Friday 16 September 2016

گوشت خوری بائیو سائنس اور سوشل سائنس کے تناظر میں

0 comments


بات کا آغاز کرتے ہیں دیگر جانوروں اور انسان کی ارتقائی تاریخ سے. فوڈ چین کے ٹاپ پر گوشت خور جانور آتے ہیں. جسکا مطلب ہے توانائی کا بلند ترین مقام. تقریباً ہر سبزی خور جانور کا کوئی نا کوئی دوسرا جانور شکاری ہوتا ہے . جانوروں کی ایسی انواع بھی ملتی ہیں جو سبزی خور جانوروں سے خوراک حاصل کرتی ہیں لیکن بمشکل ہی کوئی ایسا جاندار ملے گا جو گوشت خور جانوروں کا شکار کرتا ہے. اپنے اد دعوے کی مثال ڈھونڈنے کے لیے ہمیں جنگل میں جانے کی ضرورت نہیں. اردگرد نگاہ ڈالیے. کتے، بلی اور کوے کسی کا شکار بننے کی بجائے زیادہ تر طبعی موت ہی مرتے ہیں.

دنیا کا سب سے بڑا جانور گوشت خور ہے. جی ہاں میں وہیل کی بات کر رہی ہوں. دنیا کا سب سے ذہین جاندار گوشت خور ہے. جی ہاں میں انسان کی بات کر رہی ہوں. جنگل کا بادشاہ گوشت خور ہے. تیز ترین رفتار کے لیے ہم چیتے اور جیگوار کی مثالیں دیتے ہیں. گوشت خوری کا جانداروں کی کارکردگی، قابلیت اور ذہانت اور پیچیدگی میں اہم کردار ہے. کیسے؟ آئیے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں.

پودے زیادہ تر کاربوہائیڈریٹس اور فائیبرز کے بنے ہوتے ہیں. جن میں ریشے زیادہ اور توانائی کم ہوتی ہے. زیادہ توانائی کے حصول کے لیے ایک تو ان کو کھانا زیادہ مقدار میں پڑتا ہے دوسرا اتنی بڑی مقدار کو سٹور کرنے کے لیے جسم میں نظام انہضام کا بڑا حجم بھی درکار ہوتا ہے. اسی وجہ سے پودے کھانے والے جانوروں کے دو سے تین معدے ہوتے ہیں. جیسا کہ جگالی کرنے والے جانور. پہلے تو بے چارے جانور بے انت کھاتے ہیں. پھر ایک جگہ بیٹھ کر گھنٹوں جگالی کرنے میں لگے رہتے ہیں تاکہ کھایا ہوا ہضم کر سکیں. یوں انکی زندگی کا بیشتر حصہ کھانے اور ہضم کرنے میں ہی گزر جاتا ہے. دوسری جانب گوشت کی تھوڑی مقدار میں زیادہ توانائی دستیاب ہوتی ہے. جس کو ہضم کرنے کے لیے چھوٹے معدے سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے. یہی وجہ ہے کہ گوشت خور جانور زیادہ تر سمارٹ مگر چست نظر آتے ہیں. اس کو مزید واضح طریقے سے سمجھنے کے لیے فرض کرتے ہیں کہ اگر ایک بیس کلو وزنی بھیڑ نے ایک ہزار پودے کھائے جس میں سے اگر پانچ سو پودوں کی توانائی بھیڑ نے اپنی سرگرمیوں میں ضائع کر دی تو بھی ہمیں پانچ سو پودوں کی توانائی ایک بھیڑ کی شکل میں یک مشت میسر ہو گی. وارم بلڈڈ جانوروں کو ویسے ہی توانائی کی بڑی مقدار درکار ہے. اور اگر انکی زندگی کا مقصد صرف کھانا اور ہضم کرنا نہیں ہے تو یقیناً انہیں گوشت خوری پر غور کرنا ہی پڑے گا. یاد رہے یہ ہوائی باتیں نہیں ہیں. سائنسی طور پر ثابت شدہ حقائق ہیں.

گوشت خور جانوروں کا دماغ بڑا ہوتا ہے اور وہ نسبتاً زیادہ بلکہ کافی زیادہ ذہین ہوتے ہیں. کتے اور گدھے کی ذہانت کافرق واضح ہے. شیر اور بیل کی عقل میں بھی تفریق کی جا سکتی ہے. جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے خوراک کا جانداروں کی جسمانی ساخت پر بھی اثر ہے. گوشت خوری نے جانداروں کے جسمانی حجم کم کیے لیکن کارکردگی کو بہتر بنایا. یہ منطق بالکل ویسے ہی ہے جیسے جب کمپیوٹر ایجاد ہوا تو کمرے بھر جتنا حجم رکھتا تھا. بجلی کے زیادہ یونٹ صرف کرتا تھا لیکن کارکردگی صرف اتنی کہ دو جمع دو چار ہی کر دے تو غنیمت. لیکن ٹیکنالوجی کی زبان میں اب جس کا سائز جتنا کم ہے وہ اتنا ہی سمارٹ اور کم توانائی کا مصرف ہے.

یہی نہیں گوشت خوری نے جانداروں کے تولیدی عمل پر بھی واضح اثر ڈالا ہے. گوشت خور جانداروں کا تولیدی دورانیہ اگرچہ زیادہ ہے لیکن نتیجتاً پیدا ہونے والی اولاد سخت جان ہوتی ہے اور اپنے ماحول میں ایڈجسٹمنٹ کی زیادہ قابلیت رکھتی ہے. میں نے مچھلیوں پر ایک تحقیق پڑھی جس میں بیان کیا گیا کہ پودے کھانے والی مچھلیاں زیادہ مقدار میں اور چھوٹے سائز کے انڈے دیتی ہیں لیکن ان سے نکلنے والے بچوں کا survival گوشت خور مچھلیوں کے بچوں سے کم ہے جو کم مقدار میں بڑے انڈے دیتی ہیں اور جنکا incubation period بھی زیادہ ہوتا ہے.

ہمارے ملحد یا حساس دل ساتھیوں کی عید قربان کے موقع پر آہ و زاری اس طویل تمہید سمیت اس کالم کا محرک بنی. جو ہر طریقے سے نئی نویلی منطقوں اور دلیلوں سے اسلام کی رسمِ قربانی کی مخالفت کر کے اسے غلط ثابت کرنے کے لیے جہاد جیسی کوششیں کر رہے ہیں. مندرجہ بالا شیطان کی آنت جتنے طویل بیان کی روشنی میں مجھے یہ کہنا مقصود ہے کہ گوشت خوری کوئی ناگہانی حادثہ، واقعہ، تاویل یا الہام نہیں ہے یہ انسانی ارتقائی تاریخ کی ایک کامیاب strategy ہے. اگر ہمارے آباؤ اجداد نے گوشت خوری نا کی ہوتی تو شاید آج ہم ذہانت و ارتقاء کی اس منزل پر نا کھڑے ہوتے. لہذا گوشت خوری سے نفرت بوجہ مذہب حماقت ہے. نوجوان لڑکے لڑکیوں کے لیے خصوصاً دو دلچسپ باتیں شئیر کرنا چاہوں گی. ایک انڈین مسلم دوست کا دعوا ہے کہ مسلمانوں کا وزن زیادہ ہوتا ہے. اور ضروری نہیں کہ یہ وزن جسم پر گوشت کی تہیں چڑھنے کی وجہ سے ہو. اس صاحب کے مطابق اس کی وجہ ہڈیوں کی زیادہ کثافت ہے جو کہ گوشت خوری کی بدولت حاصل ہوتی ہے. مزید یہ کہ گوشت خور لوگ تولیدی حوالوں سے زیادہ جاندار اور صحت مند ہوتے ہیں.

عید قربان کے تناظر میں گوشت خوری کی مخالفت میں دو بڑے دلائل دیکھنے میں آئے ہیں

یہ جانوروں پہ ظلم ہے
یہ لوگوں کو تشدد اور خون ریزی پر اکساتا ہے

صاحب! اگر یہ جانوروں پر ظلم ہے تو مرغی، مچھلی، جھینگے اور خنزیر بھی جانور ہیں. وہاں یہ ظلم کیوں نظر نہیں آتا.. جانوروں کے پتے، جگر، خون، چمڑی اور تیل مختلف اشیاء کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں پھر انکی بھی مخالفت کیجئے. عرض ہے کہ دنیا کا مہنگا ترین دودھ چوہیا کا دودھ ہے کیونکہ ایک لیٹر دودھ کے حصول کے لیے قریباً چار ہزار مادہ چوہوں کو دوھنا پڑتا ہے. یہ دودھ مختلف ادویات کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے. کیا یہ ظلم کے زمرے میں نہیں آتا؟

یہاں تک بات ہے تشدد کی تو یہ بھی کسی پراپیگنڈا سے کم نہیں. سب سے پہلے تو پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کے پیشہ ور قصابوں اور انکی اولادوں کا ڈیٹا نکالیں اور تحقیق کریں کہ ان گھرانوں کے کتنے فیصد افراد قتل و غارت گری میں ملوث رہے ہیں. مزید برآں جب ہم اپنے بچوں کو میڈیکل کالجوں میں ڈالتے ہیں وہ وہاں جانوروں سمیت انسانوں کی چیڑ پھاڑ کر کے ڈاکٹری سیکھتے ہیں. فارغ التحصیل ہو کر وہ رحمدل بنتے ہیں یا متشدد؟

شدت پسندی کا تعلق جانور ذبح کرنے سے نہیں ہے. یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے جس کے اپنے المیے ہیں. یہ الگ موضوع ہے. سردست اتنا کہنے پر اکتفا کروں گی کہ حقوق العباد کو ترجیح دینے والے مسلمانوں میں شدت پسندی کا عنصر کم ہوتا ہے. عید قربان ایک طرح سے حقوق العباد کی ہی سرگرمی ہے. یہ تفریح ہے. ذہنی آسودگی کا ایک ذریعہ ہے. ذہنی آسودگی انسانی جبلت کو تشدد سے دور رکھنے میں مدد گار ہے. ہزار ہا خاندانوں کا روزگار اس تہوار سے وابستہ ہے. سوشل سائنس کا کوئی سکالر اسے غیر صحت مند سرگرمی قرار نہیں دے سکتا. لہذا لوگوں کو یہ کرنے دیجئے.

آخر میں میں جس نرالی مخلوق بارے جرآت گفتار کرنے جا رہی ہوں وہ ہیں ہماری نازک اندام سلم اسمارٹ لڑکیاں. میرے مشاہدے کے مطابق یہ صنف گوشت خوری سے نا صرف خصوصی بیر رکھتی ہے بلکہ اس پہ نازاں بھی نظر آتی ہیں. اور بطور فیشن "سبزی و پزا خور" بننے پر فخریہ اتراتی ہیں. جبکہ میرے تائیں انہیں تمام قوت بخش غذاؤں سمیت گوشت خوری کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے کہ ان پر دنیا داری کی دیگر زمہ داریوں سمیت بچوں کی پیدائش و پرورش کا بار بھی عائد ہوتا ہے. یہ ایسا کٹھن بوجھ ہے کہ عورت کی ہڈیوں کا گودا چوس لیتا ہے. بہنو! گوشت، یخنی، پائے وغیرہ کھایا کریں . ورنہ دس سال بعد گلا کریں گی کہ یہ مرد تو بوڑھا نہیں ہوتا. عورت کیوں بوڑھی ہو جاتی ہے.

اعمال کا دارو مدار نیتوں پر اور صحت کا دارو مدار غذا پر ہوتا ہے.

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔