Tuesday 19 January 2016

اردو ہے جس کا نام۔۔۔

0 comments

اردو کے حق میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد دو قسم کے لوگ صدمے کا شکار ہوئے۔ ایک وہ جنہیں انگریزی سے انس ہے۔ یہ طبقہ انگریزی کو جدید علوم کا منبع خیال کرتا ہے اس لیے سمجھتا ہے کہ اردو کا نفاذ ہمارے علمی و تحقیقی معیار کے مزید انحطاط کا باعث بنے گا۔ کسی حد تک ان کی پریشانی بجا ہے کیونکہ بطور سائنس کی طالبہ اور استاد، میں ذاتی طور پر یہ سمجھتی ہوں کہ اردو میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے جدید علوم کو جذب کرنے، لاگو کرنے اور آگے منتقل کرنے کی سکت نہیں۔ ویسے بھی دنیا کا زیادہ تر سائنسی علم انگریزی زبان میں ہے جس تک بذریعہ اردو رسائی شاید ممکن نہیں۔ اس لئے خدشہ ہے کہ کلی طور پر اردو اختیار کرتے ہی ہم سائنسی علوم کے منبع سے محروم ہو جائیں گے۔
اردو کے حق میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر سوگوار ہونے والے دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو علاقائی زبانوں کا دم بھرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے بلکہ ہمیشہ سے مطالبہ رہا ہے کہ صوبائی سطح پر سکولوں، کالجوں اور دفتروں میں صوبائی زبانیں نہ صرف لاگو کی جائیں بلکہ ان کی ترویج کے لیے خصوصی انتظامات ہونے چاہیں۔عرض ہے کہ جب تمام صوبوں کے لوگوں کو آپس میں جوڑنے اور قریب لانے کے لیے ہماری قومی زبان اردو زندہ ہے تو صوبائی زبانوں کی آڑ میں لوگوں کو الگ رکھنا بلکہ ان میں دوریاں پیدا کرنا کہاں کی دانائی ہے؟ لہذا یہ مطالبہ غیر حقیقی معلوم ہوتا ہے۔
زبان و ثقافت کے عروج و زوال اور تنوع کو سمجھنے کے لیے ہم فطری عوامل و مظاہرکا جائزہ لیتے ہیں۔ تاریخ میں جھانکنے پر ہمیں یہ ادراک ہو گا کہ زبان وثقافت کا جو شاندار تنوع ہمیں اس وقت دنیا میں دکھائی دیتا ہے یہ ہمیشہ سے نہیں تھا۔ یہ وقتی ضرویات، بندشوں اور مجبوریوں کی پیداوار ہے۔ زمانہ قدیم میں اکثر خطوں کے لوگ آمدو رفت کے محدود وسائل کی وجہ سے دوسرے خطوں سے تقریباً کٹے ہوئے تھے۔ایسی صورت میں ان خطوں کے افراد نے مقامی آب و ہوا، ضروریات زندگی اور ان ضروریات کی تکمیل کے لیے میسر لوازمات کے تحت رہن سہن اختیار کیا۔ جس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ ہر خطے کی مخصوص ثقافت اور زبان ظہور پذیر ہوئی جو دوسرے علاقوں سے مختلف تھی۔ ایک سادہ سی مثال سے اس کو مزید بہتر انداز سے سمجھتے ہیں۔ اگر ایک وسیع و عریض جھیل کے وسط میں بسنے والے مینڈکوں میں سے چند مینڈک کسی حادثے میں اپنے گروپ سے بچھڑ جائیں اور کسی دلدل میں جا پھنسیں۔ اگر وہاں انہیں آئندہ کئی نسلوں تک زندہ رہنے کا موقع مل جائے تو لمبے عرصے کے بعد وہ بالکل ایک نیا طرز زندگی لے کر ابھریں گے جو ان کے آبائی گروپ سے کسی نا کسی حد تک مختلف ہو گا کیونکہ دلدل کی آب وہوا جھیل سے مختلف تھی اور انہیں بقا کی خاطر مقامی آب و ہوا سے مطابقت پیدا کرنا پڑی جس کے نتیجے میں نہ صرف انکا رنگ اور ہیئت بلکہ عادات و اطوار سمیت افزائش نسل کے طریقے بھی بدل گئے۔ بالکل اسی طرح کے فطری مظاہر ماضی میں انسانی آبادیوں پر بھی اثر انداز ہوئے. انسانوں کی مقامی ماحول سے مطابقت ثقافت کی صورت میں ظاہر ہوئی اور نتیجتاً ایک ہی خطے کے ایک ہی ملک کے ایک ہی صوبے کے مختلف علاقوں میں مختلف ثقافتیں اور مختلف زبانیں ظہور پذیر ہوئیں. یہ وقتی تقاضا تھا اور ناگزیر عمل تھا۔ نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ ثقافت زبان کا منبع ہے اور زبان ثقافت کا واسطہ ہوتی ہے۔ گویا ثقافت اور زبان لازم و ملزوم ہیں اور یہ دونوں ہمارے بیرونی عوامل کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ کسی بھی دیہی علاقے کی زبان کے الفاظ، محاوروں، جملوں اور لوک گیتوں پر پیشہ زراعت کی چھاپ ہوتی ہے۔ شہری علاقوں کی اصطلاحات ان علاقوں کے لوازمات سے اخذ شدہ ہوتی ہیں.
موجودہ عہد اور مستقبل بعید پہ نظر دوڑائیں تو معاملہ ماضی کے برعکس ہوتا دکھائی آتا ہے۔ صدیوں سے الگ خطے جدید اور تیز تر ذرائع آمد ورفت اور مواصلاتی نظام کے ذریعے اب جڑ رہے ہیں۔ دنیا گلوبل ویلج بن گئی۔ جس کسی نے جانے انجانے میں یہ بات کہی، اس نے مستقبل کی درست پیش گوئی کر دی۔ ہم سب مجموعی طور پر ایک عالمی ثقافت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ نیشنل جیوگرافک میگزین کے ایک آرٹیکل کے مطابق ہر چودہ دن میں ایک زبان مر رہی ہے اور اس صدی کے اختتام تک زمین پر بولی جانے والی کل سات ہزار زبانوں میں سے تقریباً نصف صفحہ ہستی سے معدوم ہو جائیں گی۔اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ زبانیں کیوں مر رہی ہیں جب کہ ان کے بولنے والے زندہ سلامت ہیں؟ وجہ عیاں ہے. اقوام عالم یکجا ہونے جا رہی ہیں۔ یکتا عالمی زبان و ثقافت کی طرف ہونے والی فطری پیش قدمی کے حق میں کیا یہ شہادت کافی نہیں؟ اگر نہیں ہے تو اور سنیے۔ علاقائی زبانوں کے حق میں نعرے بلند کرنے والے ہمارے ثقافت کے محافظ جیالوں کو اپنے زیب تن کی ہوئی ٹائی کوٹ اور جینز پہ نظر ثانی کرنی چاہیے اور خود سے سوال کرنا چاہیے کہ یہ لباس ترکی سے لے کر جنوبی ایشیا تک اور امریکہ سے لے کر افریقہ تک سب کا پسندیدہ لباس کیوں بنتا جا رہا ہے؟ انہیں اپنے گھروں سے بلب، اے سی اور فریزر نکال کر لالٹینیں اور گھڑے رکھوانے پہ غور کرنا چاہیے۔سمارٹ فون ترک کرکے دوبارہ کبوتر پالنے چاہئیں۔ یہ مذاق ہے نا طنز۔ صرف یہ باور کروانا مقصود ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کا طرز زندگی تبدیل ہو مگر ثقافت محفوظ رہے؟ یہ بالکل غیر منطقی ہے۔کمپوٹر، لیپ ٹاپ، ٹویٹر، اے سی اور مرسیڈیز جیسی اشیا کو جن کے آپ مزے لوٹتے ہیں اپنی علاقائی زبان میں اپنے بچوں میں کس طرح متعارف کروائیں گے؟ اگر متعارف کروانے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو جب آپ کسی کام کے لیے یا روزگار کے لیے اپنے ہی ملک کے کسی دوسرے صوبے کی طرف ہجرت کریں گے تو کیا عالم ہو گا۔ کیا یہ ہمارے ان بچوں پہ ظلم نہیں جنہیں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پچیدہ قسم کے علوم بھی جذب کرنے ہیں، قومی و بین الاقوامی سطح پر اپنا سکہ بھی جمانا ہے۔ جمود توڑ کر آگے بھی بڑھنا ہے اور ہم ہیں کہ ان کے گلے میں علاقائی زبانوں کا طوق ڈال کر انہیں ہجوں، تلفظ کی ادائیگی اور لغت میں ہی الجھائے رکھنے پہ مصر ہیں۔ وہ کیا سیکھ پائیں گے۔جو سیکھیں گے اس کا معیار کیا ہوگا۔ حقیقی دنیا میں اس کے اطلاق کی نوعیت کیا ہوگی۔ وہ ہماری نسلوں کو پیچھے لے جائے گا یا آگے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر ہمارے زبان دانوں اور دانشوروں کو اپنے مفروضات کی بنیاد رکھ کر اپنے مقدمات پیش کرنے چائیں۔
اس سارے منظر نامے کے بعد اگر اردو کی ترویج کا سوال رکھا جائے تو سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرنا ہی بہتر حکمت عملی ہے۔ کیونکہ یہ زبان ہمیں ایک قومی دھارے میں لانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ اب ہم صوبے یا علاقے بن کر بہتر زندگی کی طرف پیش قدمی نہیں کر سکتے۔ یہ دور حاضر کے تقاضوں کے منافی ہے۔ باقی اقوام کی طرح ہمیں بھی لوگوں کے مختلف گروہوں سے ایک معقول قوم کی صورت میں ڈھلنے کی ضرورت ہے جہاں سے ہم عالمی ثقافت کی طرف خوش اسلوبی سے گامزن ہو سکیں گے۔ اردو کو بطور قومی زبان اور انگریزی کو بطور عالمی زبان اپنانے میں ہی حکمت ہے۔ جن مفکروں کو اردو کی عدم بلوغت کے بارے میں تحفظات ہیں وہ بجا ہیں۔ اردو کی عمر کم ہے۔لغت میں جدت اور تنوع کی کمی ہے۔ رسم الخط کی پچیدگی کا مسئلہ ہے۔ مگر چند ٹھوس اقدامات کے ذریعے ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ابھی ہمیں اس بات پہ فخر محسوس کرنا چاہیے کہ ہماری قومی زبان دنیا کی پانچویں بڑی زبان ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔