Monday 30 November 2015

دوہرا معیار

0 comments

دہرا معیار

دفتر کی سیڑھیاں اترتے ہوئے پارکنگ لاٹ میں کھڑی اپنی گاڑی تک پہنچتے پہنچتے کمال پسینے میں شرابور ہو چکا تھا ، گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے  گاڑی اسٹارٹ کی.. ''اے سی'' آن کر دیا اور ڈیش بورڈ میں پڑے تولیے سے چہرہ صاف کرنے لگا۔ ''اُف کتنی گرمی ہے!'' اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ گو کہ آفس مکمل طور پر ایئر کنڈیشنڈ تھا مگر مین بلڈنگ سے پارکنگ تک پھیلی اوائل جولائی کی کڑاکے دار دھوپ حواس باختہ کرنے کیلئے کافی تھی۔ اس نے کلائی موڑ کر گھڑی پر وقت دیکھا۔ شام کے چار بج رہے تھے اس نے گاڑی ریورس گئیر میں ڈالتے ہوئے موڑی اور قریبی مارکیٹ کی طرف بڑھا دی۔ اُسے اپنی پانچ سالہ اکلوتی بیٹی کیلئے ٹیڈی بیئر لینا تھا ۔ اسکی چہیتی بیوی کوئی تین دفعہ فون کرکے اسے یاد دہانی کروا چکی تھی کہ اُفق سکول سے آتے ہی ٹیڈی بیئر لینے کیلئے بضد ہے جیسا اس نے اپنے دوست کے پاس دیکھا تھا ۔ ۔ ۔ دونوں میاں بیوی اپنی بیٹی سے بے حد محبت کرتے تھے اور ہمیشہ بہترین والدین کی فہرست میں شامل ہونے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔
آج وہ دو گھنٹے پہلے ہی آفس سے نکل آیا تھا۔ فرم کے مینجر سے اس کے پیشہ وارانہ اختلافات عروج پر تھے اور اسکا آفس میں بیٹھنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ ''میں گھر کیلئے نکل رہا ہوں'' اس نے اپنی بیوی کو میسج کیا۔ قریبی مارکیٹ سے گھر کیلئے سامان خریدنے کے بعد وہ کھلونوں کی ایک شاپ میں جا گھسا۔ اس نے بے بی پنک کا نہایت خوبصورت اور نفیس ٹیڈی بیئر پسند کیا، ٹیگ پر لگی قیمت دیکھی، کاؤنٹرپر ادائیگی کی اور واپسی کیلئے گاڑی موڑ دی۔ اسے عجیب سے جھنجھلاہٹ ہو رہی تھی،
شاید موسم کا اثر تھا ویسے بھی گرمی اس سے برداشت نہیں ہوتی تھی یہی وجہ تھی کہ وہ اتنی سی خواری سے ہی تنگ آگیا۔ علاقہ کے اس ٹوٹے پھوٹے سے چوک سے گزرتے ہوئے وہ کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا۔ اسے آموں کی تلاش کی تھی۔ وہ فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ گاڑی چلاتے ہوئے چوک کے موڑ پر کھڑی لاتعداد ریڑھیوں کا جائزہ لینے لگا جو خوشنما پھلوں سے لدی ہوئی تھیں۔ جن میں آم کا پیلا پیلا رنگ اور مخصوس خوشبو نمایاں تھی۔ اسے آم بے حد پسند تھے وہ مارکیٹ سے پھل خریدنے کی بجائے ہمیشہ ریڑھیوں اور ٹھیلوں سے خریدنے کو ترجیح دیتا تھا کیونکہ اس کے خیال میں ادھر پھل نسبتاً تازہ اور سستا ملتا تھا۔ ریڑھیوں کا جائزہ لیتے ہوئے اس نے بریک لگائے۔ آموں کی وہ ریڑھی جس پر اسکی نظر تھی فٹ پاتھ سے تھوڑا پیچھے کھڑی تھی۔ گاڑی کو رکتے دیکھ کر ریڑھی کے مالک کا لڑکا پھرتی سے گاڑی کی طرف لپکا۔
''جی صاحب جی'' لڑکے نے پیشہ وارانہ انداز میں کمال کو مخاطب کیا ۔ گاڑی کا شیشہ نیچے کرکے کمال نے لڑکے کا جائزہ لیا۔ میلے کچیلے کپڑوں میں سے پسینے کی بدبو کے بھبھوکے اُٹھ رہے تھے اور چمکتی ہوئی دھوپ اسکی رنگت سیاہ کر رہی تھی۔
کندھے پر لٹکتے جھاڑن سے وہ بار بار اپنا پسینہ صاف کر رہا تھا۔ ناگوار بو کمال کے نتھنوں سے ٹکرائی تو اسکے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ ''کیا ریٹ ہے؟'' اس نے کرخت لہجے میں پوچھا۔ ''صاحب آم بڑے اچھے ہیں، پورے روڈ پر اس سے بہتر آم آپ کو نہیں ملینگے۔ ابھی گھنٹہ پہلے مال اترا ہے''یہ بتاتے ہوئے لڑکے کی باچھیں کھل رہی تھیں اس کے پیلے دانت اس کے چہرے کے مقابلے میں قدرے نمایاں تھے۔
''میں نے ریٹ پوچھا ہے'' کمال نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔''ایک سو چالیس روپے کلو صاحب!'' لڑکے نے دور سے اپنے باپ سے پوچھتے ہوئے جواب دیا تو کمال خاموشی سے آموں کا جائزہ لینے لگا۔ شہتوت کے چھوٹے سے درخت کے نیچے کھڑی ریڑھی پر دھوپ چھن چھن کر پڑ رہی تھی۔ ریڑھی والا پانی چھڑک چھڑک کر پھل کو تازہ رکھنے کی کوشش میں مصروف تھا۔
''یہ ریٹ آموں کے لگائے ہیں یا پانی کے؟'' اس نے طنزیہ لہجے میں استفسار کیا۔
''صاحب گرمی بہت ہے، یہ تو کرنا پڑتا ہے، ویسے بھی آم ہیں کوئی گوشت تھوڑی ہیں کہ پانی لگنے سے وزن بڑھ جائے گا!'' لڑکا شاطر تھا اور کمال کو لاجواب کر گیا۔ ''اسی روپے لگاؤ اور پانچ کلو تول دو'' کمال نے بغیر کسی کھسیاہٹ کے کہا۔
''نہیں صاحب! اتنا فرق نہیں ہوتا، اتنے کی تو اپنی خرید بھی نہیں ہے'' لڑکا ٹرینڈ تھا
''اوکے سو روپے کافی ہیں؟'' کمال نے بھاؤ بڑھائے ہوئے کہا''نہیں صاحب!'' لڑکا پچیھے ہٹ گیا ''ایک سو بیس سے ایک پیسہ بھی کم نہیں لوں گا'' لڑکے کا اپنے مال کی قدر کا اندازہ تھا اسی لیے اس نے دوٹوک لہجہ اپنایا۔ کمال کو لڑکے پر غصہ آرہا تھا لیکن اس نے بھانپ لیا کہ ایسا پھل اسے کسی اور ریڑھی سے نہیں ملنے والا۔ لہذا اس نے مزید بارگیننگ سے اکتاتے ہوئے لڑکے کو پھل تولنے کو کہا۔ لڑکے نے وہیں سے اپنے باپ کو پانچ کلو تولنے کا اشارہ کیا۔ کمال جیب سے پیسے نکالنے لگا۔
پھل لیکر گاڑی کی طرف آتے ہوئے لڑکے کا پاؤں اچانک کسی چیز سے ٹکرایا اور اسکے کندھے پر پڑی ہوئی جھاڑن کے چھوٹے سے چوبی دستے نے نجانے کیسے کھڑکی پر لمبا سا نشان چھوڑ دیا۔''ایڈیٹ!!'' کمال غصے سے آگ بگولا ہوکر چلایا۔ اس نے تیزی سے سیٹ چھوڑی اور پھرتی سے باہر نکل کر لڑکے کو گردن سے ڈبوچ لیا۔ ''غلطی ہو گئی صاحب'' اس کے بگڑے ہوئے تیور دیکھ کر لڑکا سہم گیا۔ حالات کی سختی نے اس کی معصومیت چھین لی تھی۔ مگر اسکی عمر بارہ سال سے زیادہ نہیں لگ رہی تھی۔ ''الو کے پٹھے! اسے غلطی کہتے ہو؟ اتنا نقصان کر دیا میرا'' کمال نے لڑکے کو تھپڑ رسید کر دیا۔ اتنے میں لوگوں کا مجمع لگ گیا۔ لڑکا زمین بکھرے آموں کے درمیان گرنے کے انداز میں بیٹھا ہوا تھا۔ اسکا باپ ملتجی لہجے میں معافی مانگ رہا تھا۔ سب لوگ اپنے اپنے طریقے سے اسکا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ آخر کار غصے کے اثرات معدوم ہونے لگے۔
''ٹھیک ہے! ٹھیک ہے!'' اس نے تیز تیز لہجے میں کہتے ہوئے احسان جتایا کیونکہ اس کا فون بج رہا تھا اور سکرین پر اسی بیوی کا نام جگمگا رہا تھا۔ اس نے واپس گاڑی میں بیٹھے ہوئے فون ریسیو کیا۔
''آپ آئے کیوں نہیں ابھی تک؟''فون اٹھاتے ہی اسکی بیوی نے پوچھا۔
''میں آرہا ہوں بھئی، راستہ میں ہوں'' اس نے اپنی آواز ہموار کرتے ہوئے بیوی کو جواب دیا اور فون بند کر دیا۔ گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے اس نے اچٹتی سی نظر باہر کے منظر پر ڈالی۔ لڑکے کا باپ لڑکے کو لعن طعن کر رہا تھا جبکہ لڑکا زمین پر بکھرے آم اکھٹے کرکے واپس شاپر میں ڈال رہا تھا۔ اس نے گاڑی کی رفتار بڑھاتے ہوئے انگلش میوزک آن کیا اور گنگنانے لگا۔ اسکی جھنجھلاہٹ ختم ہو رہی تھی۔ گھر تک پہنچتے اس کے چہرے پر مسکراہٹ چمکنے لگی۔ اس مسکراہٹ کی وجہ بھی گھر کا گیٹ کھلتے ہی سامنے آگئی۔ اسکی معصوم پھول جیسی بیٹی گرین ٹی شرٹ اور جینز پہنے ہارن کی آواز سن کر بھاگی آرہی تھی۔
''پاپا آگئے!!'' گاڑی سے اترتے ہی وہ اسکی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔''میرا بچہ!! اس نے لاڈ سے اسے گود میں اٹھالیا۔ ''پاپا میلا تیدی بیئل کہاں ہے؟'' گیٹ سے روم تک پہنچتے ننھی افق اس سے دس مرتبہ یہ سوال کر چکی تھی۔''پاپا کے شیر سب کچھ لایا ہوں'۔ کمال نے افق نے نتھے ننھے ہاتھ چومتے ہوئے جواب دیا۔
''آپ کو پتہ ہے آپ کی لاڈلی بیٹی نے آج کیا کیا؟ بیوی اسکا کوٹ اتارتے ہوئے بولی۔ اس نے دریافت کیا تو بیوی نے سامنے دیورا کی طرف اشارہ کردیا۔ ایئر کنڈیشنر کے درجہ حرارت کو مزید کم کرتے ہوئے کمال نے دیوار پر نگاہ ڈالی۔ اسکی
شادی کی بڑی سی تصویر دیوار پر ٹیڑھی لٹک رہی تھی اور اسکی بیوی والی سائیڈ پر شیشے میں مکڑی کے جالے کی شبیہ ابھر آئی تھی۔ وہیں ذرا نیچے فرش پر ایک گیند پڑی ساری کہانی بیان کر رہی تھی۔ صوفے پر ڈھیر ہوتے ہوئے اس نے افق کو دیکھا اب ٹی وی کا ریمورٹ کنٹرول ہاتھ میں پکڑے کارٹون دیکھ رہی تھی۔
''جانے دیا کرو بیگم، وہ بچی ہے، فریم اور آجائے گا'' اس نے نرم لہجے میں بیوی کو سمجھاتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔