Tuesday 19 January 2016

سیکولرازم سے دشمنی کیوں؟

0 comments

مذہب کی سیاست سے علیحدگی کے نعرے کو عمومی طور پر مذہب دشمنی اور تعصب پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے جو سراسر غلط فہمی پر مبنی رویہ ہے۔ مذہب کی سیاست سے علیحدگی کا مفہوم بہت سادہ اور آسان فہم ہے جسے مغالطوں اور پروپیگنڈے نے اب تک بہت پیچیدہ بنا کر پیش کیا ہے۔ مذہب کی سیاست سے علیحدگی، جسے عرف عام میں سیکولرازم کہتے ہیں، کا مطلب غیر جانبدار طرز حکمرانی ہے جس میں حکومت ہر طرح کے مذہبی تعصبات سے بالاتر ہو کر خالص انسانی بنیادوں پر قوانین وضع کرتی ہے جو معاشرے کے تمام افراد کو عدل و انصاف پر مبنی طرز زندگی بخشتے ہیں۔
آئین و قوانین میں مذہبی احکامات کی ملاوٹ جہاں ایک مذہبی گروہ کو من پسند جانبداری کے قانونی راستے فراہم کرتی ہے، وہیں ملک کے باقی افراد کے حقوق غصب کرنے کے قوی امکانات پیدا کرتی ہے۔ چونکہ قوانین افراد کے ہاتھوں اطلاق کے مراحل طے کرتے ہیں اس لیے ان خدشات کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ افراد ان قوانین کو اپنی منشا کے مطابق لاگو کرنے کی کوشش کریں گے۔ قوانین کی بنیاد میں موجود مخصوص رحجانات اور یک طرفہ جھکاؤ منتظمین کو ایسا کرنے کی حجت فراہم کرے گا۔ یوں مذہبی ریاست کسی نا کسی صورت میں شہریوں سے امتیازی سلوک روا رکھنے کی سزاوار ہو گی جو جدید اقوام کا طرہ امتیاز نہیں ہے۔ یہ دعویٰ کرنا بہرحال ممکن نہیں کہ مذہبی پیشوا غیر جانبدار ہوتے ہیں۔ تاریخ میں ہمیں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔
سیکولرازم کے خلاف زہر افشانی نے لوگوں کے رویے کو اس طرح سے تشکیل دیا ہے کہ وہ اسے مذہب کے خلاف مہم جوئی سے گمان کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت اس کے الٹ ہے۔ سیکولرازم کسی ایک مذہب کی اجارہ داری کو رد ضرور کرتا ہے مگر ساتھ ہی وہ تمام مذاہب کو تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ بیشتر ترقی یافتہ ممالک سیکولر طرز حکمرانی کے تحت چل رہے ہیں جن کے بارے میں ہمارا دعویٰ ہے کہ وہاں اسلام تیزی سے پنپ رہا ہے۔ سیکولر طرز حکومت( جو ہماری ڈکشنری میں مذہب دشمن ہے) میں یہ کیونکر ممکن ہے؟ اگر یہ مان لیا جائے کہ سیکولرازم مذہب دشمن ہے اور ساتھ ہی ہم ایسے اعدادوشمار پیش کریں جہاں مذہب سیکولرازم کے سائے تلے پنپ رہے ہوں تو اس کی منطقی توجیہہ کیا ہو سکتی ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ ان دو دعووں میں سے ایک غلط ہے۔ فی الوقت پہلا دعویٰ غلط تسلیم کر لیا جائے تو ہمیں یہ دعویٰ کرنا پڑے گا کہ سیکولر معاشرے مذہبی بنیادوں سے ماورا ہو کر افراد کو برابری فراہم کر رہے ہیں جہاں لوگ ذہنی و جسمانی طور پر اپنا راستہ چننے میں آزاد ہیں اور یہ آزادی انہیں سیکولر حکومت فراہم کرتی ہے. ایک لمحے کے لیے فرض کریں کہ اگر وہاں کا طرز حکومت عیسائیت پر مبنی ہوتا تو کیا تب بھی ہم اسلام کے فروغ کے اعدادوشمار اتنے ہی فخر سے پیش کر پاتے؟ میرا خیال ہے نہیں۔ کلیسا کے جاری کردہ مذہبی احکامات اور پابندیوں کے سائے تلے یہ ممکن ہی نہ ہو پاتا۔ یہ سیکولرازم ہی ہے جس نے تمام شہریوں کو آزادی دی اور انہیں قانون کے دائرے میں رہ کر اپنی زندگیاں گزارنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا۔ وہاں کا پرسکون، تحفظ کے احساسات سے لبریز اور آزاد ماحول ہی ہے جس کی کشش ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں افراد کو ان ممالک میں کھینچ لاتی ہے۔ یہ لوگ وہاں یونیورسٹیوں میں تعلیم پاتے ہیں، روزی کماتے ہیں اور آزادی سے جیتے ہیں۔ ان تمام مراحل کے دوران کہیں بھی انہیں اپنے معاشرتی یا مذہبی حقوق غصب ہونے کا ڈر نہیں ہوتا۔بلکہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ اپنے ممالک سے زیادہ ان معاشروں میں زیادہ اطمینان اور تحفظ محسوس کرتے ہوں گے۔
آئینی اور حکومتی سطح کے ساتھ ساتھ کسی حکمران کا انفرادی سطح کا مذہبی تعصب بھی کس طرح معاشرے میں انتشار لاتا ہے اسکی زندہ مثال بھارت میں مودی کے حکومتی کارناموں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ سیکولر آئین ہونے کے باوجود وزیراعظم کی ذاتی سوچ معاشرے کو پراگندہ کر رہی ہے۔ کہیں گائے کے گوشت پر پابندی لگائی جا رہی ہے اور کہیں لوگوں کے ذاتیات کے پیمانے طے کیے جا رہے ہیں اور مزید بہت کچھ ہونے کی توقع ہے۔ حکومت کی ذمہ داری کھانے کے نرخ اور معیار کو برقرار رکھنا ہے۔ یہ طے کرنا حکومت کا کام نہیں کہ لوگوں نے کیا کھانا ہے اور کیا پہننا ہے۔ ماضی کی طرح مودی کے اس طرح کے اقدامات ملک میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کا باعث تو بن سکتے ہیں لیکن کوئی مثبت اور تعمیری تبدیلی لانے میں ناکام رہیں گے۔ یہ ترجیحی اور امتیازی سلوک جہاں ایک طرف ہندوؤں کو ناجائز اختیارات فراہم کرے گا وہیں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں میں عدم تحفظ اور ردعمل کے جذبات پیدا کرے گا جس کا نتیجہ انارکی اور تخریب کاری کی صورت میں ہی نکلے گا۔
کچھ عرصہ پہلے ایک بھارتی نے مجھ سے سوال کیا. قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں اقلیتوں کی آبادی چودہ فیصد تھی جو اب گھٹ کر چار فیصد رہ گئی ہے۔ باقی دس فیصد لوگ کہاں گئے؟ میرے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔ شاید آپ کے پاس ہو۔ لیکن اگر آپ جواب میں یہ کہیں کہ دس فیصد لوگ مسلمان ہو گئے تو یہ حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہو گا۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔