Saturday 19 December 2015

اے سی

4 comments

چھت کا پنکھا سست روی سے گھوم رہا تھا ۔ حاکم کی نگاہیں پنکھے کے محور میں پیوست تھیں۔ پوری سکت سے کھلی ہوئی اسکی آنکھوں پر کسی بھی  دیکھنے والے کو موت کا گماں ہو سکتا تھا  لیکن اسکے سینے کا زیر و بم اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ موت اس سے ابھی کوسوں دور بیٹھی محو تماشہ ہے۔ حاکم نے زور لگاتے ہوئے اپنا بایاں بازو اٹھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔۔ اس نے پوری قوت سے اپنی ٹانگ ہلانے کی سعی کی مگر پاؤں کے انگوٹھے میں ہلکی سی جنبش کے سوا کچھ بات نا بن سکی۔۔ ‘میں اس قدر بھی لاچار ہو سکتا ہوں؟’۔۔ اس نے خود سے سوال کیا۔۔ ‘کبھی سوچا تھا کہ انجام اتنا بھیانک ہو گا؟؟’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘ نہیں تو۔۔۔۔ انجام کب بھیانک ہے’۔۔ اس کے ضمیر نے الہڑ مٹیار کی طرح اتراتے ہوئے اسکی بات کی نفی کی۔۔ ‘اس کمرے کو دیکھو۔ اپنے ارد گرد بکھری ان مہنگی اشیا کو دیکھو۔ان مشینوں کو دیکھو جو تمھاری زندگی کا بوجھ اٹھا رہی ہیں۔۔ اس نفیس چھت کو دیکھو۔ اپنے جہازی پلنگ کو دیکھو۔۔ اس کمرے کی قیمت بیس لاکھ سے کم نا ہو گی۔۔ تم بہت مہنگی موت مرنے جا رہے ہو میرے دوست۔۔۔۔ دنیا تمھاری مرگ پہ رشک کرے گی۔۔۔۔ دیکھنا۔۔۔تمھاری نماز جنازہ علاقے کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہو گا۔۔۔۔۔آخر کو تم سیٹھ حاکم علی گورایا ہو۔ جس کی زندگی پہ ایک زمانہ رشک کرتا ہے۔۔ تم پر یہ لاچاری جچتی نہیں۔۔ تمھیں فاتح نظر آنا چاہیے’’۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے دماغ میں کوئی استراہیہ ہنسی ہنستے ہوئے اعدادو شمار کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔‘‘رشک؟؟ کیسا رشک؟؟ کس چیز کا رشک۔۔۔۔۔ میں اپنی آخری جنگ بغیر تلوار و میان تن تنہا لڑ رہا ہوں۔۔ وہ جنگ جو میں میدان میں اترنے سے پہلے ہی ہار چکا تھا۔۔ لیکن جسکی ہار کا احساس مجھے متاع زندگی لٹا کر ہوا’’۔۔۔۔۔۔۔۔ حاکم کا دم گھٹنے لگا۔۔ اس نے سانس خارج کرنے کی کوشش کی تو سینے میں درد کی ایک گہری ٹھیس اٹھی۔۔ مگر نا تو وہ درد سے کراہ سکا اور نا ہی اپنے جسم کو دہرا کر سکا کہ لوٹ پوٹ کر ہی کچھ سکون حاصل کر سکے۔۔ اس کے جسم کے خلیے بے جان مادے کے ایٹموں کا روپ دھارے اسکی قوت ارادی کا ساتھ دینے سے قاصر تھے۔۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اسکا دماغ بہت چوکس اور مستعدی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔وقفے وقفے سے اسکے سینے میں اٹھنے والی درد کی یہ لہریں اس کے دماغ کو بیدار رکھنے میں معاون تھیں۔۔۔ اسکے حواس خمسہ اسکی آنکھوں میں سمٹ آئے تھے۔ بغیر ڈیلے گھمائے ہر منظر اسے کے سامنے واضح تھا۔۔ اسکی دائیں جانب کھڑکی پر  لٹکے بھورے رنگ کے دبیز پردے باہر ہونے والی دھماچوکڑی کا شور جذب کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ حاکم کو ڈھول کی ہلکی سی تھاپ سنائی دے رہی تھی۔ ۔ اسکی پشت پر لگے اے سی کا درجہ حرارت بیس ڈگری سینٹی گریڈ پر سیٹ تھا۔ لیکن اب رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ دن کے سورج کی تپش رات کی ہلکی سی حبس میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اے سی کمرے میں ٹھنڈک پھینک رہا تھا اور سردی سے حاکم کا بدن مزید سن ہو رہا تھا۔ اسے شدت سے ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ یا تو کوئی اس کی ٹانگوں پہ پڑا کمبل اسکے منہ تک اوڑھا دے یا پھر اے سی کا درجہ حرارت زیادہ کر دے۔۔ لیکن پچھلے پانچ گھنٹوں سے کمرے میں کسی نے جھانک کربھی نہیں دیکھا تھا۔ بذات خود اس میں حرکت کرنے کی سکت نا تھی کیوں کہ دو ماہ پہلے فالج کے  شدید اٹیک نے اسکا دھڑ مار دیا تھا۔

حاکم کی عمر تقریباً اکہتر برس تھی۔۔  اس نے زندگی میں بڑی مشقت کی تھی اسلیے اسکی کمر جھک گئی تھی۔ کاندھے اندر کو مڑ گئے تھے اور بال سفیدی سے دوبارا سلیٹی رنگت کی جانب مائل تھے لیکن اس کے تمام دانت سلامت تھے۔۔ وہ گینٹھیے،، ہیپاٹائٹس شوگر جیسی امراض سے محفوظ تھا۔۔ فالج کے حملے سے پہلے تک وہ بہت مستعد آدمی تھا۔۔ مشقت اور جدوجہد اسکے خمیر میں شامل تھی اس لیے وہ ٹک کر نہیں بیٹھتا تھا۔ اپنی بیوی کی وفات کے ایک گھنٹے پہلے تک اس نے کبھی بڑھاپا محسوس نہیں کیا تھا۔ لیکن بیوی کی موت کے چند یوم بعد ہی اسے احساس ہونے لگا کہ وہ عورت اسکی زندگی کا سب سے لازمی حصہ تھی۔ وہ عورت جسے کبھی اس نے غور سے بھی نہیں دیکھا تھا وہ اسکا رؤواں رؤواں پڑھتی تھی۔ اس کے بولنے سے پہلے اسکی بات سمجھ لیتی تھی۔ اٹھنے سے پہلے اسکی نگاہ کا مقصد جان لیتی تھی۔ چائے کے ذائقے سے لے کر جرابوں کی رنگت تک وہ اسکی ہر پسند نا پپسند سے واقف تھی۔ اسکی لاتعلقی کو خندہ پیشانی سے اپنے وسیع قلب میں سمو لیتی تھی۔وہ اسکی زندگی کا اتنا اہم جز تھی کہ  اسکی موت کے تین دن بعد اسے احساس ہوا کہ اس کی مدد کے بغیر وہ ڈبل روٹی پر مکھن لگانے کے بھی قابل نہیں ہے ۔ اس کے بغیر وہ اکیلا، لا وارث اور اپنے ہی گھر میں اجنبی تھا۔ اس قلق نے اسے دو ماہ کے اندر اندر دیمک کی طرح چاٹ لیا اور اب وہ رخت سفر باندھ رہا تھا ۔ بیوی کا خیال آتے ہی اسکا دل کیا کہ وہ سائید ٹیبل سے اپنی شادی کی تصویرنکال کر دیکھے جس میں وہ معمولی سی عورت اسکے پہلو میں سر جھکائے دبکی بیٹھی تھی۔ وہ بمشکل اسکی بغل تک آتی تھی۔ اس وقت یہ خواہش اتنی شدت سے جاگی کہ حاکم سے رہا نا گیا اور اس نے اپنے جسم کو حرکت دینے کی آخری کوشش کرتے ہوئے زور لگایا۔۔ وہ سائیڈ ٹیبل تک تو نا پہنچ سکا مگر اس کی کلائی  میں لگی ڈرپ کی سوئی نکل گئی اور بازو پلنگ سے نیچے لڑھک گیا۔ اسکے ماتھے پر پسینہ چمکنے لگا اور سانس پھول گئی۔ ۔ اسکے حلق میں کانٹے چبھنے لگے۔ وہ پانی پینا چاہتا تھا۔۔اس نے کسی کو آواز دینے کی کوشش کی مگر غوں غاں کی دو تین آوازوں کے سوا منہ سے کچھ برآمد نا ہوا۔  باہر سے اب پیروں کی دھمک کی آوازیں بھی آ رہی تھی۔۔ آج اسکے  بڑے پوتے کی مہندی تھی۔۔ تین بیٹوں، ایک بیٹی ، دو نواسیوں چار پوتوں اور پانچ پوتیوں والا حاکم علی گورایا اپنے آخری سفر میں بالکل اکیلا تھا۔ بے بسی کے اس احساس میں اسکی آنکھ سے ایک آنسو نکلا اور اسکی گردن کی سلوٹ میں پیوست ہو گیا۔ ‘کیا ہوا طارق علی؟ کیوں پریشان ہو’۔۔اچانک اسے اپنی ماں کی آواز سنائی دی ۔۔ اس نے دیکھنے کی سعی میں نگاہ  گھمائی مگر منظر میں بے جان اشیا کے سوا کوئی زی شعور نا تھا۔ اسکی ماں دو مواقع پر ہی اسے پورے نام سے بلاتی تھی۔۔ ایک جب وہ اس سے بہت خوش ہوتی۔۔یا جب وہ افسردہ ہوتا  تب اسکی ماں دلجوئی کے لیے لجاہت سے اسے پورے نام سے پکارتی۔۔۔ ‘کیا ہوا ہے میرے لعل کو’۔۔ وہ اب اسکے سرہانے بیٹھی اسکے بال جما رہی تھی۔۔ تو پریشان نا ہو ۔۔۔۔ بس وہ کر جو میں کہتی ہوں۔۔۔۔ ماں کی سنے گا تو بیڑے پار لگیں گے۔ ۔۔وہ اپنے مخصوص جملے دہرا رہی تھی۔ حاکم کو یہ جملے بہت اچھے سے یاد تھے ، انہی کے گرد تو اسکی زندگی کا پہیا گھوما تھا۔۔ ماں کی فرماں برداری اسکا نصب العین تھا۔۔ اور کیوں نا ہوتا اسکی ماں اس قابل تھی کہ اسکی پوجا کی جاتی۔۔ اس کے ہر حکم پر اپنی خواہشات کو قربان کیا جاتا۔۔ اس کے ہر فرمان پر سرتسلیم خم ہوتا. ماں کی زندگی کا محور بھی تو وہ ہی تھا۔۔ وہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس سے بڑی دو بہنیں تھیں جن کی وقت پہ  شادی کرکے ماں نے گھر سے رخصت کر دیا تھا۔ وہ اس وقت ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ ان کی دو ایکٹر زمین تھی جس پر اسکے ابا کھیتی باڑی کرتے ۔ ان کا اچھا بھلا گزر بسر ہوتا تھا۔ ویسے بھی اس کی ماں بہت سگھڑ عورت تھی، کپڑا اور پیسہ سینت سینت کر رکھتی تھی۔۔ دو دو چار چار سال بعد اسکے پاس سے وہ  کپڑے برآمد ہوتے جن کے رنگ اور ڈیزائن بھی کسی فرد کو یاد نا ہوتے۔  ماں کی فطرت دابو تھی۔ اسکا بھلا مانس باپ جو کماتا لا کر اسکے ہاتھ پر رکھ دیتا۔ باہر کے معاشرتی و معاشی معمالات کے ساتھ ساتھ اسکی ماں گھر کے ہر معاملے میں بھی خود مختار تھی۔ شریکے میں سب کے دو دو تین تین بیٹے تھے ۔ جبکہ وہ اکیلا۔ اس محرومی کو دور کرنے کے لیے ماں نے یہ راستہ نکالا کے بیٹے کو خوب پڑھاؤں اور بڑا آدمی بنا کر شریکے کے سینے پر مونگ دلوں۔ لہذا جیسے ہی اس نے  انٹر میں داخلہ لیا۔ انہوں نے زمین بیچی اور شہر کی طرف ہجرت کر گئے۔ شہر میں پہلی رات ماں خوب روئی تھی۔ اسے اپنی زمین اور گھر چھن جانے کا غم تھا،،  ماں کو روتے دیکھ کر حاکم کا دل بھر آیا۔ وہ اپنی ماں کی آنکھوں میں آنسو دیکھنے کی سکت نہیں رکھتا تھا، اس رات اس نے اپنی ماں سے وعدہ کیا کہ وہ بہت لگن سے کام کرے گا۔ دو کی بجائے دس ایکٹر زمین خریدے گا اور شہر میں انکا زاتی مکان ہو گا۔ اسکی ماں مطمئن ہو گئی۔

حاکم محنتی تو تھا مگر زیادہ زہین نا تھا۔ وہ مقابلے کا امتحان تو نا پاس کر سکا مگر جیسے تیسے ایم اے کر کے منشی بھرتی ہو گیا۔۔اسی دوران اسکی ماں نے اسکے لیے لڑکی ڈھونڈی اور اسکی شادی کر دی۔ باپ کی طرح اس نے بھی کبھی ماں کے فیصلوں سے اختلاف نا کیا تھا۔ نا ہی اسے کبھی اسکی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ لہذا شادی سمیت زندگی کے تمام ضروری لوازمات خوش اسلوبی سے انجام پا گئے۔
اسکی بیوی ایک حلیم عورت تھی۔ وہ کم بولتی تھی۔ اس کے مطالبات کم تھے۔ وہ فرمائشیں بھی کم کرتی تھی۔۔ کیا واقعی ایسا تھا؟ حاکم نے سوچا۔ مجھے جاننا ہے کہ وہ کیسی عورت تھی۔۔ وہ کم گو تھی یا میں نے کبھی اس کے الفاظ  سننے کی کوشش نا کی۔ وہ جو کبھی قہقہ لگا کر نہیں ہنسی تھی کیا وہ خوش نہیں تھی؟؟ ۔ ۔ ۔ وہ اپنی شادی کے ابتدائی ایام یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ کیا واقعی رقیہ ایسی تھی؟ اس نے جلدی جلدی یادوں کی فلم کو ریورس میں گھمایا اور مختلف سین گھنگالنے لگا۔۔ جانے کیوں آج وہ جاننا چاہتا تھا کہ رقیہ کیسی زندگی گزارنے کی متمنی تھی۔ اسے وہ لمحات یاد آئے تو اسکا سینہ درد سے بھر گیا۔ شرمندگی سے اسکی پیشانی عرق آلود ہو گئی۔۔ اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ رقیہ کیا چاہتی تھی. اس کے گھر آتے ہی اس نے رٹے رٹائے جملے بولے تھے۔۔ اس کچھ کچھ یاد آ رہا تھا۔ اس نے کہا تھا  مجھے میری ماں دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ہے۔ اور اس کے بعد زندگی میں میرا مقصد اپنے چچیروں کو مات دینا ہے۔۔ لہذا میرا ساتھ دینا اور عام عورتوں کی طرح میری زندگی اجیرن مت کرنا۔میرے پاس اتنی فرصت نا ہو گی۔۔ حاکم کو رقیہ کی خاموش مگر حیرت زدہ آنکھیں یاد تھیں۔۔ رقیہ تم کیوں نا بولی اس وقت۔۔ وہ اندر ہی اندر تڑپا۔۔ کیوں نا مجھے ٹوکا۔۔ کاش تم نے مجھے بتایا ہوتا کہ  زندگی زندہ رہنے کا  نام نہیں بلکہ یہ جیے جانے والی شے ہے.. اور میرے پاس جینے کی فرصت نا تھی..

‘‘حاکم؟ ’’ ۔۔ یہ دوسری نسوانی آواز اسکی بیوی کی تھی۔ ‘‘میرا دل گلاب جامن کھانے کو کر رہا ہے’’۔ ۔ اسکی بیوی امید سے تھی۔ اور اسے مارکیٹ سے آئے ابھی دس منٹ ہوئے تھے جب اس نے یہ فرمائش کردی۔حاکم نے اب پٹواری کی نوکری کے ساتھ  بڑے بازار میں دوکان خرید لی تھی۔وہ آہستہ آہستہ ترقی کی منازل طے کر رہا تھا۔ لیکن اتنی مشقت اسے بری طرح تھکا بھی دیتی تھی۔۔۔ آج بھی وہ تھکن سے چور تھا۔ اس نے بیوی کی آواز پر توجہ نہیں دی۔۔ وہ کوئی آدھے گھنٹے بعد دوبارہ کمرے میں آئی۔۔‘‘ حاکم میرا گلاب جامن کھانے کو بہت دل کر رہا ہے قسم سے’’۔۔ وہ اس کے چہرے پر جھکی ہوئی تھی۔ حاکم کا اٹھنے کا بالکل اراداہ نہیں تھا مگر نجانے کیوں وہ اس کے ابھرے ہوئے شکم کی محبت میں اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔ اگلی صبح ناشتے پر ماں نے اسے سمجھایا۔ ‘‘یہ عورتوں کے نخرے ہوتے ہیں کہ یہ دل کر رہا ہے وہ دل کر رہا ہے۔ہم نے چار چار بچے پیدا کیے۔لیکن کبھی ایسے چسکے لگانے کا دل نہیں کیا تھا۔۔ نا ہی کبھی ایسا اوچھا سوچا۔ عورت ان پٹھنگوں سے مرد کی دولت خرچ کرواتی ہے۔صرف اپنی اہمیت بنانے کے لیے۔۔ یاد رکھ۔۔ اچھی بیوی وہ ہے جو مرد کی کمائی کو سنبھالتی ہے۔۔ لیکن اب وہ زمانے کہاں۔۔ اب تو بیویاں بیویاں نہیں ملکائیں بننے کی شوقین ہیں.. اونہہ ’’۔۔ اس نے اختلاف نا کیا تھا کیونکہ ماں کا موقف اصولی تھا۔ ایسے کتنے ہی اصولی موقف تھے جس سے اس نے کبھی اختلاف نہیں کیا تھا۔۔ حالانکہ اسے اختلاف کرنا چاہیے تھا۔۔مثلا اسے اس اصول کو توڑنا چاہیے تھا کہ دوران زچگی عورت کے سرہانے منڈلانا بے شرمی ہے۔۔ اسے ڈھیل دینا۔۔ اس کے ناز اٹھانا رن مریدی ہے۔۔یا اسکی کسی بات سے اتفاق کرنا اور اس کے کسی مشورے پر عمل کرنا نامردی ہے۔۔ ابا نے بھی تو ساری زندگی یہ اصول توڑے تھے۔ وہ کیوں نا توڑ سکا۔ وہ کیوں نا باپ کے نقش قدم پر چلا۔ اسے اپنا چغد باپ اچانک بہت سمجھدار دکھائی دینے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ اسکی کمائی پر جس عورت کا سب سے زیادہ حق تھا وہ صابر، شاکر اور سگھڑ جیسے القاب اوڑھے منوں مٹی تلے سو رہی تھی اور اسکی جمع پونجی باہر لان میں وہ لوگ اڑا رہے تھے جو شائید اس کے پورے نام سے بھی واقف نا تھے۔  پٹاخوں کے شور اور بندوق کی فائرنگ کی آواز نے اسکی سوچ کا سلسلہ منطقع کر دیا۔۔ حاکم کے سینے کے  درد میں سردی کی وجہ سے اضافہ ہو رہا تھا۔ اسکی بے جان ٹانگوں میں سویاں سی چبھ رہی تھیں ۔ پیاس سے حلق میں کانٹے اگ آئے تھے۔ اچانک دروازہ کھلا اور اسکا منجھلا بیٹا اندر داخل ہوا۔ اس نے غور سے باپ کا جائزہ لیا ۔ اسے پکارا ۔۔ اسکی آنکھوں میں زندگی کی رمق کا اندازہ لگایا۔۔ سینے پر کان رکھ کر دھڑکن سننے کی کوشش کی۔ ۔ اور بوکھلاتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔۔  کچھ توقف کے بعد تینوں بیٹے باپ کے بستر کے گرد کھڑے کھسر پھسر کر رہے تھے۔ ان کی باتوں سے اسے اندازہ ہوا کہ وہ اسے مردہ سمجھ رہے ہیں۔۔ اسکا کا دل کیا کہ وہ چیخ چیخ کر انہیں بتائے کہ میں زندہ ہوں۔۔ اے سی کا ٹمپریچر زیادہ کرو تا کہ میری پسلیوں کے سن پٹھے بحال ہو سکیں اور میں ٹھیک سے سانس لے سکوں۔۔ میری رگوں میں جما ہوا خون رواں ہو اور میری حرکت قلب بحال ہو۔ اے سی کا ٹمپریچر بڑھاؤ تاکہ  میری سکڑی جامد پتلیاں حرکت کر سکیں۔ اور میں تمھیں باور کروا سکوں کہ میں ابھی مرا نہیں ہوں۔۔ابھی زندہ ہوں۔۔ لیکن وہ اسکی خاموشی کو سننے سے قاصر تھے۔۔دس منٹ کی میٹنگ کے بعد وہ باہر چلے گئے۔۔ شائید وہ ڈاکٹر کو بلائیں گے۔ اس نے امید سے سوچا۔۔ شائید ان میں سے کسی کو خیال آئے گا کہ کمرے کی آب و ہوا میں گڑ بڑ ہے۔ اسکا بڑا بیٹا تو بہت سمجھدار تھا۔ اور اسکا فرمانبردار بھی۔ لیکن آج وہ بھی عجلت میں تھا۔ وہ کیوں عجلت میں تھا۔ اسکے بیٹے کی شادی ہے اس لیے؟ میں بھی تو اسکا باپ ہوں۔ وہ باپ جس نے بیٹوں کو اعلی تعلیم اور روزگار کے لیے مشقت کی۔ اٹھارا اٹھارا گھنٹے گھر سے باہر گزارے۔جب تک وہ پڑھتے تھے اس نے کبھی کسی اچھے ریستورنت میں کھانا نہیں کھایا۔ کبھی دوستوں کے ساتھ  راتیں باہر نہیں گزاریں۔۔ اپنی گاڑی نہیں لی تھی۔۔رقیہ کو نئے جوڑے نہیں دلواتا تھا۔۔ نا کبھی اس کے ساتھ کسی پر فضا مقام پر گیا۔۔ بچوں کو مہنگے جوتے دلانے کے لیے وہ اپنی سستی پینٹیں خریدتا تھا۔ مگر یہ سب اچانک کیوں بدل گئے۔۔میری ترجیحات ہمیشہ یہ رہے۔ انکی ترجیحات کیوں بدل گئیں۔ وہ اپنے آپ سے سوال کر رہا تھا کہ دروازہ پھر سے کھلا۔ اس بار بیٹوں کے ساتھ اسکی بیٹی بھی تھی۔ وہ اسکے سرہانے بیٹھ کر رونے لگی۔ ‘‘بس کرو عالیہ۔۔ چند گھنٹے صبر کر لو۔۔ گھر میں فنکشن چل رہا ہے۔۔ کیسے صبر کر لوں’’۔۔ وہ دبی دبی آواز میں چلائی۔۔ ابا فوت ہو گئے ہیں نعمان بھائی۔ آپ کو یہ سب رکوانا ہو گا۔۔ عالیہ سب مہمان گھر پر جمع ہیں۔۔ بارات نکلنے میں کچھ دیر باقی ہے۔۔ لڑکی والوں کی طرف پورے انتظامات ہیں۔۔ تم سوچ سکتی ہو کہ کتنا نقصان ہو گا۔۔ اگر ہم چند گھنٹے ابا جی کی موت کی خبر چھپا لیں تو کونسی قیامت آجائے گی۔ ویسے بھی جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے۔۔ یہی مشیت ایزدی تھی ۔۔لیکن ہمیں عقل سے کام لینا چاہیے۔۔ تھوڑی سی پس و پیش کے بعد وہ رضا مند ہو گئی اور آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔۔  آپ کی بات درست ہے بھائی جان۔ ۔۔ جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا۔۔ لیکن اتنے گھنٹے لاش کو رکھنا۔۔۔۔۔ اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔۔ میں نے اسکا طریقہ سوچا ہے باجی،، اے سی کا درجہ حرارت کم کر دیتے ہیں ۔۔ آٹھ دس گھنٹے کچھ نہیں ہو گا۔۔ ہاں یہ ٹھیک ہے۔۔ سب ہی متفق نظر آنے لگے۔۔ بڑے بیٹے نے ریمورٹ پکڑ کر درجہ حرارت سیٹ کیا اور سب باہر نکل گئے۔۔ حاکم  کے متحرک دماغ پراب  غنودی چھانے لگی تھی۔ اسکی رگوں میں تناؤ پیدا ہو گیا اور اعصاب چٹخنے لگے۔۔۔ رنگت سفید ہوگئی اور ہونٹوں پر پریٹری جمنے لگی۔۔۔آہستہ آہستہ حاکم کے سینے میں درد کی جگہ ایک نیم گرم غبار نے لے لی۔۔ اور پورے جسم میں حرارت کی ایک لہر دوڑنے لگی ۔۔ دماغ کی متحرک سکرین بجھ گئی اور وہ ابدی نیند سو گیا۔۔

Friday 18 December 2015

سیکس اور عورت

8 comments
پچھلے دنوں میں نے ایک جنسی لطیفہ پوسٹ کیا جس پہ بحث چھڑ گئی۔ زیادہ تر کمنٹس تو نظر انداز کرنے والے تھے مگر میرے دو معزز دوست ایسی بات کر رہے تھے جن کا جواب دینا لازمی تھا۔ لہذا ننگی باتیں ہوئیں۔ لیکن کچھ ایسے افراد جنکی زندگی کا واحد مقصد گلی کوچوں کے تھڑوں پر بیٹھ کا آتی جاتیوں کے بارے میں رائے زنی کرنا ہوتا ہے۔ وہ سوشل میڈیا جیسے باکمال فورم پر آ کر بھی عادتا اوچھی حرکتیں کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ انہوں نے میرے کمنٹس کے سکرین شاٹس لیے اور اب گلی گلی ملکوں ملکوں گروپوں گروپوں لیے گھوم رہے ہیں کہ دیکھو یہ عورت کیسی ننگی باتیں کرتی ہے۔۔

 مجھے ایسے بونوں کی رتی برابر پرواہ نہیں لیکن چونکہ کہ اب موضوع چھڑا ہے اور بچہ لوگ بھی گرم ہوئے گھوم رہے ہیں تو مجھے مناسب لگ رہا ہے کہ یہ اچھا موقع ہے کہ میں اپنے موقف کو تفصیل سے ’کھول کر‘ بیان کر دوں۔

سیکس ایک آرٹ ہے۔ فن ہے۔ اس کے لیے جاندار قسم کی ذہنی قوت اور جنسی ہم آہنگی درکار ہے۔۔ جو لوگ اس سے محروم ہوتے ہیں دوران سیکس ان کی حرکات و سکنات میں اضطراب پایا جاتا ہے ۔ ایسے لوگوں میں حیوانی خواہش انگڑائی تو لے رہی ہوتی ہے مگر بوجہ کم علمی و جہالت اور لطافت و جمالیاتی حس سے محرومی کی وجہ سے وہ ٹھیک طریقے سے انکا لطف اٹھانے سے قاصر رہتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر ان کی انسانی جنسی خواہش درندگی کا روپ دھار لیتی ہے اور وہ ۔۔زور زبردستی کرنے۔۔ خون نکالنے۔ من مانی کرنے،، جسمانی طاقت دیکھانے کو سیکس سمجھنے لگتے ہیں بلکہ اس سب کو وہ اپنا پیدائشی حق سمجھنے لگتے ہیں۔ ایسے مواقع پر سمجھدار عورت اپنی ممکنہ مجبوری کی وجہ سے مرد کے سامنے سرنگوں تو ہو جاتی ہے لیکن ایسے مرد کی حیثیت اسکی نظر میں اس کتے سے زیادہ نہیں رہتی جو اسے بھنبھوڑ رہا ہوتا ہے اور جس سے خلاصی حاصل کرنے کا واحد راستہ ہڈی ڈال کر سائیڈ پہ ہو جانا ہی رہ جاتا ہے۔ دوستو یاد رکھیں اگر آپ کی قربت عورت کو یہ احساس نا دلا سکے کہ وہ کسی جزیرے کی شہزادی ہے تو آپ ایک ناکام مرد ہیں۔ اگر آپ کا لمس اس کی ذات پر نشہ اور سرشاری کی کیفیت نا طاری کر سکے تو مان لین کہ آپ کو سیکس کرنا نہیں آتا۔۔ اصیل مرد کی قربت میں عورت کو اپنا وجود ہیرے جواہرات سے مزین مھسوس ہوتا ہے جبکہ دوسری صورت میں گندگی کا ڈھیر۔۔

  آپ لاکھ مجھے گالی دیں مگر یہ حقیقت اپنی جگہ قائم رہے گی کہ سیکس کے متعلق عورت بھی ایک رائے رکھتی ہے۔۔ سیکس کے متعلق اس کے بھی مخصوص احساسات ہیں۔۔ اسکی بھی چوائس ہے۔۔ دوران سیکس عورت کو کچھ اچھا لگ رہا ہوتا ہے۔ کچھ اچھا نہیں لگ رہا ہوتا۔۔ وہ کچھ چاہ رہی ہوتی ہے اور کچھ نہیں چاہ رہی ہوتی۔۔ وہ یا تو مرد کی قربت کا مزہ لے رہی ہوتی ہے یا پھر اسے ہڈی ڈال رہی ہوتی ہے (یہ دریافت کرنا مرد کی ذمہ داری ہے کیونکہ بعض دفعہ وہ اتنی بے نیاز ہوتی ہے کہ اسکا اظہار کرنا بھی گوارا نہیں کرتی) جو زوایہ بھی پکڑ لیں یہ سچ ہے کہ  سیکس میں عورت برابر کی شریک کار ہے۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گی کہ عورت مرد سے زیادہ لطف اندوز ہوتی ہے۔ سیکس عورت کے لیے ہے۔ مرد اسکا سیکس ورکر ہے( اسکی سادہ سی دلیل یہ ہے کہ دوران سیکس مشقت والا سارا کام مرد کرتا ہے) اگر اسکا سیکس ورکر اپنے فرائض ٹھیک سے سرانجام دینے سے قاصر رہتا ہے تو عورت اس سے بور ہونے لگتی ہے۔ اکتا جاتی ہے۔ لہذا جن مردوں کو یہ شکایت ہے کہ ان کی بیویاں ان میں دلچسپی کا اظہار نہیں کرتی انہیں چاہیے کہ ممکنہ وجوہات ڈھونڈ کر انہیں رفو کریں۔ اپنی خامیاں دور کریں۔ خود کو بھی ایجوکیٹ کریں اوور اپنی بیویوں کو بھی۔

  کچھ جوڑوں میں تو شروع سے ہی سیکسوئیل کمپیٹیبلٹی نہیں ہوتی۔ انکا الگ ہو جانا ہی بہتر ہے کیونکہ  معاش کے ساتھ ساتھ سیکوشئیل کمپیٹیبیلٹی کے بغیر کامیاب تعلق کا تصور ناممکن ہے وہ بھی اس صورت میں کہ جوڑا جسنی طور پر صحت مند، جاندار اور باشعور ہو۔(ایک ہوش مند مرد یاعورت اپنے پارٹنر کی  شراکت کے بغیرسیکس انجوائے نہیں کر سکتا۔۔ اگر وہ کر رہا ہے تو ذہنی مریض ہے۔)

میں اپنی کولیگز میں سب سے جونئیر ہوں۔ میری سب کولیگز تیس سے لے کر پچپن کے پیٹے میں ہیں۔۔ دو نے حج کیے ہوئے ہیں۔۔ ایک نے عمرہ کر رکھا ہے۔۔ جبکہ ایک کا تعلق خالص سید فیملی سے ہے۔۔ روزانہ دوران لنچ جب محفل جمتی ہے تو انکی باتوں ، لطائف،،حقائق و واقعات کا زیادہ تر موضوع سیکس ہوتا ہے۔۔ قہقے ہوتے ہیں۔۔ ٹھٹھہ لگایا جاتا ہے۔ وہ سب لطف اندوز ہوتی ہیں۔یہ صرف ایک مثال ہے۔ مین جانتی ہوں کہ تقریبا ہربے تکلف اور نجی محفل میں ایسے ہی لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ عورت بھی سیکس سے متعلق سوچتی ہے۔ بات کرتی ہے۔۔ رائے زنی کرتی ہے اور نقطہ نظر قائم کرتی ہے۔
۔
میرے بچو۔ ایسے موضوع روز روز نہیں چھڑتے۔۔ لہذا میں بغیر کوئی لگی لپٹی کے نصیحت کرتی جاتی ہوں کہ کوئی بھی عقل مند عورت ایسے مرد سے  وفا نہیں کرتی جو..

اسے عزت نا دے( ownership )
معاشی طور پر کمزور ہو
اسے جنسی آسودگی نا فراہم کر سکے

 ایسا مرد عورت پر بوجھ ہے۔ اسکے گلے کا پھندا ہے۔ (اب ہمارا سماجی نظام اتنا ناقص ہے کہ ہم نے چالاکی سے عورت کو یہ باور کروا رکھا ہے کہ ہر ایرے غیرے نتھو ولد خیرے کے ساتھ اسکا رہنا عین عبادت اور فرض ہے لہذا وہ وفا کو خود پر طاری کر کے بلکہ مسلط کر کے عجیب ترحمانہ زندگی گزارتی ہے)۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر ایسے مردوں کو ہمیشہ عدم تحفظ کا احساس رہتا ہے۔۔ یہ عدم تحفظ انکی باتوں اور افعال سے عیاں ہوتا رہتا ہے۔ مثلا ایسے مرد حد درجہ شکی مزاج ہوتے ہیں۔ وہ اپنی عورتوں پر نظر رکھتے ہیں۔۔ بلکہ ان کی رکھوالی کرتے ہیں۔ایسے کسی مرد کی بیوی اگر ہنس کر اپنے کزن سے دعا سلام بھی کر لے تو اسے موت پڑ جاتی ہے۔ یہ لوگ  مجبورا اپنی بیووں کو موبائل تو دلا دیتے ہیں مگر outgoing بند کر دیتے ہیں۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔ میں تو کہتی ہوں کہ اگر ہمارے یہاں اینج میرج کا رواج نا ہوتا تو ایسے مرد عورتوں سے محروم نظر آتے۔۔ لیکن سات سلام ہمارے سماجی و معاشی نظام کی کارستانیوں کو جس نے ایسے چغدوں کو بھی بچی باز بنا دیا۔۔ اورآج وہ اس معاملے میں ہر فن مولا قسم کے ماہر بنے گھومتے ہیں۔۔ خود کو ہر گندی حرکت کا حقدار سمجھتے ہیں لیکن اگر کوئی خاتون اس بارے میں بات بھی کرے تو کہتے ہیں۔۔ دیکھو دیکھو یہ عورت ننگی باتیں کرتی ہے۔

Monday 30 November 2015

نیک دل آدمی

1 comments

نیک دل آدمی
.................
ویگن میں رش تھا مگر حلیمہ کو گھر جانے کی جلدی تھی اس لیے ویگن رکتے ہی وہ اسکی جانب لپکی..کنڈکٹر نے ایک آدمی کو اٹھا کے اس کے لیے جگہ بنائی. حلیمہ نے کپڑوں لتوں کے دو شاپر اندر پھینکے اور پھرتی سے سوار ہو گئی..
'لائیں بچی کو میری گود میں بٹھا دیں'..ساتھ بیٹھے ادھیڑ عمر آدمی نے بازو آگے بڑھایا." نہیں"  اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا.. لہجے میں ہلکی سے غراہٹ تھی..آدمی چونکا اور کھسیانا ہو کر پرے دیکھنے لگا..
لمحے کے ہزارویں حصے میں اٹھارہ سال پرانے خیالات بجلی بن کر اسکے دماغ میں کوندے.. ماضی کے پردے سے اسی قسم کی بازگشت سنائی دے رہی تھی..کوئی کہہ رہا تھا
' اماں بچی کو میں گود میں بٹھا لیتا ہوں..کوئی بات نہیں اپنی  بیٹی ہے'..اپنا عصا اور کپڑوں کی گٹھڑی سنبھالے ہانپتی ہوئی بڑھیا بڑے تشکر سے اس نیک دل آدمی کو دیکھتی جو بعد میں سارا راستہ حلیمہ کے بدن کو سہلاتا رہتا.اسے گود میں بٹھائے پہلو بدلتا.چپکے سے اس کے گالوں پہ,ہونٹوں پہ بوسے دیتا..سات سالہ حلیمہ گود میں کسی شے کی سختی محسوس کرنے لگتی جو اسے زرہ بھی اچھی نا لگتی تھی.وہ بہت بے چینی محسوس کرتی مگراس بے چینی کی وجہ سمجھنے سے قاصر رہتی.  حلیمہ کبھی اپنی نانی کو بھی کچھ نا بتا سکی کیونکہ بتانے کو کچھ تھا ہی نہیں..وہ ننھیال میں رہتی تھی اور نانی کے ساتھ اپنی ماں سے ملنے جاتی تھی....ایسا اکثر ہوتا.. کوئی نا کوئی با اخلاق آدمی اسکی نانی کی مدد کرنے کو تیار رہتا..وہ ضد کرتی کہ نہیں بیٹھنا تو نانی ڈانٹ دیتی . یوں وہ ہونقوں کی طرح سوکھے حلق اور گندے احساسات کے بوجھ تلے دبی,سہمی ,ڈری اپنے سٹاپ آنے کا انتظار کرنے لگتی....ساتھ بیٹھی نانی یا تو خراٹے لے رہی ہوتی یا اسی نیک دل آدمی کو اپنی پر اسرار بیماریوں کی علامات بیان کر رہی ہوتی.
نانی تو کچھ عرصے بعد مر گئی مگربچپن کے دور کی وہ بے چینی اب غلاظت اور شرمندگی کے احساسات میں بدلتی جا رہی تھی....اور تین بچوں کی ماں بننے کے باوجود یہ واقعات اب تک ڈراونے خوابوں کی طرح اسے یاد تھے.جب وہ یہ سوچتی کہ اسے کس مقصد کے لیے ..کس طریقے سے اور کس انداز سے استعمال کیا جاتا رہا تو اسے خود سے گھن آنے لگتی..بیٹھے بیٹھے اسکا خون کھولنے لگتا..مگر کہیں کچھ بدلا بھی تھا..
  میری ماں اور نانی نے تو مجھے نیک دل آدمیوں سے نہیں بچایا تھا مگر میری بچی کسی نیک دل آدمی کا لقمہ نہیں بنے گی.. حلیمہ نے اپنی بیٹی کو سینے کے ساتھ بھینچ کر لگا لیا

کرماں والی

0 comments

''اے بکھّاں۔۔اے بکھّاں۔۔۔۔اُٹھ۔۔اُٹھ جا ''
کوئی اسے کندھے سے پکر کر جھنجھوڑ رہا تھا۔اُس نے بڑی مشکل سے آنکھیں کھولیں۔اسکا گھر والا شریف دین اس کے سر پر کھڑا تھا۔
''بس اٹھنے لگی ہوں۔۔'' بکھاں نے سستی سے کروٹ لیتے ہوے کہا۔۔
''چھیتی کر ۔ ۔ مجھے چلم گرم کر کے دے''۔
وہ اپنی دھوتی سمبھالتے ہوے چارپائی پر جا بیٹھا۔۔گہری نیند سے جاگنے کے بعد بکھاں کے اعضاء سن ہو رہے تھے جسکی وجہ سے اس سے ہلا نہیں جا رہا تھا مگر اٹھنا ضروری تھا ورنہ شامت آجاتی۔وہ اٹھی اور چارپائی پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئی۔پاس ہی اسکے دونوں بچے سو رہے تھے۔وہ انھیں جگانے کے لیے آوازیں دینے لگی۔
''سونے دے میرے پُتّروں کو''۔
شریف کی کھردری آواز گونجتے ہی وہ چپ ہو گئی اور کپڑے جھاڑتے ہوےسست رفتاری سے نلکے کی طرف چل دی۔ مشرق کی طرف سے پھوٹنے والی لالی اس کے گھر کی نیچی اور کچی دیوار پھلانگ کر اس کے وسیع صحن میں پھیل رہی تھی ۔ صحن میں لگے نیم کے قد آور پیڑ وں پر چڑیوں نے شور مچا رکھا تھا۔جب وہ منہ ہاتھ دھو رہی تھی تو آپس میں گتھم گتھا دو چڑیاں اسکے سامنے آ گریں۔
''لَےدسّ ۔ کِنج لڑ رہاں ۔ انہاں نےآپس میں بھلا مربّے ونڈنے ہیں؟ ۔۔جھلیاں نہ ہوں تو''۔۔
وہ ہنسی اور ہاتھ مار کے ان کو اڑانے لگی ۔
''بدبختے چھیتی ہل۔ ۔ہڈیوں میں پیپ ہے تیرے؟''۔
شریف کی غراتی ہوئی آواز نے اسکا پیچھا کیا تو اس کے بدن میں جیسے بجلی دوڑ گئی۔لکڑیوں اور اُپلوں سے چولہے میں آگ سلگھانے کے بعد اس نے شریف کےلیے بڑے سے چینی کے پیالے میں دہی نکالا ۔باقی دہی چاٹی میں ڈال کر مدھانی سے مکھن نکالنے لگی۔ شریف نے دہی کا پیالہ چڑھایا ،کچھ دیر حقہ گڑگڑایا اور بیل گاڑی جوتنے لگا۔ دونوں لڑکے اٹھے اور حسب معمول کچھ کھائے پیے بغیر باپ کے پیچھے بھاگ گئے۔
ظہر کی اذان سے کچھ دیر پہلےتک وہ مال ڈنگروں سمیت سب ضروری کام نبٹا چکی تھی ۔کمرے میں آنے کے بعد آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا جائزہ لیتے ہوئےوہ بالوں میں کنگھی پھیرنے لگی۔اسکا رنگ گورا ،آنکھیں درمیانی اور ماتھا چوڑا تھا۔اس وقت اسکی عمر بمشکل اکیس برس تھی مگر اسکے بالوں میں چاندی جھلکنے لگی تھی۔ دیوارپہ ٹنگے دھندلے سے آئینے میں اس نے غور سے خود کو دیکھا۔آنکھوں کے کناروں پر ہلکی ہلکی سلوٹیں نمودار رہی تھیں۔بکھّاں نے جب اپنے دوپٹے کے پلو سے انکو صا ف کرنے کی کوشش کی تو وہ اور نمایاں ہو گیئں۔ اس نے اداسی سے ٹھنڈی آہ بھری اور بازار میں کھلنے والی کھڑکی کے پٹ کھول کر بیٹھ گئی۔ ۔اکیس برس کی عمر میں ہی وہ عورت لگنے لگی تھی۔ایسا ہونا تو بہت پہلے طے ہوگیا تھا جب محض پندرہ برس کی عمر میں اسکی شادی کر دی گئی تھی۔چھ بہنوں میں سے وہ سب سے بڑی تھی۔اپنے میاں جی کی لاڈلی تھی۔اسکے میاں جی امام مسجد تھے اور بڑے پرہیز گار تھے۔ وہ اکثرانگلی پکڑ کر اسے اپنے ساتھ باہر لے جاتے۔چیزیں دلاتے۔اسکا ماتھا چومتے۔لیکن لگاتار اوپر تلے لڑکیوں کی پیدائش کے بعد وہ بھی کچھ بدل سے گئے تھے۔اکثر باہر رہتے اور رات کو دیر سے گھر لوٹتے ۔جسکا نتیجہ یہ نکلا کی بی بی سارا دن اسے ڈانٹتیں۔اسکی چھوٹی بینوں کو بے وجہ مارتیں۔البتہ گھر کی بھاری بھر کم ذمہ داریاں سنبھالنے کی وجہ سے وہ مار سے بچی رہتی ۔انکے خاندان میں مرد سفید کلف زدہ بڑے کُلّے والی پگڑیاں باندھتے تھے جسکی وجہ سے خاندان ''کُلّے والا'' کہلاتا۔
عمرکے چودویں سال اچانک جب اس نے قد نکالا تو بی بی جان کوہول اٹھنے لگے۔لہذا دور کا اک بھتیجا ڈھونڈ کر اسکی شادی کر دی گئی۔ویسے بھی سفر کھٹن تھا۔چھ پہاڑ عبور کرنے تھے(اگر چہ چھٹا پہاڑ ابھی شیرخوار تھا) اس لیے اسکے والدین اپنے اس فعل میں حق بجانب تھے۔ یہ شادی بے جوڑ تھی،اسکا گھر والا پستہ قد کا بدمزاج اور ادھیڑ عمرآدمی تھا۔سُلفے کی لاٹ جیسی کم عمر بیوی پانے کے بعد وہ اندر ہی اندر خود کو کم تراور غیر محفوظ محسوس کرنے لگا۔جس کا نتیجہ شک،سختی اور درشتگی کی صورت میں نکلا۔وہ بے جا بکھّاں کو دبانے کی کوشش کرتا، بد زبانی کرتا اور ہاتھ اٹھاتا۔کچے ذہن کی بے بس لڑکی سب ہنس کے سہہ لیتی کیونکہ رخصتی کے وقت بی بی جان نے اسے کہا تھا " ہم تیرا جتنا اچھا کر سکتے تھے کر دیا۔دھیے! گزارا کرنا ہے.. کیوں کہ تیرے پیچھے آنے والا کوئی نہیں۔تیری بہنوں کے مستقبل کے لیے تیرا گھر وسّنا بہت ضروری ہے۔ تووسّ کے دکھائیں... ۔جو وی ہوے چپ کر کے سہہ لئیں... ، سی نہ کریں..." ۔وہ اس بات کا مطلب بخوبی سمجھتی تھی چنانچہ اسے قسمت سمجھ کر سمجھوتہ کر لیا۔شادی کے شروع کے چند مہینے وہ گاؤں میں ہی رہے مگر پھر شریف کے اور میاں جی کے اختلافات شروع ہو گئے۔میاں جی عزت دار آدمی تھے جبکہ شریف کی خصلت میں کمینہ پن تھا۔وہ فطرتاً جھگڑالو تھا۔گاؤں میں اکثر اسکا کسی نہ کسی کے ساتھ جھگڑا رہتا جسکا نتیجہ طور پر میاں جی کو بھگتنا پڑتا۔وہ پنچایتوں میں اس کے حصے کی معافیاں مانگتے جس کی وجہ سے انکی بہت سُبکی ہوتی۔بکھاں کو بھی اس بات کا بہت ملال تھا۔ کیوں کہ وہ اپنے میاں جی سے بہت پیار کرتی تھی ۔ان کو یوں خوار ہوتے دیکھ کر اسکا دل کڑھتا۔مگر وہ عملی طور پر بے بس تھی۔ایک دفعہ میاں جی نے شریف کو سمجھانے کی کوشش کی تو وہ ہتھے سے اکھڑ گیا اوراول فول بکنے لگا ۔یہی نہیں میاں جی کے جانے کے بعد اس نے سارا نزلہ بکھاں پر گرایا۔اس رات وٹّہ گرم کر کے وہ دیر تک بدن پہ ثبت نیل سیکتی رہی ۔
پھر قدرت کی مہربانی نے انگڑائی لی اور50ء کے عشرہ میں حکومت کی طرف سے کسانوں کو تھل میں زرعی زمینیں الاٹ کرنے سلسلہ شروع ہوا تو شریف کو بھی قسمت آزمائی شوق چڑھ آیا اور اس نے لیّہ میں تھوڑی سے زمین اپنے نام الاٹ کرالی ۔ بکھاں کو ماں باپ سے بچھڑنے کا غم تو تھا مگر وہ جانے کے لیے خوشی خوشی تیار ہوگئی کیونکہ ان کے گاؤں چھوڑنے سے میاں جی کا عذاب ختم ہو جاتا۔اور نہیں تو کم از کم وہ انکی نظروں سے اوجھل ہو جاتی۔نہ وہ اسے پستا ہوا دیکھتے اور نہ انہیں ایذا ملتی۔۔کتنی سادہ سی بات تھی۔چنانچہ وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ لیّہ کے نواہی گاؤں میں منتقل ہو گئے۔
پچھلے چار برسوں کے دوران اسے کوئی ملنے نہ آیاتھا۔آتا بھی کیسے؟ اتنی دور آنے کی سکت کس میں تھی۔ بکھاں کو کوئی گلہ بھی نہ تھا۔ لیکن میکے کی جو کھینچ تھی اسکے دل میں وہ اسے ختم نہ کر سکی۔اس کے من میں ایک پھانس رہتی۔اسے اپنی امبڑی، اپنی ماں جائیوں کی فکر رہتی۔اسے اپنے میاں جی کا خیال ستاتا کہ وہ اتنی بیٹیوں کی زمہ داریوں کے بوجھ تلے کیسے زندگی بتا رہے ہوں گے؟۔اسکا وجود تو لیّہ میں تھا مگر اسکی روح دور وسطی پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پرواز کرتی رہتی جہاں اسکے ماں باپ اسکے پیارے بستے تھے۔ اچانک کھڑکی کے اُس پار ہلچل مچی تو بکھّاں کے خیالوں کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ سورج اپنی منزلیں طے کرتا ہوا مغرب میں اتر رہا تھا۔جسکی تمازت کھڑکی سے اندر پھیل رہی تھی۔اس نے باہر جھانکا۔کوئی تانگہ آکے رکا تھا۔ سفید کپڑوں میں ملبوس ایک دراز قد اورباریش آدمی تانگے سے اتررہا تھا۔ "میاں جی" ۔۔۔۔۔خوشی سے اس کے منہ سے چیخ نکلی اور وہ پیلی چنری سر پہ اوڑھتے ہوئے دروازے کی طرف لپکی۔ میرے میاں جی۔۔۔۔وہ تڑپ کے آگے بڑھی۔میاں جی نے اسے اپنی بغل میں لے کر سر پہ ہاتھ پھرا۔۔
''کیسی ہے میری دھی؟ ''
میاں جی نے پوچھا تو وہ پھوٹ کے رو دی۔۔
''تساں مینوں بھل گئے سن میاں جی''۔۔
''نا پتر تو تو میری بکھا ں ہے۔۔میری بکھاں والی، کرماں والی دھی۔اتنی دور کے پینڈے۔بس انہاں نے روک رکھا۔پر تیری بی بی روز لڑتی تھی مجھ سے کہ جاؤ اور میری بکھاں کی خبر لاؤ۔ پردیساں وچ جانے کیا کرتی ہووے گی''۔۔
وہ چلتے چلتے نیم کے نیچے بچھی چارپائی تک آئے اور اسے ساتھ لگا کر بیٹھ گئے۔۔
''میں ہر روز اڈیکتی تھی''۔ بکھاں نے ٹھنک کر شکوہ کیا ۔ آنسو تھے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
'' کملیئے کیوں روتی ہے۔تو بوٹی ہے میرے جگر کی ۔تیرا میاں جی آ تو گیا ہے۔۔شیر پتر بن۔۔چل مجھے کوئی لسّی پانی دے''۔۔
وہ چونک کے اٹھی۔ ۔نئی چارپائی نکالی.. اس پرسفید کھیس بچھایا. ۔حقہ تازہ کر کے ان کے پاس رکھا۔ہمسائے سے تایا کو بلا کر اصیل ککڑ حلال کروا کے ہانڈی چڑھا دی۔۔آج اس کے تلّوے زمین پر نہیں لگ رہے تھے۔وہ پٹولا بنی گھوم رہی تھی۔اس کی بی بی نے اس کے لیے سامان بھیجا تھا۔ جو وہ گٹھری سے نکال کے دیکھ رہی تھی۔اس کے کپڑے تھے،گڑ تھا،چاندی کی بالیاں تھیں۔دیکھ دیکھ کے بچوں کی طرح اسکی قلقاریاں نکل رہی تھیں۔اسی دوران شریف گھر میں داخل ہوا۔اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔گھر کا منظر بدلا ہوا تھا۔نیلے رنگ کے نئے جوڑے میں ملبوس بکھاں اسکے سامنے آئی۔۔
''پیرو کے اباّ۔۔۔میرے میاں جی آئے ہیں ''۔۔
اس نے چہکتے ہوئے اطلاع دی۔مگر فطرت سے مجبور شریف کے ماتھے پر تو بل پڑ گئے تھے۔
''آگیا ہے تو میں کیا کروں؟دوھڑے گاؤں؟''
وہ بے زاری سے بولا اور ریڑھی سے چارہ اتارنے میں مصروف رہا۔بکھاں کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔تسلی سے کام ناٹک کر شریف مہمان کے پاس آیا اور سلام کر کے حقہ پینے بیٹھ گیا۔دور تندور پہ روٹیاں لگاتی بکھّاں نے اس کے تیور بھانپ لیے تھے " یہ کوئی رنگ دکھائے گا آج" وہ منہ میں بڑبڑائی۔.. ربّا خیر رکھیں.. اس نے گہری سانس لیتے دل میں دعا کی۔مگر شائید وہ گھڑی قبولیت کی نہیں تھی۔جب بکھّاں میاں جی کے سامنے کھانا لگا رہی تھی تو شریف کی دھاڑ سنائی دی
'' بد ذاتے وچھّا کدھر ہے''؟۔
وہ جو پچھلے ایک گھنٹے سے بکھاں پر برسنے کا بہانہ ڈھونڈ رہا تھاآخر کار اسے بہانہ مل گیا تھا۔
اس نے سب کچھ وہیں چھوڑا اور مویشیوں کی طرف بھاگی۔ جانور رسّہ تڑوا کر جانے کب باہر نکل گیا تھا۔
''ادھ ۔۔۔۔ادھر ہی ہو گا کہیں''۔ وہ منمنائی۔۔ ''پیرُو وے پیرُو ۔ ۔ جا بھاگ کے جا دیکھ کدھر گیا وچھّا۔ وہ پیرُو کو آوازیں دینے لگی''
شریف نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور بکھاں کو دو ہاتھ جڑ دیے
''اوئے جوانا! ۔۔۔۔۔۔۔ٹھل جا ۔۔۔۔۔۔حیا کر۔۔میاں جی کھانا چھوڑ کر آ گئے''۔
''تو جا روٹیاں توڑ وڈی حیا والیا۔۔اپنی دھی کی کرتوتیں نہیں دیکھی تم نے؟باشی عورت''۔
وہ جانے کیا کیا کہہ رہا تھا کہ میاں جی کا ہاتھ اٹھا اور اس کے منہ پر نشان چھوڑ گیا۔
''بے حیا۔ کسی آئے گئے کا ہی حیا کر لے ''۔
میاں جی مارے ضبط کے کانپ رہے تھے۔شریف کے منہ سے تف اڑنے لگی۔۔وہ میاں جی کے گلے پڑ گیا اور ان کی قمیض پھاڑ دی۔ لات مار کے چارپائی الٹا دی۔۔سالن کا کٹورا میاں جی کی پگڑی پر گرا اور پگڑی کٹورے سمیت زمین پر گری۔ساتھ ہی عزت بھی خاک میں مل گئی۔۔
''چل نکل میرے گھر سے''۔
وہ میاں جی کو کھینچنے لگا۔۔
''رب کا واسطہ ہے پیرُو کے پیو۔۔نہ تماشا کر۔۔میرا میاں چار ورے بعد آیا ہے''
بکھاں شریف کی منتیں کرنے لگی۔
''تو بھی چل ساتھ ہی''۔
اس نے بکھّا ں کو دھکا دیا۔۔ اتنے میں لوگ جمع ہو گئے ۔۔سب شریف کو سمجھانے لگے۔۔کسی نے وچھّا لا کر باندھ بھی دیا تھا۔۔مگراتنی دیر میں منظر بدل چکا تھا۔۔سی تک نہ کرنے والی بکھّاں زمین پر بیٹھی دو ہتھڑ مار مار کر ، خاک اڑا کے خود پہ ڈال رہی تھی۔۔میاں جی نے پگ اٹھائی اور گلے میں ڈال کر اس کے پاس آئے۔۔
''اچھا دھیے۔تیرے باپ کی بدنصیبی کہ یہ دن بھی دیکھنا تھا۔رب کسی ویری کو بھی دھیوؤں کے دکھ نہ دکھائے''۔
وہ سرخ آنکھیں لیے کانپتی آواز میں گویا ہوے ۔۔انہوں نے شکستہ انداز میں اسکے سے پر ہاتھ پھیرا اور دروازے کی طرف چل دیے۔۔
''میاں جی۔۔۔وہ درد سے چلائی ۔۔میرے اچے کُلے والے میاں جی۔۔۔۔۔ہائے وے ڈاڈھیا ربا۔۔ویکھ تھلّے آ کے ویکھ ا ج میرے میاں جی کی پگ رل گئی ''۔۔
میاں جی ہٹکورے لیتے ہوئے لمبی لمبی قدم اٹھاتے دور جا رہے تھے وہ اُن کے پیچھے بھاگی۔اس کی ہمسائی نے اسے پکڑا۔۔
''پاگل نہ بن بکھّاں خود کو سنبھال۔۔ شریف نے تیرے میاں جی کے ساتھ بہت برا کیا۔۔مگر توُ جائے گی تو توُاور برا کرے گی۔تجھے ادھر ہی رہنا ہے۔۔یہی بہتر ہے۔۔تیرے لیے ۔ تیرے میاں جی کے لیے۔۔تیری بہنوں کے لیے۔۔توُاگر آج چلی جائے گی تو سوچ کیا ہو گا۔وہ وہیں زمین پر ڈھیر ہو گئی'' ۔
اسکا کلیجہ پھٹ رہا تھا .ذلت کے شدید ترین احساس سے اسکا وجود کانپ رہا تھا۔اسکی آنکھی لہو رنگ ہو رہی تھیں۔۔آج وہ حقیقتا بکھر گئ تھی۔۔آہ و زاری سے اس کے گلے کی رگیں پھٹنے کے قریب ہو گئیں۔کچھ توقف کے بعد وہ اچانک اُٹھ کے بھاگی۔۔گاؤں سے باہر نکلی اورایک ٹیلے پر چڑھ کر میاں جی کو دیکھنے لگی۔وہ روتے ہوئے، ٹیڑھے میڑھے ریتلے راستے پر تیز تیز چلے جا رہے تھے۔اس کی ہچکیاں تھم رہی تھیں۔۔طوفان آکر گزرچکا تھا۔۔ہاتھ کا چھجا بنا کر آنکھوں پہ سایہ کیے وہ انہیں دیکھتی رہی یہاں تک کہ وہ نقطہ بنےاور غائب ہو گئے ۔۔شام ہو رہی تھے۔۔آسمان پر پرندے غول در غول اپنے گھونسلوں کی جانب لوٹ رہے تھے۔اسے بھی واپس جانا تھا۔

''اے بکھّاں۔۔اے بکھّاں۔۔۔۔اُٹھ۔۔اُٹھ جا۔۔۔۔۔کوئی اسے کندھے سے پکر کر جھنجھوڑ رہا تھا۔مگر بکھّاں کو آج کوئی خوف نہیں تھا اس لیے شریف کے جھنجھوڑنے کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔۔۔اے اٹھ بدبختے۔اکّڑ دیکھاتی ہے؟۔۔شریف نے جھلّا کر اس کا کاندھا کھینچ کر اپنی طرف کیا۔بکھّا ں کی نیم واہ آنکھیں بے جان تھیں۔۔ساری رات اذیت کے دوذخ میں جلنے والی بکھّاں کو راہ فرار مل گئی تھی،اب کوئی اس کو تکلیف نہیں دے سکتا تھا۔۔اب کبھی اس کی وجہ سے اسکے میاں جی کی پگ روندی نہیں جا ئے گی۔