Sunday 3 January 2016

دنیا کے وسائل میں عورت کا حصہ

0 comments

جسم فروشی یا کسی مالدار گدھے سے شادی کے علاوہ  عورت کے پاس دولت کمانے کے بہترین طریقے کون سے ہیں؟؟

اب تک دنیا کی قابل ذکر مالدار عورتیں کون سی رہی ہیں؟
مسلم دنیا میں خاص طور پر پاکستان میں دولتمند ایسی خواتین کے نام بتائیں جنہوں نے مردوں کی طرح خود دولت کمائی ہو؟؟ میرے ناقص علم کے مطابق ایسی خواتین ناپید ہیں.. اگر چند ایک مالدار خواتین ہیں بھی تو ان کی دولت کا زیادہ تر حصہ کسی مردانہ رشتے کی طرف سے عنایت شدہ ہوتا ہے. لیکن کاروبار، شراکت یا دوسرے رائج طریقوں سے دولت کما کر وسائل میں سے قابلِ قدر حصہ بٹورنا اب تک عورت کے نصیب میں نہیں ہوا..

یہی حال اہم عہدوں پر تعیناتی کا ہے..دنیا بھر کے تمام اہم عہدے مردوں کے قبضے میں ہیں.. وزیر اعظم  سے لے کر عدالتوں ,عسکری قوتوں اور بڑی کمپنہوں کے تمام عہدوں پر عورتوں کی تعیناتی کا تناسب انکی شرع آبادی کے حساب سے بہت کم ہے.. امریکہ میں کتنی عورتیں وائٹ ہاوس میں بر سر اقتدار رہی ہیں.؟؟؟ کتنی خواتین سیاست میں سرگرم ہیں؟ کتنی خواتین ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سربراہان ہیں؟
بزنس کی دنیا میں glass sealing کے نام سے ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے. یہ gender discrimination کے حوالے سے عورتوں کی ترقی میں نادیدہ رکاوٹیں پیدا کرنے کے لیے مختلف حربوں کے استعمال کا ایک طریقہ واردات ہے. گلاس سیلنگ تکنیک میں ہوتا یہ ہے کہ بڑی بڑی کمپنیاں بظاہر تو خواتین کو ملازمت دیتی ہیں تا کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ ہم خواتین کے بڑے قدردان اور خیر خواہ ہیں لیکن ان ملازمتوں کی نوعیت کچھ اسطرح کی ہوتی ہے جو خواتین کی ذہنی صلاحیتوں کی یا تو نفی کرتی ہے یا پھر ان صلاحیتوں کو پوری استعداد سے بروئے کار لانے میں معاون ثابت نہیں ہوتیں.. مثال کے طور ہر زیادہ تر کمپنیوں میں خواتین کو بطور سیکٹری... ریسپشنسٹ، اسسٹنٹ وغیرہ کی جابز آفر کی جاتی ہیں. جن کا تعلق پبلک ڈیلنگ سے ہوتا ہے.. یہ خواتین کمپنی کے اعلی عہدوں تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر رہتی ہیں. اور یہی کمپنی کے عہدیداروں کی آرزو ہوتی ہے..

مسلم ممالک میں کتنے ملکوں میں حکومتی عہدوں پر عورتیں کام کر رہی ہیں؟؟مضحکہ خیز سوال ہے. کیونکہ مسلم ممالک میں ابھی یہ بحث جاری ہے کہ عورت کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے یا نہیں.. پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان میں خواتین کو سیاست میں شامل کرنے کا ڈرامہ رچایا گیا.. مگر یہ سب عورتیں سیاسی قبضہ گروپ کی داسیاں ہیں .. بے نظیر بھٹو صاحبہ کے علاوہ کوئی ایک عورت بھی اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر اس میدان میں جگہ نا بنا سکی. ان خواتین کی سیاسی بصیرت صفر کے برابر ہے..قانون سازی اور پالیسی میکنگ میں انکا کردار کہیں دکھائی نہیں دیتا.. حقیقت یہ ہے کہ حقوق نسواں کے نام پر سیاست میں عورتوں کی یہ شمولیت دراصل کرپٹ سیاستدانوں کا سیاست پر اجارہ داری قائم رکھنے کا ایک اور چور دروازہ ہے..اس وقت پارلیمنٹ میں موجود ایک بھی خاتون ایسی نہیں ہو گی جو بذات خود سیاسی بصیرت کی مالک ہو گی.. وہ یا تو کسی سیاست دان کی بیوی ہو گی یا بیٹی اور اس کے الیکشن جیتنے کی وجوہات بھی یہی ہوں گی. یہ خواتین نا تو پاکستان کی خواتین کی نمائندگی کرتی ہیں نا ہی ان کے مسائل اور امنگوں کا ادراک رکھتی ہیں..

یوں ہم یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ تاریخ انسانی کے اس سنہرے دور میں بھی عورت استحصال کا شکار ہے...بڑے بڑے اداروں اور کمپنیوں میں اس کی حیثیت اب بھی سیکس سمبل سے زیادہ نہیں ہے..ایک دعوے کے مطابق عورت اوسطاً مرد سے زیادہ محنتی اور جفا کش ہے. دنیا میں ہونے والی مشقت میں زیادہ حصہ عورت کا ہے.  لیکن مردوں کے مقابلے میں خواتین مزدوروں کی اجرت آدھی سے بھی کم ہے. پوری دنیا کی صرف تین فیصد خواتین ایسی ہیں جو ذاتی جائیداد کی وارث ہیں.  کاروبار کرنے کی خواہشمند خواتین کے لیے منڈی کا ماحول بالکل سازگار نہیں ہے.. ہمارے دیسی لبرل اور سیکولر ٹٹ پونجیے بھی عورت کی آزادی کو بس بے لباسی تک ملحوظ رکھتے ہیں..فیس بک پہ یہ لوگ خواتین کی پورن تصاویر شئیر کرنے کے شوقین ہیں.اس سے زیادہ انکی ذہنی استعداد نہیں ہے..

مندرجہ بالا معروضی حقائق کا دفاع کرتے ہوئے اکثر لوگ یہ دلیل دیتے  ہیں کہ خواتین کی ذہنی استعداد مردوں کے مقابلے میں پسماندہ ہے..وہ حساب کتاب میں کمزور ہیں..ریشنل نقطہ نظر نہیں رکھتیں .. ان میں قائدانہ صلاحتیں نہیں..یہ جذباتی مخلوق ہے..یہ اعصابی طور پر بھی بہت کمزور ہے وغیرہ وغیرہ. اس لیے یہ ان تمام نعمتوں اور وسائل کی حق دار نہیں ہیں جو اس وقت مرد کے قبضے میں ہیں. پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ دعوٰی ہی غلط ہے.. دنیا کی کسی بھی لیبارٹری میں ٹیسٹ کروا لیں.. عورت مرد سے زیادہ مدبر،  ذہین اور مستعد ثابت ہو گی.. البتہ وہ نا تجربہ کار ضرور ہے.. یہ ناتجربہ کاری جسے "سیانے" لوگ ذہنی استعداد میں نقص سے تعبیر کرتے ہیں کوئی جنیٹک ڈیفیکٹ نہیں.  یہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت صدیوں کی پریکٹس کے بعد خواتیں میں ودید کیا گیا ہے تاکہ وہ اکثر معاملات میں مردوں سے کم تر رہیں.. ..

جس طرح آہنی ڈبوں میں سالوں تک بچوں کے سر مقید کر کے دولے شاہ کے چوہے تیار کئے جاتے ہیں اسی طرح عورت کو  صدیوں تک مخصوص اور محدود ماحول میں رکھ کر اسکی ذہنی صلاحتیوں کو زنگ لگانے کی گھناونی سازش کی گئی ہے..گزشتہ تمام معاشروں میں اس کے ذمے لگائے جانے والے کام مرد کی جنسی خواہشات پوری کرنا..کھانا پکانا ,جھاڑپونچھ .کپڑے دھلائی اور خدمت گزاری رہے ہیں..کیا یہ ایسا سیٹ اپ تھا کہ اس میں عورت کی ذہنی صلاحتیں پنپ سکتیں؟ . جس فرد کو ساز گار ماحول میسر نا ہو اسکی مخفی صلاحتیں کیسے نمو پا سکتی ہیں؟؟

دنیا میں طاقت کے دو  سرچشمے ہیں.. اقتدار اور معاشیات.. عورت ان دونوں سے محروم ہے. اور ہمیشہ وسائل سے محروم اور کمزور طبقات کا استحصال ہوتا ہے..اگر عورتیں واقعی برابری چاہتی ہیں.. اپنی زندگی پورے حق سے بتانا چاہتی ہیں..انسانی معراج کے زینے طے کرنا چاہتی ہیں تو انہیں مظلومیت کے سب لبادے اتار کر عملی میدان میں خود کو مظبوط بنانا پڑے گا..اپنی ذہنی صلاحتییں بروئے کار لانا ہوں گی. خود کو علم و دانش سے آراستہ کرنا ہو گا. سیاسی و معاشی میدان کی سرگرم کھیلاڑی بننا ہو گا.. جب تک عورت خود کو معاشی طور پر مضبوط نہیں کرتی وہ اپنے جنسی و جسمانی استحصال کا سد باب نہیں کر سکتی..

میری عزیز خواتین! آپ نا کم عقل ہیں نا کم فہم.. آپ کو بھٹکایا گیا ہے.آپ کو دبانے کے لیے آپ کی مصنوعی کم فہمی اورجسمانی کمزوری کے حق میں دلائل گھڑے گئے ہیں..اس مشینی دور میں جسمانی مشقت اب کوئی حیثیت نہیں رکھتی . لہذا اب وقت ہے کہ آپ درست سمت میں سفر شروع کریں..یہ دنیا آپ کی بھی اتنی ہی ہے جتنی مردوں کی ہے..تمام زمینی وسائل پر آپ کا برابر کا حق ہے. آپ کو خود آگے بڑھ کر یہ حق حاصل کرنا ہو گا..اپنی ذات کے زنگ کھرچنے ہوں گے.دوسری صورت میں شمع محفل بنی رہنے اور ہر طرح کا ظلم سہنے کے لیے تیار رہیے.. جو بھی کرنا ہے آپ نے خود کرنا ہے. کیونکہ اپنے حقوق کے لیے کسی آسمانی صحیفے یا زمینی آئین میں ترمیم کا انتظار کرنا بے سود ہے..

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔