
Tuesday, 19 January 2016
ریاستی بیانیہ تبدیل ہو رہا ہے



جماعت اسلامی کی فرسودہ سیاست



سرحد کے اِس پار موجود پاکستان کی سب سے نمایاں مذہبی اور متحرک سیاسی جماعت، جماعت اسلامی کے رخساروں پر بھی آج کل مودی ازم کے رنگ کھل رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے حالیہ مرحلے میں عبرت ناک شکست کے بعد جماعت اضطراب اور بوکھلاہٹ کا شکار نظر آرہی ہے۔ پچھلے دنوں پہ در پہ ہونے والے چند معمولی مگر اہم واقعات نے جماعت اور اس کے کارکنوں کی محدود سیاسی بصیرت، غیر معتدل رویوں اور تعصبانہ نفسیات کو عیاں کیا ہے۔ کراچی میں طالبات پر تشدد کرنا قابل مذمت فعل تھا جس کا جمعیت و جماعت کے پاس کوئی معقول جواز نہیں۔ اگرچہ اس واقعے کی تردید کی گئی مگر سمجھنے والے سمجھتے ہیں اور جاننے والے جانتے ہیں کہ پہاڑ بنانے والوں کو رائی درکار ہوتی ہے۔ اس رائی کا پہاڑ بنانے والوں کے لاشعور میں جمیعت کا سابقہ ریکارڈ قوی امکان کی صورت میں موجود تھا جس کے مطابق ماضی میں جمیعت کے خود ساختہ اصلاحی کارکنان لڑکے لڑکیوں پر تیزاب پھینکا کرتے تھے. لہذا کچھ بعید نہیں کہ جس خبر کو پروپیگنڈا کہہ کر مسترد کیا جا رہا ہے یہ حال یا مستقبل کی حقیقت ثابت ہو۔
کراچی کی ہی ایک تقریب میں امیرِ جماعت کی شعلہ بیانیاں بے ربط اور بے وزن معلوم ہوئیں۔موصوف جہاں قائد و اقبال کو جماعت کی رکنیت سے نواز رہے تھے وہیں انہوں نے یہ کہہ کر متعدد پاکستانیوں کی شہریت کینسل کرنے کی کوشش کی کہ سیکولزم کے خواہش مند ملک چھوڑ کر کہیں اور جا بسیں۔ اس قسم کے بیانات پس پردہ چھپے تعصب، آمریت و بادشاہت کی ممکنہ تمنا اور مذہبی شدت پسندی کا عندیہ دیتے ہیں۔ ایسا غیر ذمہ دار بیان دینے سے پہلے امیر جماعت کو ایک دفعہ یہ ضرور سوچنا چاہیے تھا کہ یہ دھرتی جتنی رجعت پسندوں کی ہے اتنی ہی جدت پسندوں کی بھی ہے۔ جدت پسندوں کے اسلاف بھی اسی دھرتی کی گود میں مدفن ہیں۔ صدیوں سے یہاں بسنے والے لوگ جنہیں آزادانہ سوچنے، سمجھنے اور اپنی طرز زندگانی کا انتخاب کرنے پیدائشی حق حاصل ہے آپ کس اصول کے تحت انہیں یہ حکم نامے جاری کر رہے ہیں۔ آپ ایک جمہوری عمل کے پیروکار ہیں۔ اس جمہوری سسٹم کے تحت ہر الیکشن میں ٹکٹ جاری کر کے ووٹ لینے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اس لیے کم از کم آپ کو جمہوریت کا بنیادی اصول معلوم ہونا چاہیے کہ مخالفین سے آپ بھلے اتفاق کریں یا نا کریں مگر ان کے موقف کا احترام کیے بنا اور ان کے حق رائے دہی کو تسلیم کیے بغیر جمہوری عمل پورا نہیں ہوتا۔ جمہوریت میں ڈنڈا نہیں مکالمہ کارگر ہوتا ہے۔ مکالمے کے ذریعے اپنا موقف جیتیے، عوام کو قائل کیجئے۔ اپنے حق میں ذہن سازی کیجئے۔ ووٹ لیجئے، اقتدار میں آئیے اور اسے قانون کی شکل میں لاگو کر دیجئے۔ ڈنڈے کے زور پر اپنے مطالبات منوانے کو لغت جدید میں طالبانیت کہتے ہیں۔
دو دن پہلے کی ایک خبر مزید مایوس کن تھی۔ جب معلوم پڑا کہ جماعت نے کے پی کے بوائز سکولوں میں پیٹی ٹراوز کو بطور یونیفام لاگو کرنے کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ یہ نظام تعلیم کو امریکن کرنے کی کوشش ہے لہٰذا بوائز کا ڈریس کوڈ شلوار قمیض رہے گا۔ اگر یہ مخالفت مذہب کی محبت میں ہے تو عرض کرنا چاہوں گی کہ اسلام کا ڈریس کوڈ شلوار قمیض نہیں ہے۔ نہ ہی اسلام کو پینٹ کوٹ پہ کوئی اعتراض ہے۔ اس لیے جماعت کا یہ اعتراض قومی نہیں، ذاتی مسئلہ ہے۔ مانند پڑتی سیاست کو پھر سے چمکانے کی یہ کوشش بہت سطحی ہے۔ اس دقیانوسی ہتھکنڈوں سے شاید آپ چند شر پسند عناصر کی حمایت تو حاصل کرلیں مگر لمبے عرصے تک یہ ہتھکنڈے ساتھ دینے کی سکت نہیں رکھتے۔ جماعت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عوام کا مسئلہ رجعت پسندی نہیں ہے. ہمارے مسائل بہت جینوئن اور سنجیدہ ہیں جو سطحی نعرہ بازی اور کھینچا تانی سے حل ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ عوام آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ برق رفتاری سے آگے بڑھتی دنیا سے قدم ملانا چاہتے ہیں جبکہ آپ انہیں پچھلی جانب کھینچنے پر مصر ہیں۔
جماعت اسلامی ملک کی واحد جماعت ہے جو حقیقی معنوں میں جمہوری نظام رکھتی ہے۔ جماعت میں باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں جس میں خالص جمہوری طریقے سے امیر منتخب کیا جاتا ہے۔ ایسی مثال کسی دوسری پارٹی میں نہیں ملتی۔ اس کے باوجود جماعت سیاست کے افق کا ڈوبتا ہوا ستارہ بنتی جا رہی ہے۔ تلملاہٹ اور غیر معیاری اور غیر جمہوری رویہ اپنانے کی بجائے جماعت کو اپنی شکست کی اصل وجہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں سنجیدگی سے اس سوالات پر غور کرنا چاہیے کہ بہترین جمہوری نظام، خدمت خلق اور ایماندار امیدواروں کی نامزدگی کے باوجود کیا وجہ ہے جو پاسکتانی عوام ہر دفعہ انہیں رد کرتے ہیں؟ کہیں ان کی سیاست کی عمارت غلط بنیادوں پر تو استوار نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پارٹی ایجنڈے عوامی مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے ان نظریات پر قائم کیے گئے ہیں جو عوامی مسائل کے حل تجویز کرنا تو درکنار کسی طور پر عوامی مسائل کی تعریف پر ہی پورا ہی نہیں اترتے؟
جمہور ہے ملت کے مقدر کا ستارہ



اردو ہے جس کا نام۔۔۔



سیکولرازم سے دشمنی کیوں؟



عہدِ جدید کے قدیم عہد نامے



جدید انسانی ذہن کے مذہبی رحجانات


Monday, 4 January 2016
بی اماں


''اب اُٹھ بھی جاؤ سکینہ! دیکھ سورج سر پر آنے کو ہے اور تم ابھی تک بے ہوش پڑی ہو ۔ ۔ امی نے تیسری بار سکینہ کو اٹھانے کیلئےآواز دی ۔ ۔ ''امی میں نہیں جاؤں گی سپارہ پڑھنے ۔ ۔ مجھے نہیں پڑھنا بی اماں سے ۔ ۔ میں گھر پر آپ سے ہی پڑھ لونگی ۔ ۔ سکینہ نے کسمندی سے جواب دیا'' ۔ ۔ ''لو اور سن لو!! میری آواز پر تو تیری آنکھ نہیں کھلتی ۔۔۔۔ مجھ سے سپارہ کیسے پڑھے گی ۔ ۔ آخری بار کہہ رہی ہوں شرافت سے اٹھ جاؤ اور وضو کرکے سپارہ پڑھنے جاؤ ۔ ۔ ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ''۔ ۔ امی نے ڈانٹ کر جواب دیا۔ سکینہ سستی سے اٹھی اور پاؤں گھسیٹتی ہوئی غسل خانے کی طرف چلی گئی ۔ ۔ بی اماں کے پاس سپارہ پڑھنے سے اُسکی ہمیشہ جان جاتی تھی ۔ ۔ پڑھنے لکھنے میں تو وہ ہوشیار تھی۔ اس لیے اس حوالے سے اُسے کبھی مشکل پیش نہ آئی تھی لیکن بی اماں سے وہ ویسے ہی خارکھاتی تھی۔ بی اماں تیزمزاج کی مالک ایک کرخت قسم کی خاتون تھیں۔۔اوپر سے انکا ہاتھ بہت چلتا تھا۔۔بات بات پہ دو ہتھڑجڑ دیتیں۔اکثر شرارت کوئی اور کرتا اورشامت کسی اور کی آجاتی کیونکہ انہوں نے کبھی تحقیق کرنے کی زحمت نہ کی تھی۔ ،شکایت لگاؤ اور اماں بی سے پھینٹی لگواؤ۔۔ کے فارمولے کے تحت بچے ایک دوسرے کے ساتھ دشمنیاں نبھاتے کیونکہ اکثر وبیشتر ان کے پاس بدلہ لینے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا تھا۔سکینہ بھی کئ بار بی اماں کے بھاری بھرکم اور کھردرے ہاتھوں کا مزا چکھ چکی تھی۔ ایک دفعہ تو بے وجہ ہی اسکی شامت آگئ۔ وہ اپنے ننھے ننھے ہاتوں سے بڑا سا دو پٹہ جو وہ اپنی امی کا اٹھا لائی تھی اپنے اردگرد لپیٹ رہی تھی کہ اس کی کہنی ساتھ بیٹھی مریم کو جا لگی۔ مریم جوپہلے ہی اسکا نیا دوپٹہ دیکھ کے جل بھن رہی تھی بھاگی گئی اور بی اماں کو بلا لائی۔ بی اماں نے سکینہ کو دو چما ٹے مارے اور سب بچوں سے الگ بٹھا دیا۔ اس دن سکینہ نے سارا وقت ہٹکورے لیتے ہوئے اوردل ہی دل میں مریم سمیت اماں کو کوستے گزارہ۔۔۔۔۔
پڑھائی کے معاملے میں تو بی اماں کااصول ہی نرالا تھا۔ادھر ادھر گردن موڑے بغیر بلند آوازمیں سبق یاد کرو۔ لہذا ہر صبح بی اماں کے صحن میں مچھلی منڈی کا سماں بندھا ہوتا ۔۔بچے جلدی چھٹی ملنے کی آس میں زور زور سے چیخنے کے انداز میں سبق دہراتے جاتے۔ اکثر اوقات تو بی اماں اس لیے چھٹی نہ دیتیں کہ ان کو یاد ہی نہ رہتا کہ چھٹی بھی دینی ہے۔ بچے کن اکھیوں سے بی اماں کی طرف دیکھتے مگر چھٹی کے لیے پوچھنے کا کسی میں حوصلہ نہ ہوتا۔۔آخر تھک ہار کر باہمی مشاورت سے کسی ایک بہادر ساتھی کو بطور سفیر منتخب کیا جاتا جو ادھر ادھر کاموں میں مشغول بی اماں کے پاس ڈرتے ڈرتے سفارش لے کے جاتا کہ بچوں کو چھٹی دے دیں۔ بی اماں کا موڈ ہوتا تو چھٹی کا کہہ دیتیں ورنہ ڈانٹ کے بھگا دیتیں۔ ۔ اگر بی اماں کے مظالم کی حد صرف یہیں تک ہوتی تو گزارہ کیا جا سکتا تھا مگر بی اماں سپارے کے بعد گھر کے کام بھی کرواتیں جو سکینہ کو زہر لگتا تھا ۔ سکینہ ان نا انصافیوں پرکڑھتی رہتی تھی لیکن اسکا اظہار کرنے کی جرأت اس میں کسی طور نہ تھی ۔ اس نے ایک دو دفعہ اپنی امی سے شکایت کرنے کی کوشش کی تو اس کی امی نے آرام سے کہہ دیا۔ نا بیٹا تیری استاد ہیں وہ۔ ہر صورت انکا کہنا ماننا ہے۔ وہ بہت اچھی ہیں۔۔۔۔۔یہ سن کر سکینہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئی ۔۔کسی طرف سے دلجوئی نہ ہونے کی وجہ سے سکینہ کی ناپسندیدگی نفرت میں بدلنے لگی۔بظاہر ہر شے نارمل ہی رہی مگر اندر ہی اندر کوئی بھی ردِعمل ظاہر کیے بغیر سکینہ بی اماں سے نفرت کرنے لگی ۔ ۔ بی اماں کے کالے اور سفید بالوں کی کھچڑی اسے بری لگتی، تھوڑی کے نیچے لٹکتی بوڑھی جلد کی جھالر سے اسے ابکائی آتی ۔وہ مجبوری کے سے انداز میں بی اماں کے پاس پڑھنے جاتی اور ان کی نظروں سے بچ بچا کر جلد از جلد گھر بھاگنے کی کوشش کرتی۔۔
ایک دن بی اماں نے اپنے کسی کام کیلئے اسے سہ پہر میں گھر سے بلا لیا ۔ ۔ اس وقت وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی ۔۔ ایک تو بے وقت کا بلاوہ اور دوسرا کھیل کو مجبوراً چھوڑ کر جانے کی وجہ سے اس کا ننھا سا وجود غصے سے پھٹنے والا ہو گیا ۔ ۔ جب وہ بی اماں کے گھر پہنچی تو دیکھا کہ وہ مزے سے اونگھ رہی ہیں اور بظاہر کوئی کام نہیں تھا ۔ ۔ وہ واپس جانے کیلئے مڑی تو اسکی نظر تایا جی کے پرس پر پڑی جو دروازے کے ساتھ والے میز پر کھلا پڑا تھا اور اس میں سے لال لال اور ہرے ہرے رنگ کے نوٹ جھانک رہے تھے ۔ ۔ اسے پیسوں کی ضرورت تو نہ تھی لیکن اس نے صرف اپنے غصہ کو کم کرنے کیلئے اور بی اماں سے بدلہ لینے کیلئے پرس کو اٹھایا۔۔۔۔۔۔۔ اس میں سے گنے بغیر کئی نوٹ اٹھائے اور مٹھی میں دبا کر بھاگ نکلی ۔گھر پنہچتے پہنچتے سکینہ نے ساری پلاننگ کرلی تھی کہ اگر اس سے پوچھا گیا تو وہ آرام سے مریم کا نام لے دے گی کہ پیسے اس نے اٹھائے ہیں۔۔ سکینہ کے بدن میں خوشی اور سسننی کی لہر دوڑ گئ۔۔اخاہ اب آئے گا مزہ۔۔اس نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا اور سب سے نظرے بچاتے ہوئے پیسے اس سپارے میں چھپا دیے جو وہ ختم کر چکی تھی۔
اگلی صبح جب سکینہ حسبِ معمول سپارہ پڑھنے گئی توبی اماں کے گھر میں ڈھنڈورا پٹا ہوا تھا۔ ۔ سب بچے اسکی جانب دیکھ کر آپس میں سرگوشیاں کر نے لگے ۔۔تایا بھی خونخوار نظروں سے اسے گھور رہے تھے وہ اس لیے کہ بی اماں کی بڑی بہو فضیلت نے پچھلی دوپہر میں سکینہ کو بی اماں کے کمرے سے نکل کر بھاگتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ لہذا سب اسے چور سمجھ رہے تھے۔ چٹائی پر بیٹھنے سے پہلے ہی فضیلت نے اسے بازو سے پکڑ کر باہر کھینچ لیا۔۔بتاؤ پیسے کہاں ہیں؟ چور اچکی کہیں کی۔ اسے سپارے کے لیے بٹھانا ہی نہیں چاہیے تھا۔۔یہ تو شکل سے ہی چور لگتی ہے۔اسکی ماں کو بلائیں اور پیسے نکلوائیں۔۔وہ شدیدغصے میں تھی۔۔مسلسل بولتی گئی۔۔۔۔سکینہ سہم گئی ۔ اس نے تو سوچا بھی نا تھا کہ بازی یوں پلٹ جائے گی۔ اب کیا ہو گا؟ ابّا اسکی کھال ادھیڑ دیں گے؟ بی اماں ہمیشہ کے لیے اسے گھر سے نکال دیں گی؟ اس قسم کے خیالات سوچ کر اسکے دل کی دھڑکن تیز ہو گئ۔۔اس نے ادھر ادھر دیکھا۔۔سارے بچے اسکی حالت سے محظوظ ہو رہے تھے۔ ذلت کے احساس سے سکینہ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور وہ روہانسی ہو گئی ۔۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اپنا دفاع کیسے کرے۔ وہ چپ سادھے کھڑی رہی۔۔۔۔۔ اتنے میں بی اماں کمرے سے نمودار ہوئیں اور کڑک کر بولیں ''خبردار جو اس بچی پر الزام لگایا ۔ ۔ اسے میں نے خود اپنے کام سے بلایا تھا جس کے بعد یہ سیدھی گھر واپس چلی گئی تھی '' ۔ ۔ چور ڈھونڈنا ہے تو کہیں اور ڈھونڈو'' میرے بچے چور نہیں ہو سکتے۔۔چل لڑکی!! چھوڑ اسکا بازو۔۔انہوں نے آگے بڑھ کر فضیلت کے ہاتھ سے اسے چھڑایا۔۔آئے بڑے کھوجی۔۔جس کے جتنے پیسے گم ہوئے ہیں مجھ سے لے لے۔۔لیکن کوئی میرے بچوں پر الزام نہ لگائے ۔ ۔سکینہ کیلئے یہ سب بہت غیر متوقع تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخرکھٹوراور ظالم قسم کی بی اماں آج اچانک کیسے اس پر اتنی مہربان ہو گئیں۔ آج جب انکو اسے زیادہ مارنا چاہیے تھاوہ الٹا اسے مار سے بچا رہی تھیں۔۔سکینہ کو سمجھ نہیں آیا کہ ماجرہ کیا جو انہوں نے اس کی حمایت کی؟ حالانکہ انہوں نے اسے کسی کام کا حکم نہیں دیا تھا پھر یہ کیوں کہا کہ وہ کام کرنے ے بعد گھر چلی گئی تھی؟ سکینہ کا ذہن الجھ کر رہ گیا۔ بی اماں نے سب کو ڈانٹ کر بھگا دیا اوراسکو چٹائی پر بٹھا کر سبق پڑھانے لگیں۔۔۔
سکینہ اپنی اس حرکت پر سخت پشیمان تھی ۔گھر پنہچتے ہی اس نے سب کچھ اپنی ماں کو بتایا اور پیسے نکال کر سامنے رکھ دیے۔ ماں نے اسکو خوب لعن طعن کیا۔ پیسے اٹھائے، اسے ساتھ لیا اور بی اماں کی طرف چل دی۔ سکینہ ماں کے ہمراہ ڈرتے ڈرتے بی اماں کے کمرے میں داخل ہوئی اور دیکھا کہ بی اماں اپنے پلنگ پر نیم دراز تھیں۔ بی اماں! سکینہ کی ماں نے لجاہت سے کہنا شروع کیا۔۔۔ آپکی امانت دینے آئی ہوں۔۔یہ لیں اپنے پیسے ۔۔سکینہ ہی چور ہے۔ بی اماں پر اسرار طریقے سے مسکرائیں اور بولیں ۔۔مجھے پتا ہے۔انہوں نے سکینہ کو کھینچ کر ساتھ لگایا اور اسکی پیٹھ تھپکنے لگیں۔ بیٹا آئیندہ ایسا نہیں کرنا۔۔چلو اب جاؤ گھر تمھاری امی تھوڑی دیر تک آجائے گی۔اس نے سر ہلایا اور باہر نکل گئی۔ پر بی اماں آپ نے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بچے نادانیاں کرتے ہیں بیٹی ۔انہوں نے اسکی بات کاٹ کر کہا۔۔۔پر اگر آج اس پہ الزام ثابت ہو جاتا تو پھرآئیندہ گمشدہ ہونے والی چیزیں بھی اس کے کھاتے میں جایا کرتیں۔ اور میں اپنے بچوں پہ آنچ آنے دوں یہ کیسے ممکن ہے۔ویسے بھی مجھے اپنے ہر بچے کی فطرت کا اچھی طرح پتا ہے۔۔۔تم اب اس بات کی جان چھوڑو اور یہ شربت پیو۔۔۔
اگلے دن جب سکینہ سپارہ پڑھنے بی اماں کے گھر داخل ہوئی تو اس نے خود میں عجیب سی تبدیلی محسوس کی۔ اسے بلند آواز میں ایک ہی سبق بار بار دہرانے ہیں مزہ آیا۔وہ اس تبدیلی پر حیران تھی۔ہر شے ایک نیا ذائقہ دے رہی تھی۔۔حتیٰ کہ آج جب وہ سبق سناتے ہوئے اٹکی تو بی اماں کے دو ہتھڑوں پہ اسے غصہ بھی نہیں آیا۔ سبق سے چھٹی ہونے کے بعد جب بی اماں نے کسی کام کے لیے بچوں کو آواز دی تو سکینہ سب سے پہلے انکی طرف بھاگی۔
Sunday, 3 January 2016
دنیا کے وسائل میں عورت کا حصہ


جسم فروشی یا کسی مالدار گدھے سے شادی کے علاوہ عورت کے پاس دولت کمانے کے بہترین طریقے کون سے ہیں؟؟
اب تک دنیا کی قابل ذکر مالدار عورتیں کون سی رہی ہیں؟
مسلم دنیا میں خاص طور پر پاکستان میں دولتمند ایسی خواتین کے نام بتائیں جنہوں نے مردوں کی طرح خود دولت کمائی ہو؟؟ میرے ناقص علم کے مطابق ایسی خواتین ناپید ہیں.. اگر چند ایک مالدار خواتین ہیں بھی تو ان کی دولت کا زیادہ تر حصہ کسی مردانہ رشتے کی طرف سے عنایت شدہ ہوتا ہے. لیکن کاروبار، شراکت یا دوسرے رائج طریقوں سے دولت کما کر وسائل میں سے قابلِ قدر حصہ بٹورنا اب تک عورت کے نصیب میں نہیں ہوا..
یہی حال اہم عہدوں پر تعیناتی کا ہے..دنیا بھر کے تمام اہم عہدے مردوں کے قبضے میں ہیں.. وزیر اعظم سے لے کر عدالتوں ,عسکری قوتوں اور بڑی کمپنہوں کے تمام عہدوں پر عورتوں کی تعیناتی کا تناسب انکی شرع آبادی کے حساب سے بہت کم ہے.. امریکہ میں کتنی عورتیں وائٹ ہاوس میں بر سر اقتدار رہی ہیں.؟؟؟ کتنی خواتین سیاست میں سرگرم ہیں؟ کتنی خواتین ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سربراہان ہیں؟
بزنس کی دنیا میں glass sealing کے نام سے ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے. یہ gender discrimination کے حوالے سے عورتوں کی ترقی میں نادیدہ رکاوٹیں پیدا کرنے کے لیے مختلف حربوں کے استعمال کا ایک طریقہ واردات ہے. گلاس سیلنگ تکنیک میں ہوتا یہ ہے کہ بڑی بڑی کمپنیاں بظاہر تو خواتین کو ملازمت دیتی ہیں تا کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ ہم خواتین کے بڑے قدردان اور خیر خواہ ہیں لیکن ان ملازمتوں کی نوعیت کچھ اسطرح کی ہوتی ہے جو خواتین کی ذہنی صلاحیتوں کی یا تو نفی کرتی ہے یا پھر ان صلاحیتوں کو پوری استعداد سے بروئے کار لانے میں معاون ثابت نہیں ہوتیں.. مثال کے طور ہر زیادہ تر کمپنیوں میں خواتین کو بطور سیکٹری... ریسپشنسٹ، اسسٹنٹ وغیرہ کی جابز آفر کی جاتی ہیں. جن کا تعلق پبلک ڈیلنگ سے ہوتا ہے.. یہ خواتین کمپنی کے اعلی عہدوں تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر رہتی ہیں. اور یہی کمپنی کے عہدیداروں کی آرزو ہوتی ہے..
مسلم ممالک میں کتنے ملکوں میں حکومتی عہدوں پر عورتیں کام کر رہی ہیں؟؟مضحکہ خیز سوال ہے. کیونکہ مسلم ممالک میں ابھی یہ بحث جاری ہے کہ عورت کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے یا نہیں.. پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان میں خواتین کو سیاست میں شامل کرنے کا ڈرامہ رچایا گیا.. مگر یہ سب عورتیں سیاسی قبضہ گروپ کی داسیاں ہیں .. بے نظیر بھٹو صاحبہ کے علاوہ کوئی ایک عورت بھی اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر اس میدان میں جگہ نا بنا سکی. ان خواتین کی سیاسی بصیرت صفر کے برابر ہے..قانون سازی اور پالیسی میکنگ میں انکا کردار کہیں دکھائی نہیں دیتا.. حقیقت یہ ہے کہ حقوق نسواں کے نام پر سیاست میں عورتوں کی یہ شمولیت دراصل کرپٹ سیاستدانوں کا سیاست پر اجارہ داری قائم رکھنے کا ایک اور چور دروازہ ہے..اس وقت پارلیمنٹ میں موجود ایک بھی خاتون ایسی نہیں ہو گی جو بذات خود سیاسی بصیرت کی مالک ہو گی.. وہ یا تو کسی سیاست دان کی بیوی ہو گی یا بیٹی اور اس کے الیکشن جیتنے کی وجوہات بھی یہی ہوں گی. یہ خواتین نا تو پاکستان کی خواتین کی نمائندگی کرتی ہیں نا ہی ان کے مسائل اور امنگوں کا ادراک رکھتی ہیں..
یوں ہم یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ تاریخ انسانی کے اس سنہرے دور میں بھی عورت استحصال کا شکار ہے...بڑے بڑے اداروں اور کمپنیوں میں اس کی حیثیت اب بھی سیکس سمبل سے زیادہ نہیں ہے..ایک دعوے کے مطابق عورت اوسطاً مرد سے زیادہ محنتی اور جفا کش ہے. دنیا میں ہونے والی مشقت میں زیادہ حصہ عورت کا ہے. لیکن مردوں کے مقابلے میں خواتین مزدوروں کی اجرت آدھی سے بھی کم ہے. پوری دنیا کی صرف تین فیصد خواتین ایسی ہیں جو ذاتی جائیداد کی وارث ہیں. کاروبار کرنے کی خواہشمند خواتین کے لیے منڈی کا ماحول بالکل سازگار نہیں ہے.. ہمارے دیسی لبرل اور سیکولر ٹٹ پونجیے بھی عورت کی آزادی کو بس بے لباسی تک ملحوظ رکھتے ہیں..فیس بک پہ یہ لوگ خواتین کی پورن تصاویر شئیر کرنے کے شوقین ہیں.اس سے زیادہ انکی ذہنی استعداد نہیں ہے..
مندرجہ بالا معروضی حقائق کا دفاع کرتے ہوئے اکثر لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ خواتین کی ذہنی استعداد مردوں کے مقابلے میں پسماندہ ہے..وہ حساب کتاب میں کمزور ہیں..ریشنل نقطہ نظر نہیں رکھتیں .. ان میں قائدانہ صلاحتیں نہیں..یہ جذباتی مخلوق ہے..یہ اعصابی طور پر بھی بہت کمزور ہے وغیرہ وغیرہ. اس لیے یہ ان تمام نعمتوں اور وسائل کی حق دار نہیں ہیں جو اس وقت مرد کے قبضے میں ہیں. پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ دعوٰی ہی غلط ہے.. دنیا کی کسی بھی لیبارٹری میں ٹیسٹ کروا لیں.. عورت مرد سے زیادہ مدبر، ذہین اور مستعد ثابت ہو گی.. البتہ وہ نا تجربہ کار ضرور ہے.. یہ ناتجربہ کاری جسے "سیانے" لوگ ذہنی استعداد میں نقص سے تعبیر کرتے ہیں کوئی جنیٹک ڈیفیکٹ نہیں. یہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت صدیوں کی پریکٹس کے بعد خواتیں میں ودید کیا گیا ہے تاکہ وہ اکثر معاملات میں مردوں سے کم تر رہیں.. ..
جس طرح آہنی ڈبوں میں سالوں تک بچوں کے سر مقید کر کے دولے شاہ کے چوہے تیار کئے جاتے ہیں اسی طرح عورت کو صدیوں تک مخصوص اور محدود ماحول میں رکھ کر اسکی ذہنی صلاحتیوں کو زنگ لگانے کی گھناونی سازش کی گئی ہے..گزشتہ تمام معاشروں میں اس کے ذمے لگائے جانے والے کام مرد کی جنسی خواہشات پوری کرنا..کھانا پکانا ,جھاڑپونچھ .کپڑے دھلائی اور خدمت گزاری رہے ہیں..کیا یہ ایسا سیٹ اپ تھا کہ اس میں عورت کی ذہنی صلاحتیں پنپ سکتیں؟ . جس فرد کو ساز گار ماحول میسر نا ہو اسکی مخفی صلاحتیں کیسے نمو پا سکتی ہیں؟؟
دنیا میں طاقت کے دو سرچشمے ہیں.. اقتدار اور معاشیات.. عورت ان دونوں سے محروم ہے. اور ہمیشہ وسائل سے محروم اور کمزور طبقات کا استحصال ہوتا ہے..اگر عورتیں واقعی برابری چاہتی ہیں.. اپنی زندگی پورے حق سے بتانا چاہتی ہیں..انسانی معراج کے زینے طے کرنا چاہتی ہیں تو انہیں مظلومیت کے سب لبادے اتار کر عملی میدان میں خود کو مظبوط بنانا پڑے گا..اپنی ذہنی صلاحتییں بروئے کار لانا ہوں گی. خود کو علم و دانش سے آراستہ کرنا ہو گا. سیاسی و معاشی میدان کی سرگرم کھیلاڑی بننا ہو گا.. جب تک عورت خود کو معاشی طور پر مضبوط نہیں کرتی وہ اپنے جنسی و جسمانی استحصال کا سد باب نہیں کر سکتی..
میری عزیز خواتین! آپ نا کم عقل ہیں نا کم فہم.. آپ کو بھٹکایا گیا ہے.آپ کو دبانے کے لیے آپ کی مصنوعی کم فہمی اورجسمانی کمزوری کے حق میں دلائل گھڑے گئے ہیں..اس مشینی دور میں جسمانی مشقت اب کوئی حیثیت نہیں رکھتی . لہذا اب وقت ہے کہ آپ درست سمت میں سفر شروع کریں..یہ دنیا آپ کی بھی اتنی ہی ہے جتنی مردوں کی ہے..تمام زمینی وسائل پر آپ کا برابر کا حق ہے. آپ کو خود آگے بڑھ کر یہ حق حاصل کرنا ہو گا..اپنی ذات کے زنگ کھرچنے ہوں گے.دوسری صورت میں شمع محفل بنی رہنے اور ہر طرح کا ظلم سہنے کے لیے تیار رہیے.. جو بھی کرنا ہے آپ نے خود کرنا ہے. کیونکہ اپنے حقوق کے لیے کسی آسمانی صحیفے یا زمینی آئین میں ترمیم کا انتظار کرنا بے سود ہے..
Saturday, 2 January 2016
کیا کتابیں ہمیں جاہل بھی بناتی ہیں؟


کیا کتابیں ہمیں جاہل بھی بناتی ہیں؟
.......
ہمارے یہاں ایک عجیب رویہ دیکھنے میں آرہا ہے.. جو شخص چار کتابیں پڑھ لے. انگلش سیکھ لے.. اردو کے ثقیل الفاظ سے واقفیت حاصل کر لے وہ خود کو تاریخ کا ماخذ، حال کا مدبر اور مستقبل کا راہبر سمجھنے لگتا ہے. پھر اسے عام لوگ کیڑے مکوڑے لگتے ہیں.. اپنا گرد و پیش ناقص اور حالات ہیچ نظر آتے ہیں.. لہذا وہ اپنے کتابی علم کو موجودہ حالات پر لاگو کر کے نئے معروضی استدلال اخذ کرنے سے قاصر رہتا ہے اور ماضی میں جینے لگتا ہے. یوں ایک عجیب سی یو ٹوپیائی شخصیت سامنے آتی ہے.. جو اپنی ذات میں تو بہت بڑی علمی علامت ہو سکتی ہے لیکن معاشرے کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ملتا. ایک کمیونیکیشن گیپ در آتا ہے اور لوگ ایسے فرد سے گھبرانے لگتے ہیں. کیونکہ عام آدمی کو اپنے موجودہ دور میں دلچسپی ہوتی ہے.. اسے ماضی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا. لیکن ایسا شخص انہیں ماضی کے قصے اور آوٹ ڈیٹڈ فلسفے سنا کر مرعوب کرنے کی کوشش میں رہتا ہے. لوگ اسکی ذات کے ساتھ ساتھ علم اور کتابوں سے بھی بے زار ہو جاتے ہیں..
عقل و دانش کی تکمیل میں بے شک کتابوں کا بہت کردار ہے.. کتابیں ہمارے اجداد کی مغز ماری کا عرق ہیں. یہ انسان کی ہزار ہا سال کی ذہنی و جسمانی مشقت کے منطقی نتائج ہیں. یہ علم و دانش کا ماخذ ہیں. لیکن کتابیں پڑھتے ہوئے حال کو نظر انداز کر دینا دانشمندی نہیں.. کتابیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ہماری حال پر بھی نظر ہو.. ہمیں اپنے دور کی خامیوں اور خوبیوں کا ادراک ہو اور ہم اپنے کتابی علم کا حال پر اطلاق کر کے ایسے نتائج اخذ کر سکنے کے قابل ہوں جو زمینی حالات سے مطابقت رکھتے ہوں.
چند کتابیں پڑھ کر اور بڑے بڑے فلسفیوں کے چند جملے رٹ کر یہ سمجھ لینا کہ اب ہم ہی دنیا کی سچائیوں اور دانش سے واقف ہیں جبکہ عام آدمی کوڑھ مغر اور عقل سے پیدل مخلوق ہے سراسر بے قوفی ہے.. فلسفہ و دانش کسی فلسفہ دان یا سائنس دان کی میراث نہیں ہے.. ہر وہ شخص جس کی دماغی حالت معیاری ہو اور حواس خمسہ کام کرتے ہوں وہ سائنسدان بھی ہے اور فلسفی بھی. کچن میں روٹیاں پکاتی عورت سے لے کر دوکان پہ حجامتیں بناتے ہوئے نائی سمیت ہر کوئی کسی نا کسی فلسفے اور سائنسی اصول کے تحت زندگی گزار رہا ہے. لائبریری میں بیٹھا کسی دیوہیکل کتاب کی اوراق زنی میں غرق ایک فلسفی اگر کسی حقیقی سچائی کا ادراک کرتا ہے تو بہت ممکن ہے کہ کسی دور دراز علاقے میں بیٹھا ایک بڑھئی وہی سچائی کسی سادہ سی ضرب المثل کی صورت میں اپنے گاہکوں کو سنا رہا ہو کیونکہ اسکی دوکان کے سامنے بنا چوبارہ بھی ایک لائبریری ہے جس میں روزانہ لاتعداد کتابیں.. فلسفے.. استدلال.. فطری رحجانات اور تجرباتی علمی ماخذ انسانی شکل میں نمودار ہوتے ہیں.
لہٰذا بہت اہم ہے کہ ہمارے یہاں کے اندھوں میں کانے راجے جیسے فلسفی اور دانشور اپنی دیمک لگی کتابوں سے سر اٹھا کر اپنے ٹھنڈے ڈرائینگ رومز کی royal محفلیں چھوڑ کر باہر تپش میں نکلیں.. گلیوں بازاروں اور چوراہوں میں لوگوں کے درمیان حبس میں بیٹھیں اور انسانوں کو سمجھیں. انسانی بدن سے اٹھتی ہمک سے اپنے دماغی خلیوں کو روشناس کروائیں. تب وہ جان پائیں گے کہ زندگی کی حقیقت کیا ہے. عام انسان جن کا حالات و واقعات اور فطرت کے ساتھ exposure ان کتاب زدہ لوگوں سے کہیں زیادہ ہے. انکی کہی ہوئی بات اور استدلال کتابوں سے زیادہ اہم ہے . ان دانشوروں کو حیرت ہو گی کہ ہمارا عام آدمی جسے وہ جہالت کا نمونہ سمجھتے ہیں وہ ارتقاء کر کے انکی دھیمک لگی کتابوں سے بہت آگے نکل گیا ہے جس کے لیے پرانے آزمائے ہوئے گھسے پٹے ضابطوں کی نہیں بلکہ نئے نظام.. نئے فلسفے اور نئے استدلال اخذ کرنے کی ضرورت ہے..
ایک حقیقی مدبر کے لیے انسان اور کتاب دونوں برابر کی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں. اگر کوئی دانشور کتاب کو تو سر پر رکھے مگر انسان کو جوتے تلے دبائے تو اسے اپنی لائبریری کو آگ لگا دینی چاہیے. بدقسمتی سے ہمارے یہاں یہی عالم ہے.. ہمارے اسلامسٹ، سوشلسٹ، لبرل اور ملحد اسی رویے کا شکار ہیں . وہ کتابوں سے حد درجہ مرعوب ہیں اور انسانوں کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں . میں انہیں بتانا چاہتی ہوں.. سقراط جو یونان کا بلے شاہ تھا اور بلے شاہ جو پنجاب کا سقراط تھا دونوں کسی مکتب سے نہیں پڑھے اور نا ہی انہیں کتابوں سے سروکار تھا..