Tuesday 17 February 2015

محبت نما

1 comments


میں نے فرسٹ ائیرمیں ایڈمشن کے بعد سے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفرشروع کر دیا تھا۔۔مجھے پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔مگر میں یہ شوق اس طرح پورا کرنا چاہتی تھی کہ میرے والد پر کم سے کم معاشی بوجھ بنے اسلیے ابو کے اصرار کے باوجود ہاسٹل میں رہنے کی بجائے میں نے بسوں میں لٹکنے کو ترجیح دی۔۔

جب میں پہلے دن سفر پہ نکلی تھی تو باجی نے سمجھایا تھا۔۔ کڑوے کسیلے لہجے والے مرد پر بھلے اعتماد کر لینا مگر میٹھے لہجے والوں اور ہمدردیاں جتانے والوں سے چوکنّی رہنا۔ یہ وہ دور تھا جب میرے پیشِ نظر تعلیم کے سوا کچھ بھی اہم نہیں تھا لہزا میں نے اس بات کو پلو سے باندھا اور شروع دن سے محتاط رویہ اپنایا۔۔کبھی کسی سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی ۔۔ اور اگر کسی خود کوشش کی تو ایک خشک جملے میں رسپانس دے کر ہری جھنڈی دکھا دی۔ ۔۔اگرچہ بظاہر کھردرے لہجے اور چہرے پہ سختی طاری کیے رکھتی مگر دل میں انجانے خوف کے سانپ کنڈلی مار کے بیٹھے رہتے۔۔ گرتے پڑتے ،مشقت کرتے سفر جاری رہا۔۔شروع شروع میں تنگ کرنے والوں نے تنگ بھی کیا۔۔ کچھ لوگوں نے منہ کی کھائی۔۔پھر آہستہ آہستہ سب میری موجودگی کے عادی ہو گئے اور میں ان کی موجودگی کی عادی ہوتی چلی گئی۔۔ حتیٰ کے بس کے کنڈکٹر بھی میرے سٹاپ کے پوائینٹس پہچاننے لگے۔۔

پھر اچانک وہ نمودار ہوا۔ شائید وہ سالوں سے میرا ہمسفر تھا مگر میں نے تھرڈ ائیر تک بھیڑ میں کبھی اسکی موجودگی نوٹ نہیں کی تھی۔۔ ایک دن صبح جب میں نے بھاگ کر چھوٹتی بس پکڑی تو حسبِ معمول رش دیکھ کر دل گھبرانے لگا۔ صبح کے وقت بس سکولز، کالجز ، فیکٹریوں اور دفاتر جانے والے افراد سے کچھا کھچ بھری ہوتی۔۔مگر کسی نا کسی طرح میری سیٹ کا انتظام ہو ہی جاتا۔ لیکن جب تک انتظام نا ہوتا میرے بدن کا رواں رواں بھیڑ میں سے ہونے والی کسی الٹی سیدھی حرکت کی فوری نشاندہی کے لیے چھٹی حس میں تبدیل ہو جاتا۔۔۔اس دن بھی میں دھڑکتے دل کے ساتھ سیٹ مل جانے کی دعائیں کر رہی تھی کہ اچانک بس کے پچھلے حصے سےسفید لٹھے کے سوٹ میں ملبوس ایک چمکتا سراپا لوگوں کوپرے دھکیلتا آیا اور مجھے پیچھے جانے کا اشارہ کیا۔میں نے سیٹ پر پہنچ کر اسکی طرف دیکھا۔۔وہ بالکل بے نیاز کھڑا تھا۔۔میرے لیے سیٹ چھوڑنے والا وہ کوئی پہلا آدمی نہیں تھا اور نا ہی یہ فعل انوکھا تھا۔کیونکہ دیہی علاقوں میں خواتین کے احترام میں سیٹ کا بندوبست کرنا عام بات ہے۔

مگر اسکے انداز میں کچھ ایسا ضرور تھا کہ میں ٹھٹھک گئی۔۔میں نے چپکے سے اسکا جائزہ لیا۔۔ وہ پینتیس سے چالیس کے درمیان عمر کا معلوم ہوتا تھا۔ متناسب جسامت اور روشن آنکھوں کے ساتھ وہ بہت نفیس نظر آتا۔ پھر ایسا اکثر ہونے لگا۔ اگر وہ بس میں موجود ہوتا تومجھے اسکی آنکھیں اپنا پیچھا کرتی محسوس ہوتیں۔۔ وہ مجھ پہ نظر رکھتا۔۔ کسی لڑکے کو یا آدمی کو میری سیٹ کے پاس کھڑے تک نا ہونے دیتا۔ ۔۔۔ میرے بس میں سوار ہوتے ہی یا تو وہ خود سیٹ چھوڑ دیتا یا کسی لڑکے کو ااٹھا دیتا۔ شائید وہ ایسا عرصے سے کر رہا تھا مگر میں نے محسوس اب کرنا شروع کیا تھا۔۔یا وہ ایسا کچھ بھی نہیں کر رہا تھا مگر میں محسوس کرنے لگی تھی۔۔ ادھر میں مختلف زاویوں سے اس کے بارے میں سوچنے لگی۔۔ چھیچھورا انکل! مجھے امپریس کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔۔دیکھنا ایک دن اسکی اصلیت کھل کے سامنے آ جائے گی جب اس نے خود کوئی حرکت کی۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔ مگر یہ بھی سچ تھا کہ میں بغیر کسی مقصد کے اس کی موجودگی کی خواہش کرنے لگی تھی۔ بس میں سوار ہوتے ہی میری نگاہیں اسکو ڈھونڈھنے لگتیں ۔جیسے ہی وہ دکھائی دیتا مجھے خوشگوار احساسات گھیر لیتے۔

 کبھی کبھی اتفاقا ہم ایک ہی سٹاپ پہ اترتے ۔۔فٹ پاتھ پر چند گز کا فاصلہ رکھتے بظاہر لاتعلق بنے آگے پیچھے چلتے ہوئے اپنی اپنی منزل کی طرف گامزن ۔۔ مجھے اسکی طرف سے خدشہ رہتا ۔ یہ کسی دن بات کرے گا۔۔ کسی بہانے سے رک کے مڑے گا اور کچھ کہے گا۔۔ شائید یہ پوچھے گا کہ کس کالج پڑھنے جاتی ہو؟ یا یہ پوچھے گا کہ کس کی بیٹی ہو؟ یا یہ کہ تمھارا نام کیا ہے؟ یا یہ کہے گا کہ سنو ۔۔ تم اچھی لڑکی ہو اس لیے میں تمھارا خیال رکھتا ہوں۔۔ یا شائید سیدھا سیدھا فون نمبر مانگ لے گا۔یا فون نمبر لکھر کر میری طرف پھینکے گا۔ ایسی کئی باتیں میرے ذہن میں گردش کرتی رہتیں۔ لیکن اسکی نوبت نا آئی اور سب کچھ نارمل ہی رہا ۔

  مہینوں یہ معمول چلتا رہا میں بس میں سوار ہوتی۔۔ چپکے چپکے اسکو ڈھونڈتی۔۔وہ مجھے بیٹھا دکھائی دیتا میرا دل فرحت سے بھر جاتا۔۔میں خود کو ریلیکس فیل کرنے لگتی۔وہ یا تو خود میرے لیے سیٹ خالی کرتا یا کسی سے کروا دیتا۔۔ مگر اس کے بعد وہ مکمل طور پر مجھ سے لاتعلق ہو جاتا۔۔ لاتعلق ایسے کہ میں نے کبھی اسے اپنی طرف دیکھتے نہیں پایا۔۔ کتنی عجیب بات تھی۔۔۔ کبھی کبھی وہ کالج سے واپسی پہ بھی موجود ہوتا۔۔ میں نے بہانے سے ابو سے اس کے بارے پوچھ گچھ کی تو پتا چلا کہ وہ میرے گاؤں کا ہے اور غیر شادی شدہ ہے۔ مجھے وہ مزید اچھا لگنے لگا۔


ایک دن یوں ہوا کہ میں کالج سے واپس آرہی تھی۔۔ میں بس کے پچھلے حصے میں کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھی ۔۔ بس میں حسبِ معمول رش تھا۔کھینچا تانی جاری تھی ۔میں کبھی لوگوں کی حالت سے لطف اندوز ہونے لگتی اور کبھی کھڑکی سے باہر جھانکنے لگی کہ اچانک لمحے کے ہزارویں حصے میں میں نے اپنی پشت پر ناخشگوار حرکت محسوس کی۔۔ مڑ کر دیکھا تو سیٹ کی سائیڈ سے ایک ہاتھ غیر محسوس طریقے سے آگے بڑھ رہا تھا۔میں نے گردن اٹھا کر تیور چڑھاتے ہوئے اس خبیث کو آنکھوں ہی آنکھوں میں پیغام دیا کہ جو تم کرنا چاہ رہے ہو میں اس سے اچھی طرح باخبر ہوں اس لیے باز رہو۔۔ مگر ہر چند لمحے بعد اسکی طرف سے دست درازی کی کوشش جاری رہی۔۔کوئی چوتھی مرتبہ میں نے اٹھ کر اسے تھپڑ جڑ دیا اور اونچی آواز میں اسے کوسنے لگی جس پہ وہ بجائے شرمندہ ہونے کے مجھ سے الجھ پڑا کہ میں نے تو کچھ کیا ہی نہیں۔۔

لوگوں نے گردن گھما کر اسے گھور کر دیکھا۔ میں بھی سیدھی ہو کر بیٹھ گئ۔۔ تھپڑ نے اپنا اثر دکھایا اور سفر کا باقی ایک گھنٹہ سکون سے گزرا۔ ۔ بس نے میرے گاؤں کی طرف جانے والا موڑ کاٹا۔۔۔۔ میرا گاؤں بس کا دوسرا آخری سٹاپ تھا۔۔ اسلیے اب بس میں اکا دکا لوگ رہ گئے تھے۔ ۔۔فرنٹ سیٹ سے وہ اٹھا،۔۔بس رکوائی۔۔ میرے سے پچھلی سیٹ پر پہنچا ۔۔اس آدمی کو گریبان سے گھسیٹتا ہوا نیچے لے گیا۔۔اور اسکی دھلائی شروع کر دی۔۔ کوئی دس منٹ بعد اس آدمی کو زودوکوب حالت میں لا کر دوبارہ اسی سیٹ پر پھینکا اور واپس اپنی نشت پر چلا گیا۔۔میں خوف زدہ ہو گئی۔۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔ اتنے میں میرا سٹاپ آگیا اور میں اتر کر گھر چلی گئی۔۔ اسکو کیسے پتا چلا کہ میرے ساتھ پیچھے یہ واقعہ پیش آیا؟ یہ تو بس کے اگلے حصے میں فرنٹ سیٹ پر تھا جبکہ میں بالکل پچھلے حصے میں۔۔ اور۔۔۔اور۔۔۔۔ اور اس کو کیا ضرورت تھی اسکی دھلائی کرنے کی۔۔۔ انجانے خوشگوار احساسات زور پکڑنے لگے۔۔

جمعے کو فیکٹریوں میں تعطیل کی وجہ سے بس میں آسانی سے سیٹ دستیاب ہوتی۔۔اس دن صبح کالج جاتے سمے میرے ساتھ والی نشت خالی تھی۔۔ ایک شوخ سا لڑکا سوار ہوا تو خالی سیٹ دیکھ کر میرے ساتھ آبیٹھا۔۔ شائید دو منٹس ہی گزرے تھے کہ وہ پیچھے سے اٹھ کر آیا اور اس لڑکے کو اٹھا کر خود بیٹھ گیا۔۔ یا خدا! میرا کلیجہ حلق میں آگیا۔۔ آج تو کچھ ہو کہ ہی رہے گا۔۔ میں بظاہر رخ دوسری طرف کیے بیٹھی تھی مگر میرا دھیان اسکی حرکات و سکنات پر تھا۔۔ میں نے کن اکھیوں سے اسکا جائزہ لیا۔ وہی معمول کی بدامی یا سفید رنگ کی اجلی شلوار قمیض اور تلّے والا کھسہ ۔۔ وہ باہر کی طرف ٹیڑھا ہو کراس طرح بیٹھا تھا کہ اس کے وجود کا کوئی حصہ مجھ سے مَس نہیں ہو رہا تھا۔۔ یہ اب کوئی حرکت کرے گا۔۔ اب کرے گا۔۔۔۔ اب تو کر ہی ڈالے گا۔۔ اور کچھ نہیں تو منہ موڑ کر کچھ نا کچھ بولے گا ضرور۔۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا میری بے چینی بڑھتی رہی۔

پورا ایک گھنٹہ گزر گیا مگر کچھ بھی نہیں ہوا۔۔ اسکا سٹاپ آیا اور وہ خاموشی سے اتر گیا۔۔

پھر رفتہ رفتہ میری کنفیوزن دور ہوتی گئی۔۔ میں اسکو سمجھ گئی۔۔اس کو سمجھ گئی تو مطمئین ہو گئی۔۔اور ہم اسی طرح رہنے لگے۔۔

 اسکا میرا تعلق یہی تھا۔ یہ بہت خوبصورت تعلق تھا۔۔ جس میں الفاظ بے معنی تھے۔۔ عہد و پیمان کے ادوار غیر ضروری تھے۔ محبت کی گزارشات بے مقصد تھی۔۔اسکی طرف سے توجہ، عزت اور محبت کا پیغام اتنا بھرپور اور واضح تھا جبکہ میں پگلی مکالمے تلاش کر رہی تھی۔ ۔۔۔۔

تحریر: مونا بی

1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔