کیا کتابیں ہمیں جاہل بھی بناتی ہیں؟
.......
ہمارے یہاں ایک عجیب رویہ دیکھنے میں آرہا ہے.. جو شخص چار کتابیں پڑھ لے. انگلش سیکھ لے.. اردو کے ثقیل الفاظ سے واقفیت حاصل کر لے وہ خود کو تاریخ کا ماخذ، حال کا مدبر اور مستقبل کا راہبر سمجھنے لگتا ہے. پھر اسے عام لوگ کیڑے مکوڑے لگتے ہیں.. اپنا گرد و پیش ناقص اور حالات ہیچ نظر آتے ہیں.. لہذا وہ اپنے کتابی علم کو موجودہ حالات پر لاگو کر کے نئے معروضی استدلال اخذ کرنے سے قاصر رہتا ہے اور ماضی میں جینے لگتا ہے. یوں ایک عجیب سی یو ٹوپیائی شخصیت سامنے آتی ہے.. جو اپنی ذات میں تو بہت بڑی علمی علامت ہو سکتی ہے لیکن معاشرے کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ملتا. ایک کمیونیکیشن گیپ در آتا ہے اور لوگ ایسے فرد سے گھبرانے لگتے ہیں. کیونکہ عام آدمی کو اپنے موجودہ دور میں دلچسپی ہوتی ہے.. اسے ماضی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا. لیکن ایسا شخص انہیں ماضی کے قصے اور آوٹ ڈیٹڈ فلسفے سنا کر مرعوب کرنے کی کوشش میں رہتا ہے. لوگ اسکی ذات کے ساتھ ساتھ علم اور کتابوں سے بھی بے زار ہو جاتے ہیں..
عقل و دانش کی تکمیل میں بے شک کتابوں کا بہت کردار ہے.. کتابیں ہمارے اجداد کی مغز ماری کا عرق ہیں. یہ انسان کی ہزار ہا سال کی ذہنی و جسمانی مشقت کے منطقی نتائج ہیں. یہ علم و دانش کا ماخذ ہیں. لیکن کتابیں پڑھتے ہوئے حال کو نظر انداز کر دینا دانشمندی نہیں.. کتابیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ہماری حال پر بھی نظر ہو.. ہمیں اپنے دور کی خامیوں اور خوبیوں کا ادراک ہو اور ہم اپنے کتابی علم کا حال پر اطلاق کر کے ایسے نتائج اخذ کر سکنے کے قابل ہوں جو زمینی حالات سے مطابقت رکھتے ہوں.
چند کتابیں پڑھ کر اور بڑے بڑے فلسفیوں کے چند جملے رٹ کر یہ سمجھ لینا کہ اب ہم ہی دنیا کی سچائیوں اور دانش سے واقف ہیں جبکہ عام آدمی کوڑھ مغر اور عقل سے پیدل مخلوق ہے سراسر بے قوفی ہے.. فلسفہ و دانش کسی فلسفہ دان یا سائنس دان کی میراث نہیں ہے.. ہر وہ شخص جس کی دماغی حالت معیاری ہو اور حواس خمسہ کام کرتے ہوں وہ سائنسدان بھی ہے اور فلسفی بھی. کچن میں روٹیاں پکاتی عورت سے لے کر دوکان پہ حجامتیں بناتے ہوئے نائی سمیت ہر کوئی کسی نا کسی فلسفے اور سائنسی اصول کے تحت زندگی گزار رہا ہے. لائبریری میں بیٹھا کسی دیوہیکل کتاب کی اوراق زنی میں غرق ایک فلسفی اگر کسی حقیقی سچائی کا ادراک کرتا ہے تو بہت ممکن ہے کہ کسی دور دراز علاقے میں بیٹھا ایک بڑھئی وہی سچائی کسی سادہ سی ضرب المثل کی صورت میں اپنے گاہکوں کو سنا رہا ہو کیونکہ اسکی دوکان کے سامنے بنا چوبارہ بھی ایک لائبریری ہے جس میں روزانہ لاتعداد کتابیں.. فلسفے.. استدلال.. فطری رحجانات اور تجرباتی علمی ماخذ انسانی شکل میں نمودار ہوتے ہیں.
لہٰذا بہت اہم ہے کہ ہمارے یہاں کے اندھوں میں کانے راجے جیسے فلسفی اور دانشور اپنی دیمک لگی کتابوں سے سر اٹھا کر اپنے ٹھنڈے ڈرائینگ رومز کی royal محفلیں چھوڑ کر باہر تپش میں نکلیں.. گلیوں بازاروں اور چوراہوں میں لوگوں کے درمیان حبس میں بیٹھیں اور انسانوں کو سمجھیں. انسانی بدن سے اٹھتی ہمک سے اپنے دماغی خلیوں کو روشناس کروائیں. تب وہ جان پائیں گے کہ زندگی کی حقیقت کیا ہے. عام انسان جن کا حالات و واقعات اور فطرت کے ساتھ exposure ان کتاب زدہ لوگوں سے کہیں زیادہ ہے. انکی کہی ہوئی بات اور استدلال کتابوں سے زیادہ اہم ہے . ان دانشوروں کو حیرت ہو گی کہ ہمارا عام آدمی جسے وہ جہالت کا نمونہ سمجھتے ہیں وہ ارتقاء کر کے انکی دھیمک لگی کتابوں سے بہت آگے نکل گیا ہے جس کے لیے پرانے آزمائے ہوئے گھسے پٹے ضابطوں کی نہیں بلکہ نئے نظام.. نئے فلسفے اور نئے استدلال اخذ کرنے کی ضرورت ہے..
ایک حقیقی مدبر کے لیے انسان اور کتاب دونوں برابر کی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں. اگر کوئی دانشور کتاب کو تو سر پر رکھے مگر انسان کو جوتے تلے دبائے تو اسے اپنی لائبریری کو آگ لگا دینی چاہیے. بدقسمتی سے ہمارے یہاں یہی عالم ہے.. ہمارے اسلامسٹ، سوشلسٹ، لبرل اور ملحد اسی رویے کا شکار ہیں . وہ کتابوں سے حد درجہ مرعوب ہیں اور انسانوں کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں . میں انہیں بتانا چاہتی ہوں.. سقراط جو یونان کا بلے شاہ تھا اور بلے شاہ جو پنجاب کا سقراط تھا دونوں کسی مکتب سے نہیں پڑھے اور نا ہی انہیں کتابوں سے سروکار تھا..
یوتی الحکمتہ من یشاء
اللہ جسے چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے۔قرآن
حکمت کسی مسلم یا سیکولر کی میراث نہیں، جس میں کپیسٹی ہے وہی اس کا حقدار ہے۔
لیکن علم علم اور علم
آپ کے نائی، قصائی کسی علم کے تابع زندگی بسر نہیں کرتے بلکہ انفارمیشن پر گزارہ کرتے ہیں۔ سقراط نے اسی انفارمیشن کا رد کیا تھا۔ زرا تاریخ پڑھ لیجیے، وہ سوفسٹ سے اختلاف پر اتر آیا کہ سوفسٹ انفارمیشن کے فلسفے کے تحت زندگی بسر کرتے تھے۔
مثلا سوفسٹ کہتے تھے، گرم پانی میں ہاتھ ڈالو تو گرم معلوم ہوتا ہے، ٹھنڈے پانی میں ہاتھ رکھو تو ٹھنڈا، لہذا پانی اپنی خاصیت بدل رہا ہے، اس کی حقیقت متبدل ہے۔ ایسے ہی آسمان کا رنگ صبح کو سفید، دوپہر کو بیلا اور شام کو سرمئی، تو آسمان کا رنگ بھی ایک نہیں۔ مگر آپ کی سائنس نے اور فلسفے نے بتایا کہ آسمان کا رنگ نیلا ہے، اور یہ کسی علم کی بنیاد پر ہی بتایا۔
ہر گلی محلے کا منشی کسی فلسفے کے تحت نہیں جی رہا، بلکہ جیسا قرآن نے کہا: عن الھوا
یہ کسی ہوا-یعنی فیشن- کے تحت گزر بسر کرتے ہیں۔