Monday 26 September 2016

مغرب و مشرق میں خواتین کی طرف سے طلاق کے حصول کا بڑھتا ہوا رحجان

0 comments
لاہور ہائی کورٹ میں روزانہ رجسٹرڈ ہونے والے کیسز میں اوسط چالیس سے پچاس کیس طلاق کے ہوتے ہیں. ان کیسز کے اعداد و شمار کے مطابق دلچسپ بات جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ شادیاں ٹوٹنے کا رحجان ارینج میرجز میں زیادہ ہے.
ادھر مغرب میں صورتحال اس سے بھی بھیانک ہے. عام آدمی تو ایک طرف،تمام آسائشوں سے لیس امرا کا طبقہ جنہیں بظاہر کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں وہ اس اخلاقی گراوٹ میں دھنسے ہوئے معلوم ہوتے ہیں. ایک طرف انجلینا جولی طلاق پر مصر ہو گئی ہے اور دوسری طرف بل گیٹس کی بیوی نے طلاق کا مطالبہ کر دیا ہے. مشرق و مغرب کی اس مایوس کن صورت حال پر احباب دانش و حکمت اخلاقی اقدار سے رو گردانی اور انفرادیت پسندی کو اس بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا رہے ہیں.
یہ بات بطور حتمی سچ قبول شدہ ہے کہ خاندانی نظام کا آغاز عورت نے کیا تھا. مرد کو جنت سے نکالنے کی جتنی علامتی کہانیاں ہمیں لٹریچر مذہبی کتب اور فوک قصیدوں میں ملتی ہیں سب ہی میں عورت پر یہ الزام دھرا جاتا ہے کہ اس نے اناج کے دانے کے ذریعے ابن آدم کو بہکایا اور جنت سے نکال کر زمین پر لے آئی.
بتانے والے بتاتے ہیں کہ یہ علامتی کہانی انسانی تاریخ کے اس اہم موڑ کی طرف اشارہ کرتی ہے جب مرد جنگل کی ازاد فضاؤں میں شکار کے بہانے مختلف ایڈوینچرز سے لطف اندوز ہوا کرتا تھا تو پیچھے کھولی میں بچوں کی پیدائش کو رکھوالی کے لیے بیٹھی عمل تولید کے فطری جبر کی ماری عورت نے تجربات کرتے ہوئے زمین میں بیج ڈال کر فصل اگانے کا راز دریافت کر لیا. جو بعد میں اہم ترین انسانی دور یعنی زرعی دور کا پیش خیمہ بنا. اب مرد کے پاس خوراک کی تلاش کے لیے جنگلات کی کھلی فضا کی سیر کرنے کا بہانہ نا رہا اور وہ زمین میں بیج ڈال کر مہینوں اسکی رکھوالی کرنے اور ایک ہی جگہ محدود ماحول میں قید ہونے پر مجبور ہوا. کھیتوں سے چڑیا کوے اڑاتے ہوئے وہ عورت کو کوسنے لگا کہ جس کے اناج کے ایک دانے کے بل بوتے پر آدم سے جنت(جنگل) چھین لی. ابن آدم آج تک جنگل کی کھلی فضاؤں،بغیر کسی قیمت کے میسر پھولوں اور پھلوں اور جنگلات میں بہنے والی آبشاروں کو جنت کے بہانے یاد کرکے آہیں بھرتا ہے. دعا ہے کہ یہ آرزوئے ناکام نا ہو. اور مستقبل میں اس جنت کا حصول دوبارہ ممکن ہو جائے.
اب آتے ہیں خاندانی نظام کی طرف جس کے آغاز سے پہلے ہر قبیلے کے مردو زن مشترکہ جنسی تعلقات رکھتے تھے. اس کی باقیات آپ کو اب بھی مختلف خاندانوں(سکھوں) تہذیبوں(کزن میرجز) اور قبیلوں میں با آسانی دستیاب ہو گی. ڈسکوری چینل کی ایک ڈاکومنٹری کے ذریعے پتا چلا کے انڈیا کے ایک دور دراز علاقے میں ایک ایسا گاؤں آباد ہے جہاں گھر کی بہو گھر کے تمام مردوں کی بیوی ہوتی ہے. اگر ہم غور سے اپنے پرانے قصے اور لوک گیتوں کا مطالعہ کریں تو ایسیا مواد میسر آئے گا جس میں بھابھی کے دیور یا جیٹھ اور جیجا جی کے اپنی سالیوں کے ساتھ کسی نا کسی طرح کے جنسی سمبندھن کی نشاندہی ہوتی ہے. یہ سب اس دور کی باقیات ہیں. ایسے مشترکہ خاندانی نظام میں عورت کے لیے اپنی اولاد کی پرورش کی ذمہ داری کسی ایک مرد پر ڈالنا کھٹن تھا. لہذا اس نے یک زوجیت کے لیے جدوجہد کی اور بھرپور کامیاب رہی. یک زوجیت کے بعد انسانی تہذیب نے برق رفتاری سے ترقی یا ارتقاء کیا ہے.
ہم انسان جو اخلاقیات اور اقدار کا راگ آلاپتے ہیں دراصل ہم شعوری یا لاشعوری طور پر کائنات کے بنیادی اصول کو سمجھنے سے انکاری ہوتے ہیں. حرکت، تغیر، ارتقاء، تبدیلی یہ کائنات(مادہ) کی بنیادی خصوصیات ہیں. انسانی تاریخ کا ماخذ بھی الوہہ نہیں بلکہ یہی زمینی مادی ردو بدل ہیں. لہذا انسانی تاریخ کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا. آگے بڑھنے کے لیے پہلی جگہ چھوڑنی پڑتی ہے. پوزیشن تبدیل کرنی پڑتی ہے. یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہر شے جو جنم لیتی ہے اپنے عروج کو پہنچ کر، اپنی خدمات پیش کر کے منطقی طور پر زوال پذیر ہو جاتی ہے.
سائنس و ٹیکنالوجی کے پیدا کردہ معجزات جن سے ہم ناکوں ناک گھر چکے ہیں. جو نا صرف ہماری ضروریات بن چکے ہیں بلکہ ہماری ترقی اور ہماری سماجی اقدار کی نوک پلک سنوارنے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں. ایسی صورت میں یہ توقع رکھنا کہ ہم جدیدیت کے مزے تو چکھیں گے لیکن یہ جدیدیت ہماری سماجی بنیادوں کو نہیں چھیڑے گی کافی احمقانہ خیال ہے. نئے اوزار و آلات کے ساتھ ہم پرانی رویات و اقدار حنوط کر سکیں گے یہ بات عقل پر پوری نہیں اتری. آخر ایسا کونسا فارمولا ہے جس کے تحت انسانی عقل، انسانی شعور، اسکی روایات، اسکی اقدار کو intact رکھا جا سکتا ہے جبکہ ارد گرد کی ہر شے تغیر پذیر ہو؟
غلام داری اور ذرعی ادوار میں عورت نے خود کو پیداواری سرگرمیوں سے دور رکھا اور بالواسطہ یا بلاواسطہ معاشی طور مرد پر منحصر رہی. اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اپنی اور اپنے بچوں کی روزی کے انتظام کے لیے اس نے مرد سے ہزار ہا تلخ سمجھوتے کیے لیکن اب صورتحال مختلف ہو رہی ہے. میرے نزدیک معاشی مجبوری انسان کی سب سے بڑی مجبوری ہے. اور عورت اب معاشی طور پر مجبور نہیں رہی. شاید وہ اب بھی سمجھوتے کرنا چاہتی ہے لیکن اب ان سمجھوتوں کی نوعیت اور طرح کی ہے. اس قسم کے تضادات موجودہ خاندانی بحران کی نمایاں وجوہات قرار دیے جا سکتے ہیں.
مزید برآں ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین کی ابھرتی ہوئی صلاحیتوں، عملی زندگی میں انکے نمودار ہوتے ترقی یافتہ اور ذہین رویے، پیداواری ذرائع تک آسان رسائی، عمل تولید میں میسر سہولیات سمیت دیگر عوامل نے خاندانی نظام کی سابقہ اہمیت میں دراڑ ڈال دی ہے. نسل انسانی کو بڑھانے کے نت نئے طریقے دریافت ہو رہے ہیں. سائنس کہیں ماں کے بغیر بچے پیدا کرنے کے دعوے دار ہے اور کہیں باپ کی اہمیت سے انکاری ہے. ایسے میں خاندانی نظام کی تباہی کو انسانی تاریخ کے المیے کے طور پر پیش کرنا شاید مناسب اپروچ نہیں. مختصر ترین الفاظ میں یہ کہنا مقصود ہے کہ نسل انسانی کی نشوونما اب خاندانی نظام کی محتاج نہیں رہی. نا ہی اسکا اخلاقیات سے کوئی تعلق ہے. بدلتی روایات کی اخلاقیات بھی بدل جاتی ہیں. غیر متغیر اخلاقی نظام کے خلاف کیا یہ دلیل کافی نہیں کہ انسانی اخلاقیات کے یکساں، غیر متغیر اور خامیوں سے مبرا پیمانے آج تک کوئی طے نہیں کر سکا؟ 

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔