مودی کی مذہبی منافرت پر مبنی سیاست پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک صاحب علم شخصیت نے فرمایا۔ ہمیں بلا جھجک اور بلا مبالغہ یہ دعویٰ کرنا چاہیے کہ پاکستانی عوام کو یہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے اپنی ستر سالہ تاریخ میں کبھی کسی مذہبی جماعت کو ووٹ دے کر پارلیمنٹ میں نہیں بھیجا۔ یوں پاکستانی عوام بھارتی عوام سے زیادہ عقل مند اور سمجھدار واقع ہوئے ہیں۔ کہنے کو یہ بات معمو لی اور مذاق لگتی ہے۔ رجعتی نظریات کے متوالے اسے تعصب نظری سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔مگر سرحد کے دونوں جانب کی بنیاد پرست جماعتوں کی حالیہ حرکات و سکنات اس نقطہ نظر کو تقویت دینے کے لیے کافی ہیں کہ مذہبی جماعت کا سیاسی چناو ¿ انتشار اور پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے اور ایک گروہ کے نظریات کو کل پر لاگو کرنا مسائل کو جنم دیتا ہے۔ مودی نے پچھلے چند مہینوں میں جو گل کھلائے اس کے ثمرات آنا شروع ہو گئے ہیں۔ عوامی ردعمل بہار الیکشن میں شکست کی صورت میں سامنے آیا۔ عالمی سطح پر بھی وزیراعظم کو سبکی کا سامنا ہے۔ برطانیہ میں مودی کے خلاف مظاہرے اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ کہیں کہیں سے ہندو طالبان کا لقب بھی عنایت ہوا چاہتا ہے۔
سرحد کے اِس پار موجود پاکستان کی سب سے نمایاں مذہبی اور متحرک سیاسی جماعت، جماعت اسلامی کے رخساروں پر بھی آج کل مودی ازم کے رنگ کھل رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے حالیہ مرحلے میں عبرت ناک شکست کے بعد جماعت اضطراب اور بوکھلاہٹ کا شکار نظر آرہی ہے۔ پچھلے دنوں پہ در پہ ہونے والے چند معمولی مگر اہم واقعات نے جماعت اور اس کے کارکنوں کی محدود سیاسی بصیرت، غیر معتدل رویوں اور تعصبانہ نفسیات کو عیاں کیا ہے۔ کراچی میں طالبات پر تشدد کرنا قابل مذمت فعل تھا جس کا جمعیت و جماعت کے پاس کوئی معقول جواز نہیں۔ اگرچہ اس واقعے کی تردید کی گئی مگر سمجھنے والے سمجھتے ہیں اور جاننے والے جانتے ہیں کہ پہاڑ بنانے والوں کو رائی درکار ہوتی ہے۔ اس رائی کا پہاڑ بنانے والوں کے لاشعور میں جمیعت کا سابقہ ریکارڈ قوی امکان کی صورت میں موجود تھا جس کے مطابق ماضی میں جمیعت کے خود ساختہ اصلاحی کارکنان لڑکے لڑکیوں پر تیزاب پھینکا کرتے تھے. لہذا کچھ بعید نہیں کہ جس خبر کو پروپیگنڈا کہہ کر مسترد کیا جا رہا ہے یہ حال یا مستقبل کی حقیقت ثابت ہو۔
کراچی کی ہی ایک تقریب میں امیرِ جماعت کی شعلہ بیانیاں بے ربط اور بے وزن معلوم ہوئیں۔موصوف جہاں قائد و اقبال کو جماعت کی رکنیت سے نواز رہے تھے وہیں انہوں نے یہ کہہ کر متعدد پاکستانیوں کی شہریت کینسل کرنے کی کوشش کی کہ سیکولزم کے خواہش مند ملک چھوڑ کر کہیں اور جا بسیں۔ اس قسم کے بیانات پس پردہ چھپے تعصب، آمریت و بادشاہت کی ممکنہ تمنا اور مذہبی شدت پسندی کا عندیہ دیتے ہیں۔ ایسا غیر ذمہ دار بیان دینے سے پہلے امیر جماعت کو ایک دفعہ یہ ضرور سوچنا چاہیے تھا کہ یہ دھرتی جتنی رجعت پسندوں کی ہے اتنی ہی جدت پسندوں کی بھی ہے۔ جدت پسندوں کے اسلاف بھی اسی دھرتی کی گود میں مدفن ہیں۔ صدیوں سے یہاں بسنے والے لوگ جنہیں آزادانہ سوچنے، سمجھنے اور اپنی طرز زندگانی کا انتخاب کرنے پیدائشی حق حاصل ہے آپ کس اصول کے تحت انہیں یہ حکم نامے جاری کر رہے ہیں۔ آپ ایک جمہوری عمل کے پیروکار ہیں۔ اس جمہوری سسٹم کے تحت ہر الیکشن میں ٹکٹ جاری کر کے ووٹ لینے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اس لیے کم از کم آپ کو جمہوریت کا بنیادی اصول معلوم ہونا چاہیے کہ مخالفین سے آپ بھلے اتفاق کریں یا نا کریں مگر ان کے موقف کا احترام کیے بنا اور ان کے حق رائے دہی کو تسلیم کیے بغیر جمہوری عمل پورا نہیں ہوتا۔ جمہوریت میں ڈنڈا نہیں مکالمہ کارگر ہوتا ہے۔ مکالمے کے ذریعے اپنا موقف جیتیے، عوام کو قائل کیجئے۔ اپنے حق میں ذہن سازی کیجئے۔ ووٹ لیجئے، اقتدار میں آئیے اور اسے قانون کی شکل میں لاگو کر دیجئے۔ ڈنڈے کے زور پر اپنے مطالبات منوانے کو لغت جدید میں طالبانیت کہتے ہیں۔
دو دن پہلے کی ایک خبر مزید مایوس کن تھی۔ جب معلوم پڑا کہ جماعت نے کے پی کے بوائز سکولوں میں پیٹی ٹراوز کو بطور یونیفام لاگو کرنے کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ یہ نظام تعلیم کو امریکن کرنے کی کوشش ہے لہٰذا بوائز کا ڈریس کوڈ شلوار قمیض رہے گا۔ اگر یہ مخالفت مذہب کی محبت میں ہے تو عرض کرنا چاہوں گی کہ اسلام کا ڈریس کوڈ شلوار قمیض نہیں ہے۔ نہ ہی اسلام کو پینٹ کوٹ پہ کوئی اعتراض ہے۔ اس لیے جماعت کا یہ اعتراض قومی نہیں، ذاتی مسئلہ ہے۔ مانند پڑتی سیاست کو پھر سے چمکانے کی یہ کوشش بہت سطحی ہے۔ اس دقیانوسی ہتھکنڈوں سے شاید آپ چند شر پسند عناصر کی حمایت تو حاصل کرلیں مگر لمبے عرصے تک یہ ہتھکنڈے ساتھ دینے کی سکت نہیں رکھتے۔ جماعت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عوام کا مسئلہ رجعت پسندی نہیں ہے. ہمارے مسائل بہت جینوئن اور سنجیدہ ہیں جو سطحی نعرہ بازی اور کھینچا تانی سے حل ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ عوام آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ برق رفتاری سے آگے بڑھتی دنیا سے قدم ملانا چاہتے ہیں جبکہ آپ انہیں پچھلی جانب کھینچنے پر مصر ہیں۔
جماعت اسلامی ملک کی واحد جماعت ہے جو حقیقی معنوں میں جمہوری نظام رکھتی ہے۔ جماعت میں باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں جس میں خالص جمہوری طریقے سے امیر منتخب کیا جاتا ہے۔ ایسی مثال کسی دوسری پارٹی میں نہیں ملتی۔ اس کے باوجود جماعت سیاست کے افق کا ڈوبتا ہوا ستارہ بنتی جا رہی ہے۔ تلملاہٹ اور غیر معیاری اور غیر جمہوری رویہ اپنانے کی بجائے جماعت کو اپنی شکست کی اصل وجہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں سنجیدگی سے اس سوالات پر غور کرنا چاہیے کہ بہترین جمہوری نظام، خدمت خلق اور ایماندار امیدواروں کی نامزدگی کے باوجود کیا وجہ ہے جو پاسکتانی عوام ہر دفعہ انہیں رد کرتے ہیں؟ کہیں ان کی سیاست کی عمارت غلط بنیادوں پر تو استوار نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پارٹی ایجنڈے عوامی مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے ان نظریات پر قائم کیے گئے ہیں جو عوامی مسائل کے حل تجویز کرنا تو درکنار کسی طور پر عوامی مسائل کی تعریف پر ہی پورا ہی نہیں اترتے؟
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔