Tuesday, 19 January 2016

جدید انسانی ذہن کے مذہبی رحجانات

0 comments
سائنس کی عمارت عقل، منطق، استدلال اور تجرباتی شہادت پر استوار ہے. ہر وہ نظریہ جسے عقلی بنیادوں پر پرکھا نہ جا سکے اور جس کے حق میں حواسِ خمسہ کے ذریعے کوئی شہادت نہ پیدا کی جا سکے جدید انسانی ذہن اسے رد کرنے کا رحجان رکھتا ہے۔ اس قسم کے رحجانات کی بنیاد اسے سائنس نے فراہم کی ہے. چند سو برس پہلے جو فلسفہ جات اور نظریات انسانی تہذیب و افکار کا محور تھے۔ آج سائنسی علوم کی یلغار کے سامنے متزلزل ہیں. یہ نظریات دقیانوسیت کا لبادہ اوڑھے منظر سے غائب ہو رہے ہیں۔ ہزار ہا سال سے انسانی ذہن پر راج کرتے عقائد اب منطق اور تجرباتی شہادت کے محتاج ہیں کیونکہ دن رات علت و معلول ((Cause & Effectسے نبرد آزما انسانی شعور اب دیومالائی کہانیوں کی طرف متوجہ ہونے سے قاصر ہے کیونکہ انہیں تجرباتی شہادت کے ذریعے پرکھا نہیں جا سکتا۔ یوں یہ کہانیاں قصہ پارینہ پن کر تاریخ کی کتابوں کے پچھلے صفحات میں گم ہوتی جا رہی ہیں. .
مذہب ان عقائد میں سر فہرست ہے جو جدید انسانی ذہن( جسے سائنسی ذہن کہنا زیادہ مناسب ہے) کے تیکھے سوالوں اور عقلی تقاضوں کا سامنا کرنے سے قاصر ہیں۔ ماضی کا یہ مختار کل فلسفہ آج سائنس کے دامن میں پناہ ڈھونڈ رہا ہے. سائنسی استدلال کی یلغار کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ صحائف کی روایات کی سند کے لئے اب سائنسی حوالے تلاش کئے جا رہے ر ہیں۔ ” یہ بات سائنسی تحقیق سے بھی ثابت ہوتی ہے“۔ کیا آپ نے سوچا ہے کہ مذہبی پیشوا اب یہ جملہ کہنے پر مجبور کیوں ہیں؟ کیونکہ سائنسی منطق اپنائے بنا ان کی بات پر اب کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں. مثال کے طور اگر کوئی مذہبی پیشوا یہ دعویٰ کرے کہ فلاں مذہبی روایت کے مطابق کوہ ہمالیہ کی پہاڑیوں پر سبز پانی کے چشمے ہیں تو امکان ہے کہ سائنٹیفک دماغ اس دعوے کو شک کی نگاہ سے دیکھے. البتہ اگر کسی تحقیقی مقالے میں یہ دعویٰ سامنے آئے کہ ناسا کی طرف سے بھیجی ہوئی زمین کی تازہ تصاویر میں کوہ ہمالیہ کی چوٹیوں پر پانے کے ایسے ذخائر دیکھے گئے ہیں جن کا رنگ سبز ہے اور یہ رنگ ممکنہ طور پر سبز کائی کی کثرت کی وجہ سے ہو سکتا ہے تو امکان ہے کہ سننے والا فوراً یقین کر لے۔ کیوں ؟ کیونکہ اس دعوے کے ساتھ ایک منطق اور شہادت جڑی ہے جسے تجربے سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ منطق اور تجرباتی شہادت پر اکتفا کرنا انسانی ذہن کے مثبت ارتقا کی طرف پیش رفت ہے۔
سائنس اور مذہب دو ایسی تلواریں ہیں جو ایک میان میں نہیں رہ سکتیں. سائنس قبولنے والا ذہن ہمیں مذہب بےزار دکھائی دیتا ہے لیکن یہ انکاری ذہن اپنی ترکیب میں بے قصور ہے کیونکہ اسے دلیل اور عقیدے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ گلیلیو، چارلس ڈارون، رچرڈ ڈاکنز، ایلن ٹورنگ، تھامسن ایڈیسن, کارل ساگاں اور آئن سٹائن جیسے فطین سائنس دان عقیدے کے لحاظ سے غیر مذہبی تھے؟ شاید جیسے جیسے کائناتی راز آشکار ہوئے ویسے ویسے وہ عقیدے سے حقیقت اور یقین سے شک کی طرف جھکتے چلے گئے۔ اس وقت بھی چونکہ دلیل کا پلڑا یقین سے کس قدر بھاری ہے لہذا مذہب سائنس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہے. اس کی تازہ ترین شہادت مندر، چرچ، کلیسا اور مسجد کا مفاہمتی رویہ ہے. حالیہ خبریں بتاتی ہیں کہ دو صدیوں کی کشمکش کے بعد آخر سائنس نے پوپ کو مجبور کر دیا کہ وہ آدم اور حوا کی رومانوی کہانی سے دستبردار ہو کر نظریہ ارتقا کی توثیق کر دے۔
گزشتہ نظریات کے اجزائے ترکیبی اعتقادات، رومانوی خواہشات اور دیومالائی کہانیاں تھیں جن کا شاذونادر ہی منطق سے کوئی تعلق ہوا کرتا تھا لہٰذا جدید انسانی ذہن ان عقائد کے ساتھ حالت جنگ میں دکھائی دیتا ہے. اس ذہنی کشمکش کو کرہ ارض پر جاری روحانی بحران کی وجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ شعور کی آنکھ کو خیرہ کر دینے والے ٹیکنالوجی کے قمقموں کی جگ مگ میں گھرے ہونے کے باوجود بسا اوقات انسانی ذہن ضعیف العتقادی کے اندھیروں میں پناہ ڈھونڈتا ہے. بڑی بڑی یونیورسٹیوں کے طلبا کا داعش جیسی تنظیم کی طرف حالیہ رحجان کو اس استدلال پر پرکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح موجودہ انسانی شعور اندھے اعتقاد اور ٹھوس حقیقت کی دو دھاری تلوار پر بیک وقت چلتے ہوئے انتشار کا شکار ہو رہا ہے۔ مستقبل کی نئی جہتوں میں قدم رکھتے ہوئے ماضی کے اثرات سے نجات حاصل کرنے کے لیے اگرچہ وقت درکار ہوگا مگر امید کی جا سکتی ہے کہ یہ بحران وقتی ہے اور جلد یا بدیر جیت منطق اور شہادت کی ہو گی۔
سائنس کو باطل قرار دے کر اسے رد کرنے والوں کی نمایاں اور موثر ترین دلیل یہ ہے کہ انسانی حواس بہت محدود ہیں اس لیے یہ کائناتی سچائیوں کا احاطہ نہیں کر سکتے. ان عقائد کو رد کرنا جسے انسانی ذہن نے ہزار ہا سال کی سوچ بچار کے بعد دریافت( تخلیق) کیا عقل مندی کی روش نہیں۔ لیکن یہ لوگ ان عقائد کی محبت میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ایسے دعوے جنہیں صدیوں کی تکرار نے اب تک اکلوتے سچ بنا کر پیش کیا، ایسے غیر مستند بیانات کے سراب کا پیچھا کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے ناقص اور محدود حواس کے دائرے میں آنے والی سچائیوں پر اکتفا کرتے ہوئے حقیقت کا تعاقب کریں۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔