Saturday 19 December 2015

اے سی

4 comments

چھت کا پنکھا سست روی سے گھوم رہا تھا ۔ حاکم کی نگاہیں پنکھے کے محور میں پیوست تھیں۔ پوری سکت سے کھلی ہوئی اسکی آنکھوں پر کسی بھی  دیکھنے والے کو موت کا گماں ہو سکتا تھا  لیکن اسکے سینے کا زیر و بم اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ موت اس سے ابھی کوسوں دور بیٹھی محو تماشہ ہے۔ حاکم نے زور لگاتے ہوئے اپنا بایاں بازو اٹھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔۔ اس نے پوری قوت سے اپنی ٹانگ ہلانے کی سعی کی مگر پاؤں کے انگوٹھے میں ہلکی سی جنبش کے سوا کچھ بات نا بن سکی۔۔ ‘میں اس قدر بھی لاچار ہو سکتا ہوں؟’۔۔ اس نے خود سے سوال کیا۔۔ ‘کبھی سوچا تھا کہ انجام اتنا بھیانک ہو گا؟؟’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘ نہیں تو۔۔۔۔ انجام کب بھیانک ہے’۔۔ اس کے ضمیر نے الہڑ مٹیار کی طرح اتراتے ہوئے اسکی بات کی نفی کی۔۔ ‘اس کمرے کو دیکھو۔ اپنے ارد گرد بکھری ان مہنگی اشیا کو دیکھو۔ان مشینوں کو دیکھو جو تمھاری زندگی کا بوجھ اٹھا رہی ہیں۔۔ اس نفیس چھت کو دیکھو۔ اپنے جہازی پلنگ کو دیکھو۔۔ اس کمرے کی قیمت بیس لاکھ سے کم نا ہو گی۔۔ تم بہت مہنگی موت مرنے جا رہے ہو میرے دوست۔۔۔۔ دنیا تمھاری مرگ پہ رشک کرے گی۔۔۔۔ دیکھنا۔۔۔تمھاری نماز جنازہ علاقے کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہو گا۔۔۔۔۔آخر کو تم سیٹھ حاکم علی گورایا ہو۔ جس کی زندگی پہ ایک زمانہ رشک کرتا ہے۔۔ تم پر یہ لاچاری جچتی نہیں۔۔ تمھیں فاتح نظر آنا چاہیے’’۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے دماغ میں کوئی استراہیہ ہنسی ہنستے ہوئے اعدادو شمار کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔‘‘رشک؟؟ کیسا رشک؟؟ کس چیز کا رشک۔۔۔۔۔ میں اپنی آخری جنگ بغیر تلوار و میان تن تنہا لڑ رہا ہوں۔۔ وہ جنگ جو میں میدان میں اترنے سے پہلے ہی ہار چکا تھا۔۔ لیکن جسکی ہار کا احساس مجھے متاع زندگی لٹا کر ہوا’’۔۔۔۔۔۔۔۔ حاکم کا دم گھٹنے لگا۔۔ اس نے سانس خارج کرنے کی کوشش کی تو سینے میں درد کی ایک گہری ٹھیس اٹھی۔۔ مگر نا تو وہ درد سے کراہ سکا اور نا ہی اپنے جسم کو دہرا کر سکا کہ لوٹ پوٹ کر ہی کچھ سکون حاصل کر سکے۔۔ اس کے جسم کے خلیے بے جان مادے کے ایٹموں کا روپ دھارے اسکی قوت ارادی کا ساتھ دینے سے قاصر تھے۔۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اسکا دماغ بہت چوکس اور مستعدی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔وقفے وقفے سے اسکے سینے میں اٹھنے والی درد کی یہ لہریں اس کے دماغ کو بیدار رکھنے میں معاون تھیں۔۔۔ اسکے حواس خمسہ اسکی آنکھوں میں سمٹ آئے تھے۔ بغیر ڈیلے گھمائے ہر منظر اسے کے سامنے واضح تھا۔۔ اسکی دائیں جانب کھڑکی پر  لٹکے بھورے رنگ کے دبیز پردے باہر ہونے والی دھماچوکڑی کا شور جذب کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ حاکم کو ڈھول کی ہلکی سی تھاپ سنائی دے رہی تھی۔ ۔ اسکی پشت پر لگے اے سی کا درجہ حرارت بیس ڈگری سینٹی گریڈ پر سیٹ تھا۔ لیکن اب رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ دن کے سورج کی تپش رات کی ہلکی سی حبس میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اے سی کمرے میں ٹھنڈک پھینک رہا تھا اور سردی سے حاکم کا بدن مزید سن ہو رہا تھا۔ اسے شدت سے ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ یا تو کوئی اس کی ٹانگوں پہ پڑا کمبل اسکے منہ تک اوڑھا دے یا پھر اے سی کا درجہ حرارت زیادہ کر دے۔۔ لیکن پچھلے پانچ گھنٹوں سے کمرے میں کسی نے جھانک کربھی نہیں دیکھا تھا۔ بذات خود اس میں حرکت کرنے کی سکت نا تھی کیوں کہ دو ماہ پہلے فالج کے  شدید اٹیک نے اسکا دھڑ مار دیا تھا۔

حاکم کی عمر تقریباً اکہتر برس تھی۔۔  اس نے زندگی میں بڑی مشقت کی تھی اسلیے اسکی کمر جھک گئی تھی۔ کاندھے اندر کو مڑ گئے تھے اور بال سفیدی سے دوبارا سلیٹی رنگت کی جانب مائل تھے لیکن اس کے تمام دانت سلامت تھے۔۔ وہ گینٹھیے،، ہیپاٹائٹس شوگر جیسی امراض سے محفوظ تھا۔۔ فالج کے حملے سے پہلے تک وہ بہت مستعد آدمی تھا۔۔ مشقت اور جدوجہد اسکے خمیر میں شامل تھی اس لیے وہ ٹک کر نہیں بیٹھتا تھا۔ اپنی بیوی کی وفات کے ایک گھنٹے پہلے تک اس نے کبھی بڑھاپا محسوس نہیں کیا تھا۔ لیکن بیوی کی موت کے چند یوم بعد ہی اسے احساس ہونے لگا کہ وہ عورت اسکی زندگی کا سب سے لازمی حصہ تھی۔ وہ عورت جسے کبھی اس نے غور سے بھی نہیں دیکھا تھا وہ اسکا رؤواں رؤواں پڑھتی تھی۔ اس کے بولنے سے پہلے اسکی بات سمجھ لیتی تھی۔ اٹھنے سے پہلے اسکی نگاہ کا مقصد جان لیتی تھی۔ چائے کے ذائقے سے لے کر جرابوں کی رنگت تک وہ اسکی ہر پسند نا پپسند سے واقف تھی۔ اسکی لاتعلقی کو خندہ پیشانی سے اپنے وسیع قلب میں سمو لیتی تھی۔وہ اسکی زندگی کا اتنا اہم جز تھی کہ  اسکی موت کے تین دن بعد اسے احساس ہوا کہ اس کی مدد کے بغیر وہ ڈبل روٹی پر مکھن لگانے کے بھی قابل نہیں ہے ۔ اس کے بغیر وہ اکیلا، لا وارث اور اپنے ہی گھر میں اجنبی تھا۔ اس قلق نے اسے دو ماہ کے اندر اندر دیمک کی طرح چاٹ لیا اور اب وہ رخت سفر باندھ رہا تھا ۔ بیوی کا خیال آتے ہی اسکا دل کیا کہ وہ سائید ٹیبل سے اپنی شادی کی تصویرنکال کر دیکھے جس میں وہ معمولی سی عورت اسکے پہلو میں سر جھکائے دبکی بیٹھی تھی۔ وہ بمشکل اسکی بغل تک آتی تھی۔ اس وقت یہ خواہش اتنی شدت سے جاگی کہ حاکم سے رہا نا گیا اور اس نے اپنے جسم کو حرکت دینے کی آخری کوشش کرتے ہوئے زور لگایا۔۔ وہ سائیڈ ٹیبل تک تو نا پہنچ سکا مگر اس کی کلائی  میں لگی ڈرپ کی سوئی نکل گئی اور بازو پلنگ سے نیچے لڑھک گیا۔ اسکے ماتھے پر پسینہ چمکنے لگا اور سانس پھول گئی۔ ۔ اسکے حلق میں کانٹے چبھنے لگے۔ وہ پانی پینا چاہتا تھا۔۔اس نے کسی کو آواز دینے کی کوشش کی مگر غوں غاں کی دو تین آوازوں کے سوا منہ سے کچھ برآمد نا ہوا۔  باہر سے اب پیروں کی دھمک کی آوازیں بھی آ رہی تھی۔۔ آج اسکے  بڑے پوتے کی مہندی تھی۔۔ تین بیٹوں، ایک بیٹی ، دو نواسیوں چار پوتوں اور پانچ پوتیوں والا حاکم علی گورایا اپنے آخری سفر میں بالکل اکیلا تھا۔ بے بسی کے اس احساس میں اسکی آنکھ سے ایک آنسو نکلا اور اسکی گردن کی سلوٹ میں پیوست ہو گیا۔ ‘کیا ہوا طارق علی؟ کیوں پریشان ہو’۔۔اچانک اسے اپنی ماں کی آواز سنائی دی ۔۔ اس نے دیکھنے کی سعی میں نگاہ  گھمائی مگر منظر میں بے جان اشیا کے سوا کوئی زی شعور نا تھا۔ اسکی ماں دو مواقع پر ہی اسے پورے نام سے بلاتی تھی۔۔ ایک جب وہ اس سے بہت خوش ہوتی۔۔یا جب وہ افسردہ ہوتا  تب اسکی ماں دلجوئی کے لیے لجاہت سے اسے پورے نام سے پکارتی۔۔۔ ‘کیا ہوا ہے میرے لعل کو’۔۔ وہ اب اسکے سرہانے بیٹھی اسکے بال جما رہی تھی۔۔ تو پریشان نا ہو ۔۔۔۔ بس وہ کر جو میں کہتی ہوں۔۔۔۔ ماں کی سنے گا تو بیڑے پار لگیں گے۔ ۔۔وہ اپنے مخصوص جملے دہرا رہی تھی۔ حاکم کو یہ جملے بہت اچھے سے یاد تھے ، انہی کے گرد تو اسکی زندگی کا پہیا گھوما تھا۔۔ ماں کی فرماں برداری اسکا نصب العین تھا۔۔ اور کیوں نا ہوتا اسکی ماں اس قابل تھی کہ اسکی پوجا کی جاتی۔۔ اس کے ہر حکم پر اپنی خواہشات کو قربان کیا جاتا۔۔ اس کے ہر فرمان پر سرتسلیم خم ہوتا. ماں کی زندگی کا محور بھی تو وہ ہی تھا۔۔ وہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس سے بڑی دو بہنیں تھیں جن کی وقت پہ  شادی کرکے ماں نے گھر سے رخصت کر دیا تھا۔ وہ اس وقت ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ ان کی دو ایکٹر زمین تھی جس پر اسکے ابا کھیتی باڑی کرتے ۔ ان کا اچھا بھلا گزر بسر ہوتا تھا۔ ویسے بھی اس کی ماں بہت سگھڑ عورت تھی، کپڑا اور پیسہ سینت سینت کر رکھتی تھی۔۔ دو دو چار چار سال بعد اسکے پاس سے وہ  کپڑے برآمد ہوتے جن کے رنگ اور ڈیزائن بھی کسی فرد کو یاد نا ہوتے۔  ماں کی فطرت دابو تھی۔ اسکا بھلا مانس باپ جو کماتا لا کر اسکے ہاتھ پر رکھ دیتا۔ باہر کے معاشرتی و معاشی معمالات کے ساتھ ساتھ اسکی ماں گھر کے ہر معاملے میں بھی خود مختار تھی۔ شریکے میں سب کے دو دو تین تین بیٹے تھے ۔ جبکہ وہ اکیلا۔ اس محرومی کو دور کرنے کے لیے ماں نے یہ راستہ نکالا کے بیٹے کو خوب پڑھاؤں اور بڑا آدمی بنا کر شریکے کے سینے پر مونگ دلوں۔ لہذا جیسے ہی اس نے  انٹر میں داخلہ لیا۔ انہوں نے زمین بیچی اور شہر کی طرف ہجرت کر گئے۔ شہر میں پہلی رات ماں خوب روئی تھی۔ اسے اپنی زمین اور گھر چھن جانے کا غم تھا،،  ماں کو روتے دیکھ کر حاکم کا دل بھر آیا۔ وہ اپنی ماں کی آنکھوں میں آنسو دیکھنے کی سکت نہیں رکھتا تھا، اس رات اس نے اپنی ماں سے وعدہ کیا کہ وہ بہت لگن سے کام کرے گا۔ دو کی بجائے دس ایکٹر زمین خریدے گا اور شہر میں انکا زاتی مکان ہو گا۔ اسکی ماں مطمئن ہو گئی۔

حاکم محنتی تو تھا مگر زیادہ زہین نا تھا۔ وہ مقابلے کا امتحان تو نا پاس کر سکا مگر جیسے تیسے ایم اے کر کے منشی بھرتی ہو گیا۔۔اسی دوران اسکی ماں نے اسکے لیے لڑکی ڈھونڈی اور اسکی شادی کر دی۔ باپ کی طرح اس نے بھی کبھی ماں کے فیصلوں سے اختلاف نا کیا تھا۔ نا ہی اسے کبھی اسکی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ لہذا شادی سمیت زندگی کے تمام ضروری لوازمات خوش اسلوبی سے انجام پا گئے۔
اسکی بیوی ایک حلیم عورت تھی۔ وہ کم بولتی تھی۔ اس کے مطالبات کم تھے۔ وہ فرمائشیں بھی کم کرتی تھی۔۔ کیا واقعی ایسا تھا؟ حاکم نے سوچا۔ مجھے جاننا ہے کہ وہ کیسی عورت تھی۔۔ وہ کم گو تھی یا میں نے کبھی اس کے الفاظ  سننے کی کوشش نا کی۔ وہ جو کبھی قہقہ لگا کر نہیں ہنسی تھی کیا وہ خوش نہیں تھی؟؟ ۔ ۔ ۔ وہ اپنی شادی کے ابتدائی ایام یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ کیا واقعی رقیہ ایسی تھی؟ اس نے جلدی جلدی یادوں کی فلم کو ریورس میں گھمایا اور مختلف سین گھنگالنے لگا۔۔ جانے کیوں آج وہ جاننا چاہتا تھا کہ رقیہ کیسی زندگی گزارنے کی متمنی تھی۔ اسے وہ لمحات یاد آئے تو اسکا سینہ درد سے بھر گیا۔ شرمندگی سے اسکی پیشانی عرق آلود ہو گئی۔۔ اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ رقیہ کیا چاہتی تھی. اس کے گھر آتے ہی اس نے رٹے رٹائے جملے بولے تھے۔۔ اس کچھ کچھ یاد آ رہا تھا۔ اس نے کہا تھا  مجھے میری ماں دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ہے۔ اور اس کے بعد زندگی میں میرا مقصد اپنے چچیروں کو مات دینا ہے۔۔ لہذا میرا ساتھ دینا اور عام عورتوں کی طرح میری زندگی اجیرن مت کرنا۔میرے پاس اتنی فرصت نا ہو گی۔۔ حاکم کو رقیہ کی خاموش مگر حیرت زدہ آنکھیں یاد تھیں۔۔ رقیہ تم کیوں نا بولی اس وقت۔۔ وہ اندر ہی اندر تڑپا۔۔ کیوں نا مجھے ٹوکا۔۔ کاش تم نے مجھے بتایا ہوتا کہ  زندگی زندہ رہنے کا  نام نہیں بلکہ یہ جیے جانے والی شے ہے.. اور میرے پاس جینے کی فرصت نا تھی..

‘‘حاکم؟ ’’ ۔۔ یہ دوسری نسوانی آواز اسکی بیوی کی تھی۔ ‘‘میرا دل گلاب جامن کھانے کو کر رہا ہے’’۔ ۔ اسکی بیوی امید سے تھی۔ اور اسے مارکیٹ سے آئے ابھی دس منٹ ہوئے تھے جب اس نے یہ فرمائش کردی۔حاکم نے اب پٹواری کی نوکری کے ساتھ  بڑے بازار میں دوکان خرید لی تھی۔وہ آہستہ آہستہ ترقی کی منازل طے کر رہا تھا۔ لیکن اتنی مشقت اسے بری طرح تھکا بھی دیتی تھی۔۔۔ آج بھی وہ تھکن سے چور تھا۔ اس نے بیوی کی آواز پر توجہ نہیں دی۔۔ وہ کوئی آدھے گھنٹے بعد دوبارہ کمرے میں آئی۔۔‘‘ حاکم میرا گلاب جامن کھانے کو بہت دل کر رہا ہے قسم سے’’۔۔ وہ اس کے چہرے پر جھکی ہوئی تھی۔ حاکم کا اٹھنے کا بالکل اراداہ نہیں تھا مگر نجانے کیوں وہ اس کے ابھرے ہوئے شکم کی محبت میں اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔ اگلی صبح ناشتے پر ماں نے اسے سمجھایا۔ ‘‘یہ عورتوں کے نخرے ہوتے ہیں کہ یہ دل کر رہا ہے وہ دل کر رہا ہے۔ہم نے چار چار بچے پیدا کیے۔لیکن کبھی ایسے چسکے لگانے کا دل نہیں کیا تھا۔۔ نا ہی کبھی ایسا اوچھا سوچا۔ عورت ان پٹھنگوں سے مرد کی دولت خرچ کرواتی ہے۔صرف اپنی اہمیت بنانے کے لیے۔۔ یاد رکھ۔۔ اچھی بیوی وہ ہے جو مرد کی کمائی کو سنبھالتی ہے۔۔ لیکن اب وہ زمانے کہاں۔۔ اب تو بیویاں بیویاں نہیں ملکائیں بننے کی شوقین ہیں.. اونہہ ’’۔۔ اس نے اختلاف نا کیا تھا کیونکہ ماں کا موقف اصولی تھا۔ ایسے کتنے ہی اصولی موقف تھے جس سے اس نے کبھی اختلاف نہیں کیا تھا۔۔ حالانکہ اسے اختلاف کرنا چاہیے تھا۔۔مثلا اسے اس اصول کو توڑنا چاہیے تھا کہ دوران زچگی عورت کے سرہانے منڈلانا بے شرمی ہے۔۔ اسے ڈھیل دینا۔۔ اس کے ناز اٹھانا رن مریدی ہے۔۔یا اسکی کسی بات سے اتفاق کرنا اور اس کے کسی مشورے پر عمل کرنا نامردی ہے۔۔ ابا نے بھی تو ساری زندگی یہ اصول توڑے تھے۔ وہ کیوں نا توڑ سکا۔ وہ کیوں نا باپ کے نقش قدم پر چلا۔ اسے اپنا چغد باپ اچانک بہت سمجھدار دکھائی دینے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ اسکی کمائی پر جس عورت کا سب سے زیادہ حق تھا وہ صابر، شاکر اور سگھڑ جیسے القاب اوڑھے منوں مٹی تلے سو رہی تھی اور اسکی جمع پونجی باہر لان میں وہ لوگ اڑا رہے تھے جو شائید اس کے پورے نام سے بھی واقف نا تھے۔  پٹاخوں کے شور اور بندوق کی فائرنگ کی آواز نے اسکی سوچ کا سلسلہ منطقع کر دیا۔۔ حاکم کے سینے کے  درد میں سردی کی وجہ سے اضافہ ہو رہا تھا۔ اسکی بے جان ٹانگوں میں سویاں سی چبھ رہی تھیں ۔ پیاس سے حلق میں کانٹے اگ آئے تھے۔ اچانک دروازہ کھلا اور اسکا منجھلا بیٹا اندر داخل ہوا۔ اس نے غور سے باپ کا جائزہ لیا ۔ اسے پکارا ۔۔ اسکی آنکھوں میں زندگی کی رمق کا اندازہ لگایا۔۔ سینے پر کان رکھ کر دھڑکن سننے کی کوشش کی۔ ۔ اور بوکھلاتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔۔  کچھ توقف کے بعد تینوں بیٹے باپ کے بستر کے گرد کھڑے کھسر پھسر کر رہے تھے۔ ان کی باتوں سے اسے اندازہ ہوا کہ وہ اسے مردہ سمجھ رہے ہیں۔۔ اسکا کا دل کیا کہ وہ چیخ چیخ کر انہیں بتائے کہ میں زندہ ہوں۔۔ اے سی کا ٹمپریچر زیادہ کرو تا کہ میری پسلیوں کے سن پٹھے بحال ہو سکیں اور میں ٹھیک سے سانس لے سکوں۔۔ میری رگوں میں جما ہوا خون رواں ہو اور میری حرکت قلب بحال ہو۔ اے سی کا ٹمپریچر بڑھاؤ تاکہ  میری سکڑی جامد پتلیاں حرکت کر سکیں۔ اور میں تمھیں باور کروا سکوں کہ میں ابھی مرا نہیں ہوں۔۔ابھی زندہ ہوں۔۔ لیکن وہ اسکی خاموشی کو سننے سے قاصر تھے۔۔دس منٹ کی میٹنگ کے بعد وہ باہر چلے گئے۔۔ شائید وہ ڈاکٹر کو بلائیں گے۔ اس نے امید سے سوچا۔۔ شائید ان میں سے کسی کو خیال آئے گا کہ کمرے کی آب و ہوا میں گڑ بڑ ہے۔ اسکا بڑا بیٹا تو بہت سمجھدار تھا۔ اور اسکا فرمانبردار بھی۔ لیکن آج وہ بھی عجلت میں تھا۔ وہ کیوں عجلت میں تھا۔ اسکے بیٹے کی شادی ہے اس لیے؟ میں بھی تو اسکا باپ ہوں۔ وہ باپ جس نے بیٹوں کو اعلی تعلیم اور روزگار کے لیے مشقت کی۔ اٹھارا اٹھارا گھنٹے گھر سے باہر گزارے۔جب تک وہ پڑھتے تھے اس نے کبھی کسی اچھے ریستورنت میں کھانا نہیں کھایا۔ کبھی دوستوں کے ساتھ  راتیں باہر نہیں گزاریں۔۔ اپنی گاڑی نہیں لی تھی۔۔رقیہ کو نئے جوڑے نہیں دلواتا تھا۔۔ نا کبھی اس کے ساتھ کسی پر فضا مقام پر گیا۔۔ بچوں کو مہنگے جوتے دلانے کے لیے وہ اپنی سستی پینٹیں خریدتا تھا۔ مگر یہ سب اچانک کیوں بدل گئے۔۔میری ترجیحات ہمیشہ یہ رہے۔ انکی ترجیحات کیوں بدل گئیں۔ وہ اپنے آپ سے سوال کر رہا تھا کہ دروازہ پھر سے کھلا۔ اس بار بیٹوں کے ساتھ اسکی بیٹی بھی تھی۔ وہ اسکے سرہانے بیٹھ کر رونے لگی۔ ‘‘بس کرو عالیہ۔۔ چند گھنٹے صبر کر لو۔۔ گھر میں فنکشن چل رہا ہے۔۔ کیسے صبر کر لوں’’۔۔ وہ دبی دبی آواز میں چلائی۔۔ ابا فوت ہو گئے ہیں نعمان بھائی۔ آپ کو یہ سب رکوانا ہو گا۔۔ عالیہ سب مہمان گھر پر جمع ہیں۔۔ بارات نکلنے میں کچھ دیر باقی ہے۔۔ لڑکی والوں کی طرف پورے انتظامات ہیں۔۔ تم سوچ سکتی ہو کہ کتنا نقصان ہو گا۔۔ اگر ہم چند گھنٹے ابا جی کی موت کی خبر چھپا لیں تو کونسی قیامت آجائے گی۔ ویسے بھی جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے۔۔ یہی مشیت ایزدی تھی ۔۔لیکن ہمیں عقل سے کام لینا چاہیے۔۔ تھوڑی سی پس و پیش کے بعد وہ رضا مند ہو گئی اور آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔۔  آپ کی بات درست ہے بھائی جان۔ ۔۔ جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا۔۔ لیکن اتنے گھنٹے لاش کو رکھنا۔۔۔۔۔ اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔۔ میں نے اسکا طریقہ سوچا ہے باجی،، اے سی کا درجہ حرارت کم کر دیتے ہیں ۔۔ آٹھ دس گھنٹے کچھ نہیں ہو گا۔۔ ہاں یہ ٹھیک ہے۔۔ سب ہی متفق نظر آنے لگے۔۔ بڑے بیٹے نے ریمورٹ پکڑ کر درجہ حرارت سیٹ کیا اور سب باہر نکل گئے۔۔ حاکم  کے متحرک دماغ پراب  غنودی چھانے لگی تھی۔ اسکی رگوں میں تناؤ پیدا ہو گیا اور اعصاب چٹخنے لگے۔۔۔ رنگت سفید ہوگئی اور ہونٹوں پر پریٹری جمنے لگی۔۔۔آہستہ آہستہ حاکم کے سینے میں درد کی جگہ ایک نیم گرم غبار نے لے لی۔۔ اور پورے جسم میں حرارت کی ایک لہر دوڑنے لگی ۔۔ دماغ کی متحرک سکرین بجھ گئی اور وہ ابدی نیند سو گیا۔۔

4 comments:

  • 19 December 2015 at 01:21

    سبحان اللہ،
    پر میں آج بھی اس سوچ میں غرق ہوں کہ مابدولت بڑے افسانہ نگار ہیں یا کہ 'خاتونِ فولاد'۔
    اللّہم بارک

  • 19 December 2015 at 03:57

    بھت عمدہ کاوش۔ آللہ کرے زور قلم اور زیادہ

  • 19 December 2015 at 05:52

    یہ افسانہ آج کے زمانے کا عکاس ہے سیدھے سادے انداز میں ایک اہم معاشرتی مسلے کی جانب طنزیہ لہجے میں گہرا وار کیا گیا ہے
    اسے جنریشن گیپ کے تناظر میں دیکهیں تو اس وقت مشرق میں والدین کی اہمیت کو جس طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے اور جیسے رشتوں میں تناؤ آ رہا ہے اس کا قصوروار کون ہے شاید خود انسان شاید بدلتا وقت لیکن وقت تو وہی ہے شاید انسان ہی انسانیت سے کوسوں دور ہے اس افسانے کا اسلوب رواں اور دلکش ہے کہ قاری کو آخر تک جوڑے رکهتا ہے کس بهی تخلیق ککا خاصہ یہ ہے کہ منظر آنکهوں کے سامنے کسی فلم کی مانند گھومتے چلے جائیں
    بہت داد

  • 21 December 2015 at 13:14

    صاحبان کی پسندیدگی کے لیے مشکور ہوں

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔