہ لیں تو بد قسمتی سے ہم بھی مجموعی طور اسی قسم کی تبدیلی کے رسیا واقع ہوئے ہیں۔ہم صبح صادق سے پہلے پہلے امیر ہونے کا خواب دیکھتے ہیں اس لیے انعامی پر چیوں کے نام پر دھوکا کھاتے ہیں۔ کسی قسم کی ورزش کے بغیر صرف کیپسول اور بھوک کے ذریعے سات دن کے اندر اندر ایک سو اسی پاو ¿نڈز وزن گھٹانا چاہتے ہیں۔ پھر سات دن بعد یا تو ہم ہسپتال پہنچ چکے ہوتے ہیں یا ہڈیاں ماس چھوڑ دیتی ہیں۔ یہی حال ہمارا سیاسی سطح پر ہے۔ ہمیں انقلاب کا نعرہ بہت بھاتا ہے۔ بے عملی میں لپٹا اسلامی انقلاب، کام چوری میں گندھا معاشی انقلاب اور چاپلوسی کی ملمع کاری سے آراستہ بوٹ مارکہ انقلاب۔ جب کبھی جس بھی سمت سے یہ صدا بلند ہوتی ہے ہم بنا سوچے سمجھے اس جانب لپکتے ہیں۔ انجام کار خواری اور انارکی کے سوا ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔
درحقیقت ہمارے یہاں انقلاب کا تصور بہت بڑے فکری مغالطے پر قائم ہے۔ اس کی مارکیٹنگ کرنے والے وہ لوگ ہیں جو سخت ذہنی و جسمانی جفاکشی سے گھبراتے ہیں اور شارٹ کٹ کے متلاشی رہتے ہیں . عملی جدوجہد کی راہ اختیار کرنے کی بجائے یہ لوگ محض تقریر و تبلیغ سے نظام تبدیل کرنے پر زور دیتے ہیں. ان لوگوں نے یہ تاثر قائم کر رکھا ہے جیسے انقلاب بہت ہی مثبت شے ہے۔ اس کے آتے ہی ہر طرف شانتی پھیل جاتی ہے، تمام مسائل چٹکی بجاتے حل ہو جاتے اور راوی چین ہی چین لکھنے لگتا ہے۔ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ انفرادی و گروہی سطح پر جدوجہد کے بغیر اور اصلاحات کے عملی اطلاق کے بنا نظام و مقام میں کسی قسم کی بہتری ممکن نہیں. اس لیے انقلاب کوئی مثبت تبدیلی نہیں۔ یہ تعمیری بھی نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک تخریبی عمل ہے۔ چونکہ انقلاب اچانک تبدیلی ہوتی ہے لہذا نا تو یہ پائیدار ہوتی ہے اور نا ہی سود مند۔ یہی تبدیلی اگر انسانی سماج میں ہو تو نقصانات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ حالیہ دو صدیوں میں دنیا میں دو بڑے انقلابات دیکھنے کو ملے۔ انقلاب فرانس اور ایرانی انقلاب۔ دونوں انقلابات اپنے ساتھ تخریب، انارکی، جبر اور تشدد لے کر آئے جس نے انسانی تاریخ کے چہرے کو لہو رنگ کیا۔ ایران تو اب بھی ریاستی جبر کے زیر اثر معاشرتی و سیاسی جمود کا شکار ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر انقلابی تغیر سود مند نہیں تو کون سا تغیر ہے جو انسانی سماج کو بہتری اور تعمیری روش پر گامزن کر سکتا ہے؟ جواب ہے ارتقا۔ جی ہاں ارتقا کائنات کی بنیادی سر گرمی ہے۔ یہ جنگل کے ویران غار میں پڑے بے جان پتھر سے لے کر انسان نما انتہائی پچیدہ ذی روح میں ہر لحظہ رواں دواں ہے۔ اگرچہ یہ سست اور مشقت طلب تغیر ہے مگر اسکا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں خامیاں جھڑتی جاتی ہیں اور خوبیاں جڑتی جاتی ہیں۔ اس عمل میں بچتا وہ ہے جو بہترین ہوتا ہے اس لیے یہ پائیدار ہوتا ہے اور دیر پا بھی۔ انسانی سماج بھی ارتقا پذیر ہے۔ ہماری روایات، عمرانیات، سیاسیات سمیت دیگر تمام علوم و شعبے ارتقا کی چکی میں پستے ہوئے ہم تک پہنچے ہیں۔ یہ ماضٰی سے بہتر ہیں اور آئندہ اس سے بہترین ہوں گے۔
جمود اور ارتقا ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ان میں سے ایک کی موجودگی میں دوسرا قطعا واقع نہیں ہوتا۔ چونکہ ارتقا خود کار عمل ہے اس لیے یہ آزاد معاشرت، معاشیات اور سیاسیات جیسے خام مال کی موجودگی میں بغیر کسی بیرونی قوت کے اپنے جوہر دیکھانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ دوسری طرف جمود کے لیے جبر درکار ہے کیونکہ یہ غیر فطری ہے۔ انسانی سماج کے وہ شعبے جہاں تسلسل ، سرگرمی، گہماگہمی، انسانی ذہنی و جسمانی مشقیں ملوث ہوں وہاں ممکنہ ارتقا کو روکنے کے لیے اگر جبراً جمود قائم کر دیا جائے تو یہ آمریت اور فاشزم کو جنم دیتا ہے۔ آمریت یا فاشزم کو انسان دوست سمجھنا ایک اور فکری مغالطہ ہے۔
پاکستان میں گزشتہ تمام ادوار میں آمریت کا دور دورا رہا ہے (ضیاء دور کو فسطائیت کا عہد کہنا بھی درست ہو گا کیونکہ تمام تر مشینری کو ارباب اختیار نے اپنے مذموم عزائم کے لیے استعمال کیا) جس میں سیاسی و سماجی سرگرمیوں کو جبراً تعطل کا شکار بنایا گیا۔ جس کے نتیجے میں جمہوری عمل جمود کا شکار رہا۔سیاست بہترین معاشرتی سر گرمی ہے جو عوام کو ذہنی طور پر پختہ اور توانا رکھتی ہے۔ ارتقائی عمل کے تحت عوام ہر دفعہ گزشتہ اناڑی پن اور غلطیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے درست انتخاب کے ذریعے بہتر سے بہتر فیصلے کرنے کی قابلیت حاصل کرتے ہیں۔ دوسری طرف سیاستدان کی شخصی تراش خراش بھی متوازی جزوی عمل کے طور پر جاری رہتی ہے۔ لیکن گزشتہ آمریت زدہ دور نے جوہڑ کے ساکن بدبودار پانی کی طرح ایک جامد سرانڈ مارتا ہوا مفلوج معاشرہ تشکیل دیا جس میں ارتقا مفتود تھا۔ تسلسل بہتری ناپید تھی۔ آگے کی طرف حرکت نہیں تھی۔ نتیجہ آج سامنے ہے۔ ہماری فکری، سیاسی، معاشرتی اور معاشی بنیادیں کھوکھلی ہیں۔ گزشتہ چالیس برس میں ہماری زمین کی بانجھ کوکھ نا بڑے سیاستدان پیدا کر سکی ہے، نا بڑے فنکار اور نا ہی عالمی سطح کے دانشور۔
لیکن گزشتہ بیس برس کے جبر، انارکی اور انتشار کے بعد جمود کے اس جامد جوہڑ میں سعی کی ہلکی سی جنبش اب امڈتی ہوئی محسوس ہو ئی جب نواز شریف نے پاکستان کے لبرل اور جمہوری مستقبل کی پیش گوئی کی۔ مندرجہ بالا طویل متن کے تناظر میں وزیراعظم کا یہ بیان بہت اہم ہے۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں واضح برتری سے ان کا سیاسی طاقت پر یقین بحال ہوا ہے۔یقینا یہ طاقت انہیں عوام نے فراہم کی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں اکثر یہ ہوائی اڑائی جاتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جسے اکثر آمریت کے روپ میں ظہور کا شرف حاصل ہوتا ہے قدامت پسند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار کے ایونوں کا راستہ ناپتے ہوئے قدامت پسند فصلی بٹیروں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو انقلابی جھنڈا لہراتے ہوئے عشروں سے عوام کو غیر متعلقہ ،غیر موثر اور خیر اہم ریاستی جز خیال کرتے ہوئے چند افراد کو ملت کے ستارے سمجھنے اور سب سمجھانے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ جمہوریت کو ناقص اور غیر موثر کہہ کر جمہوری تعطل کا خیر مقدم کیا. ان کے اصولی موقف کے مطابق سیاست سمیت معاشرے کے تمام شعبوں کا ایک مخصوص فکر کے سامنے سرنگوں ہو کر آمریت کی چھتری تلے پناہ لینے میں ہی ملک و ملت کی عافیت ہے۔ وزیر اعظم کامذکورہ بیان ان کے ارمانوں پر اوس بن کر پڑا ہے۔ انہیں رک کر اس مرحلے پر اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسانی ترقی کا سرچشمہ جبر و جمود نہیں تنوع و ارتقا ہے۔ عوامی طاقت کے حصول کا سرچشمہ بوٹ نہیں ووٹ ہے۔ جب یہ طاقت حاصل ہوتی ہے تو پھر جمود اور جبر کو زیادہ دیر قائم نہیں رکھا جاسکتا۔ پھر ارتقا شروع ہوتا ہے۔ذہنی غلامی سے ذہنی آزادی کی طرف.... تنزلی سے عروج کی طرف.... ۔ آمریت سے جمہوریت کی طرف اور قدامت پسندی سے روشن خیالی کی طرف۔ انتخابی عمل کے حالیہ تسلسل نے مختصر سے وقت نے جمہوریت جیسے ارتقائی عمل کی پائیداری اور اس کے جاندار ہونے کی گواہی دے دی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے جمود ٹوٹ رہا ہے. وزیراعظم کا حالیہ بیان اس کی ٹھوس شہادت ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔