Sunday, 22 November 2015

شکار

5 comments

بوڑھا نذیر احمد دم سادھے چھت کی چار دیواری پہ بنے سوراخوں سے نیچے جھانک رہا تھا. اس کی نظریں سامنے سرمئی رنگ کے چھوٹے سے گیٹ پر مرکوز تھیں. جہاں ہر قسم کی جنبش ندارد تھی. کافی دیر انتظار کرنے کے بعد جب اسے سرمئی گیٹ پر اپنی دلچسپی کا سامان دکھائی نا دیا تو وہ ایک موٹی گالی دیتے ہوئے پیچھے مڑ کر چارپائی پر جا بیٹھا اور بجھتی ہوئی چلم کی نیم گرم راکھ انگلیوں سے کرید کر حقہ گڑگڑانے لگا. رات کے دو بج رہے تھے. قمری مہینے کا آخری عشرہ تھا.. چاند کی دودھیا روشنی شہتوت کے  پیڑ کے گھنے پتوں میں سے چھن چھن کر اس تک پہنچ رہی تھی۔ جس کی وجہ سے  اسکا سانولا چہرہ اس تانبے کے ٹکڑے کی طرح چمک رہا تھا جسکی سطح پر بڑے بڑے سیاہ دھبے پڑ گئے تھے۔ ‘آج یکا لیٹ کیوں ہے’۔۔ وہ منہ  میں بڑبڑایا۔۔ اچانک گلی میں ذرہ سی آہٹ ہوئی۔ نذیر احمد اس آہٹ سے اچھی طرح واقف تھا۔ وہ دیوار کی جانب لپکا اور چوکور سوراخ میں سے جھانکنے لگا۔ حسب توقع وہاں وہی منظر تھا جس کا وہ پچھلے دو ماہ سے مشاہدہ کر رہا تھا۔ ایک سایا دیوار کی چھاؤں میں چلتا ہوا سرمئی گیٹ کے سامنے آکر رکا اور موبائل کی سکرین پر جھک گیا۔ اگلے ہی لمحے گیٹ کھلا ، سائے نے آخری بار احتیاط ادھر ادھر نگاہ دوڑائی اور غائب ہو گیا ۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کی پشت پر بنے مکان کی چھت پر نذیر احمد مسلسل دو ماہ سے اسکا رازدار بنا ہوا ہے۔ گیٹ دوبارہ ابدی سکوت میں جا چکا تھا۔ منظر ختم ہو چکا تھا مگر نذیر احمد کے بدن میں سوئیاں چبھ رہی تھیں۔ وہ کافی دیر سوراخ سے آنکھ ٹکائے بیٹھا رہا جیسے گیٹ کے اس پار جھاکنے کی کوشش میں ہو۔ ہیجان سے اسکے خون کا خلفشار بڑھنے لگا اوروہ  چارپائی پر گر کر لمبی لمبی آہیں بھرنے لگا جیسے اپنے اندر کی حبس کو سانس کے ذریعے خارج کرنے کی سعی کر رہا ہو۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور سرمئی گیٹ میں جا گھسا۔ جس کے سامنے بنے تین کمروں میں سے دو میں زیرو پاور کے بلب روشن تھے۔ لیکن اسے ان کمروں سے غرض نہیں تھی۔ اسکی دلچسپی تیسرا کمرہ تھی جہاں گھسر پھسر ہو رہی تھی۔ ایسی سرگوشیاں اور آہیں۔ اور دبی ہوئی ہنسی جسے اس کے سوا کوئی نہیں سن سکتا تھا۔ اندھیرا ہونے کے باوجود اندر کا منظر اتنا روح پرور تھا کہ اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔سانسیں آندھی کی شکل شدت اختیار گئیں۔ اسکا ہاتھ تیزی سے حرکت کرنے لگا اور ایک لمبی کراہ کے ساتھ ہی اس کے ارد گرد خاموشی چھا گئی۔ البتہ گلی میں دو کتوں نے بھونکنا شروع کر دیا تھا جو اس بات کی علامت تھی کہ سایہ سرمئی گیٹ چھوڑ کر جا رہا ہے۔ نذیر احمد نے آنکھیں کھول دیں۔ اسکا بدن پسینے میں شرابور تھا۔ اتنے لمبے رات جگے سے اسکی آنکھوں میں جلن شروع ہو گئی تھی۔ پپوٹے بوجھ کی وجہ سے بار بار آنکھوں پر گر رہے تھے۔ سامنے چاند اپنی آخری منزل طے کرتے ہوئے اسے چہرے پر آ جھکا تھا۔ اس نے آخری دفعہ چاند کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن نگاہ اٹھانے سے پہلے ہی وہ گہری نیند میں چلا گیا۔

وہ صبح دیر تک سوتا رہا۔۔ منڈیر پر بیٹھے کالے کووں کی کائیں کائیں اور شہتوت کے پیڑ کی سر سبز شاخوں پر پھدکتی چڑیایوں کی چوں چوں اسے اٹھانے میں ناکام رہی۔ چاند کی دھیمی تھپتھپاتی روشنی کی جگہ اب سورج کی تیز تمازت نے لے لی تھی۔ یہ تمازت نذیر احمد کا جسم جلانے لگی تو اسے اٹھنا پڑا۔اس نے اٹھ کر درخت کی نرم شاخ کو کھینچ کر مسواک بنائی۔ اور دانت چمکاتے ہوئے گلی میں دیکھنے لگا۔ گلی میں زندگی اپنے عروج پر تھی۔ لوگ آ جا رہے تھے۔ بچے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ کچھ اشیا خوردونوش بیچنے والے ٹھیلے کے گرد جمع تھے جو ہر پانچ منٹس کے وقفے کے بعد اپنی مخصوص لے میں آواز لگاتا۔ سرمئی گیٹ اب نیم واہ تھا۔ بدامی شلوار قیمض پہنے ایک لحیم شیم ادھیڑ عمرشخص سکوٹر پر گیٹ میں سے برآمد ہوا۔ ماں کا ۔۔۔۔ نذیر نے حقارت سے زیر لب موٹی گالی دی۔ کھوتے کے پتر کو پتا ہی نہیں کہ اس کے گھر میں کیا گل کھلائے جا رہے ہیں۔

چاہیے تو یہ تھا نذیر احمد خاموش تماشائی بنا رہتا۔ وہ خاموشی سے منظر کا مزہ لیتا اور غیر جانبداری سے اسکے اختتام  کا انتظار کرتا۔ اس میں اس کا بھی فائدہ تھا  اور اس سرمئی گیٹ کے مکینوں کا بھی مگر اب اسکی زبان پر کھجلی ہونے لگی تھی۔ اپنی دانست میں اس نے دو ماہ چپ رہ کر بہت دریا دلی دیکھائی تھی۔ اب  اسکا ظرف ابلنے لگا تھا۔ اپنی بیوی کی وفات کے بعد جس شے سے وہ پچھلے دس سالوں سے محروم تھا اس کی ناک کے نیچے وہ کل کے چھتونگڑوں کو میسر تھی۔ اسے بے چینی ہوتی تھی۔  بے خوابی اور جسمانی کمزوری نے اسے نقاہت اور اعصابی تناؤ میں مبتلا کر دیا تھا۔ اسکی صحت گرنے لگی تھی۔ اگرچہ وہ چوک میں جا کر دودھی دہی ڈکارتا تھا اور ناصر سبزی فروش سے درجن بھر کیلے لے کر کھاتا تھا پھر بھی اسکی صحت اب اسکا ساتھ دینے سے قاصر تھی۔ لہذا حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اور محلے کے پرانگدہ ہوتے ماحول کی صفائی ستھرائی کی خاطر وہ بذات خود اس سیرئیل کا ڈراپ سیین کرنے کے بارے میں پرتولنے لگا۔ پہلے مرحلے میں اس نے ناصر کو اپنا رازدان بنانے کا فیصلہ کیا۔ اسکے ساتھ اسکی کافی بے تکلفی تھی۔ وہ دوکان پر پہنچا تو وہاں رش لگا ہوا تھا۔ وہ کرسی پر بیٹھا اور  سست روی سے پھل کھاتے ہوئے ناصر کا اسکے گاہکوں کے ساتھ لین دین  کا بغور مشاہدہ کرنے لگا۔ اس نے ناصر سے نظر بچا کر کئی چھلکے سبزی کی ٹوکری کی آڑ میں پھینک دیے جہاں گاہک کھڑے تھے۔ تو کس چکر میں آجکل طاقت بنا رہا ہے۔ بیوی کی قبر پر جانے لگا ہے کیا؟؟ ناصر نے کیلے کے چھلکے گنے اور اس سے پیسے وصولتے ہوئے آنکھ ماری۔۔۔ اس کی تو ہڈیاں بھی نہیں بچی ہوں گی۔ اس کی قبر پہ جا کر کیا کروں گا۔ ۔ اس نے ڈھٹائی سے دانت نکالتے ہوئے جیب میں بقایا پیسے ڈالے ۔ یہاں اپنے محلے میں رنگین فلم لگی ہوئی ہے۔ اس کے چیزے لیتا ہوں ۔ اس نے جوابنا آنکھ جھپکائی۔ تیری ایسی قسمت۔۔ چل پھوٹ ادھر سے۔۔ ناصر اب اپنے دوسرے گاہک کی طرف متوجہ تھا۔ وہ پیر گھسیٹتا وہاں سے نکل آیا۔


اسے گھر میں کوئی کام نہیں تھا۔ اسکی بہویں اسے منہ کم لگاتی تھیں۔ اسے دیکھتے ہی ان کے ماتھے پر بل پڑ جاتے۔ وہ کافی دیر ادھر ادھر بے مقصد گھومتا رہا۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ بازار میں عورتیں زیادہ نظر آ رہی تھیں۔ کوئی اپنے بچوں کو ٹیوشن چھوڑنے جا رہی تھی۔ کوئی سبزی والے سے بھاؤ تاؤ کر رہی تھی۔ کوئی سودا سلف لینے نکلی تھی اور کوئی اس کی طرح ہمسائیوں کی کن سوئیاں لینے نکلی تھی۔ اس معاملے میں نذیر احمد کی معلومات کمال کی تھیں۔ بنا کبھی ہمکلام ہوئے اسے معلوم ہوتا کہ کون کس کی بیوی ہے۔ کس کی بیٹی ہے اور کسی کی بہو ہے۔ کون کب نکتی ہے اور کہاں جاتی ہے۔ وہ اکثر آتی جاتی ان عورتوں کی سن گن لیتا۔ ان کے پائیجاموں کی چستی ناپتا۔۔ قیمضوں کے چاکوں میں سے جھانکتے سپید و سانولے، بوسیدہ و تروتازہ  پیٹ تاڑتا۔۔ چادروں برقوں اور دوپٹوں میں سے ابھر ابھر کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتی چھاتیوں کو اپنی آنکھوں کے فیتے سے  ناپتا اور آگے نکل جاتا۔ وہ محلے کے خالی پلاٹ کی طرف نکل گیا جہاں لڑکے فارغ اوقت میں کھیل کود کرتے تھے۔آج جمعہ تھا۔ کام کاج سے چھٹی کی وجہ سے وہاں بھی رش تھا۔ وہ وہاں پہنچا تولڑکوں کے دو گروپ آپس میں دست و گریبان تھے۔ وہ پرانی اینٹوں کے ایک ڈھیر پر چڑھ کر بیٹھ گیا اور سگریٹ سلگاتے ہوئے تماشا دیکھ کر زیر لب مسکرانے لگا۔ کچھ توقف کے بعد جب معاملہ ٹھنڈا ہو گیا اور سب لوگ ادھر ادھر بکھر گیے تو اسکے محلے کے لڑکوں کا ایک گروہ اس کو دیکھ کر رک گیا۔ سنا چاچا کیسا ہے؟۔ لا ہمیں بھی ایک سیگریٹ دے۔ اپنی جیب خرید کر پیا کرو ۔۔۔و ۔اس نے اپنی جیب اپنی مٹھی میں دبا لی۔۔ چاچا تجھے پینشن ملتی ہے۔ گھر میں تیرا کوئی خرچا نہیں۔ سیٹھ آدمی ہے تو۔ پھر بھی یہ کنجوسی۔۔ لڑکوں میں سے ایک جو سب سے زیادہ شاطر نظر آ رہا تھا اس نے ہاتھا پائی کی اور سگریٹ کا پیک اڑانے میں کامیاب ہو گیا۔ سب نے سگریٹ جلائے اور پیتے ہوئے ادھر ادھر کی ہانکنے لگے۔۔۔ گپ شپ شروع ہوئی تو سرمئی گیٹ کے اس پار رہنے والی  عابدہ پر جا رکی۔ نذیر احمد نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کچھ اگل دیا۔ البتہ فطری حیا اور شرم کی وجہ سے وہ یہ نا بتا سکا کہ اکثر وہ بھی سائے کے ساتھ تخیلاتی طور پر ہی سہی مگر سرمئی گیٹ کے آر پار چکر کاٹتا ہے۔ اس کے بعد حیرت۔۔ ملے جلے قہقے۔۔ گندے تبصرے لعن طعن اور گالیاں تھیں۔ جب وہ سب وہاں سے اٹھے تو ان میں سے کچھ شدید حسد اور جلن سے لبریز جذبات کا شکار ہو چکے تھے۔ گروہ کا سرغنہ طارق جو شکل سے ایک گھاگھ شکاری معلوم ہوتا تھا۔ اب شکار کے موڈ میں نظر آ رہا تھا۔ کوئی بیگانہ شخص آ کر اسکے محلے کی ملائی پہ ہاتھ صاف کر رہا تھا اور اسے خبر بھی نہیں تھی۔۔  اس نے کتنی دفعہ عابدہ پر چانس مارا تھا۔ مگر کمینی نے اسے گھاس نہیں ڈالی تھی۔ الٹا پارسائی کا ڈرامہ رچاتے ہوئے اپنے ابا کو اسکی شکایت کر دی تھی۔ سرمئی گیٹ کے اس پار پردے میں رہنے والی عابدہ جو شازو نادر ہی گھر سے نکلتی تھی اور ہمیشہ چہرہ ڈھانپتی تھی اب ایک بے لباس ۔۔ بدکردار فاحشہ کی شکل میں اس کے چشم تصور کےسامنے لہرا رہی تھی۔  اسکی حرکات ناقابل معافی تھیں۔ لہزا وہ لوگ عابدہ  کے لیے سزا تجویز کر رہے تھے۔

ایک دن طارق اس کے پاس آیا اورباتوں باتوں میں تمام ضروری تفصیلات دریافت کیں۔ مثلا ہفتے میں کتنی دفعہ یہ کاروائی ہوتی ہے؟۔ اسکی آمد کا عمومی وقت کیا ہوتا ہے؟ اور وہ کس راستے سے آتا ہے؟  اگرچہ اسے جلدی تھی مگر پھر بھی اس نے نذیر انہماک سے تمام تفصیلات بتائیں ۔ طارق جب رخصت ہوا تو  بوڑھے نذیراحمد نے یوں ہاتھ جھاڑے جیسے اہم ذمہ داری سے بری الزمہ ہو گیا ہو۔ گرگابی پیروں میں اڑسی اور جیبیں سنبھالتے ہوئے باہر بھاگا کیونکہ اسے شورکوٹ جانے کی جلدی تھی۔ وہاں اسے اپنے سسرالی رشتہ دار کے جنازے میں شرکت کرنی تھی۔ 


آج کی شب معمول سے بڑھ کرتاریک اور خاموش تھی جیسے  ویران درگاہ کی کسی پرانی قبرکا دہانہ کھل گیا ہو۔ چاند نے شائید حالات کی سنگینی بھانپ لی تھی اس لیے اس نے منظر سے غائب ہونا مناسب سمجھا تھا۔ یا پھر وہ نئے مہینے کے آغاز کے لیے کمر کس رہا تھا۔ ہلکے بادلوں کے اکا دکا ٹکرے آسمان پر بے چینی سے ادھر ادھر ٹہل رہے تھے۔ گلی کے کتوں اور بلیوں کو غفور قصائی کی دوکان سے آج چھیپچھڑے وافر مقدار میں میسرآئے تھے کیونکہ آج جمعرات کی وجہ سے گوشت کی بکری زیادہ رہی تھی۔ اس لیےوہ سیر شکم ہو کر اپنی پچھلی ٹانگوں میں منہ چھپائے کونوں کھدروں میں پڑے گہری نیند سو رہے تھے۔ سرمئی گیٹ آج کسی نے ادھ کھلا چھوڑ دیا تھا۔ دو کمروں میں زیرو پاور کے بلب روشن تھے۔ لیکن تیسرا کونے والے کمرے میں آج خلاف معمول بڑا بلب روشن تھا۔ دروازہ اندر سے اچھی طرح  سے بند تھا۔ بلب کی روشنی دروازے کی درزوں میں سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہی تھی جیسے اندر اسکا دم گھٹ رہا ہو۔اکثر رات کی تاریکی میں اس گلی کو ناپنے والے سائے کا چہرہ بلب کی روشنی میں بالکل واضح تھا۔ پینٹ شرٹ میں مبلوس  دبلی پتلی جسامت اور پتلے نقوش سے مزین سپید چہرہ۔ وہ  زمین پر اوندھا پڑا ہوا تھا۔ ۔ ۔ مگر عابدہ چارپائی پر سیدھی لیٹی ہوئی تھی۔ اس کے منہ پر کپڑا ٹھنسا ہوا تھا اور ہاتھ پاؤں  بندھے ہوئے تھے۔ اسکی آنکھیں اپنی پوری سکت کے ساتھ پھیل گئی تھیں۔  یہ اندازہ لگانا بہت مشکل تھا کہ عابدہ کی آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھیں یا تکلیف سے ۔ اس کا جسم ہولے ہولے ہل رہا تھا۔ عابدہ اور اس منحنے لڑکے کو چھوڑ کر کمرے میں کل پانچ آ دمی تھے۔ نذیر احمد اگر شورکوٹ سے واپس آگیا ہوتا اور اس وقت اپنی چھت پہ موجود ہوتا تو شائید آج وہ سرمئی گیٹ کے پار کے اس منظر کو اپنی چشم تصور میں سمو کر اپنی غلاظت نکالنے میں ناکام رہتا۔۔

Sunday, 18 October 2015

میرا رختِ سفر مجھے طے کرنے دیجئے

0 comments

آجکل کچھ لوگ یہ واویلا کرتے دیکھائی دیتے ہیں کہ زیادہ تر کمپنیاں اور جدید ادارے محض نمائش و زیبائش کے لیے خواتین ملازمین کو ہائیر کرتے ہیں. جنہیں نوکریوں کے بہانے اپنے پراڈکٹ کی سیل کے لیے بطور ٹوکن استعمال کیا جاتا ہے.ان کی رائے میں یہ خواتین کا استحصال ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ جب لاکھوں کی تعداد میں بے روزگار مرد حضرات موجود ہیں وہاں خواتین کو دفتروں میں ملازمت دینا بالکل غیر ضروری، نا مناسب اور غیر اخلاقی ہے. یہ معاشرے میں فحاشی، بے راہ روی اور عدم توازن کی ایک بڑی وجہ ہے. باہر نکلنے والی ایسی عورتوں کی وجہ سے اخلاقی گراوٹ جنم لیتی ہے اور ریپ جیسے واقعات وقعع پذیر ہوتے ہیں. مثال کے لیے لوگ بھارت اور یورپ کی مثال سامنے رکھ دیتے ہیں۔ ان لوگوں سے دس منٹ بات کر کے محسوس ہونے لگتا ہے جیسے معاشرے کے تمام مسائل کی وجہ عورت کا دہلیز پار کرنا ہی ہے۔

ایسے میں پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہمارے یہاں عورت کی خود مختاری اور آزادی کو معاشرتی بگاڑ سے مشروط کیے بغیر مسائل کی وجوہات تلاش کرنا کیوں ممکن نہیں ہے؟ آزاد عورت کیوں معاشرے کے اجارا داروں کو کھٹکنے لگتی ہے؟َ کیا واقعی عورت اتنی مضر ہے جتنا پروپگینڈا کیا جاتا ہے؟ عورت کی ذات اور اس کے کردار کوزمینی حقائق اور عورت کی اپنی ضروریات کی بنیاد پر پرکھنے کے بجائے ہمیشہ کتابی تاویلیں اور مسخ شدہ معاشرتی حوالوں سے محدود کرنے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے؟ مجھے اسکی دو وجوہات ہی سجھائی دیتی ہیں۔ یا تو انسانی تہذیب (جسے مردانہ تہذیب کہنا زیادہ مناسب ہو گا) عورت سے خوفزدہ ہے یا پھر عورت کا انسان ثابت ہونا ابھی باقی ہے۔
سب سے پہلے آغاز ریپ کے مفہوم، اسکی حدود اور مغربی معاشروں سے درآمد شدہ  اعدادوشما کی ممکنہ وجوہات سے کرتے ہیں.
مغربی دنیا کی ڈکشنری کے مطابق ریپ ایسا جماع ہے جس میں
دونوں فریقین میں سے کسی فریق کی رضا مندی ملحوظ نا رکھی گئی ہو بھلے وہ فریق بیوی ہی کیوں نا ہو۔
رضامندی کے حصول کے لیے دھونس، دھمکی یا جذباتی بلیک میلنگ اور جسمانی طاقت کا استعمال کیا گیا ہو۔
ٹارگٹ فرد ذہنی طور پر بے بس اور ناکارہ ہو۔ یعنی وہ ہوش مندی سے فیصلہ کرنے کے لیے درکار ذہنی قوت سے محروم ہو۔
یہاں دو باتیں مزید قابل غور ہیں
خاموشی کا مطلب رضا مندی نہیں ہے۔
دوران جماع اگر ایک فریق سرگرمی روکنے کا فیصلہ کرتے ہوئے انکار کرتا ہے لیکن اس کے باوجود دوسرا فریق اسکو جاری رکھے تو وہ ریپ تصور کیا جائے گا۔
as no meanS stop۔
گویا مندرجہ بالا طے شدہ حدود میں سے کسی ایک کی بھی خلاف ورزی کی صورت میں مغربی عورت ریپ کا کیس دائر کر سکتی ہے۔ جسکا سنجیدگی سے نوٹس لیا جاتا ہے۔ لہزا اپنے گھناؤنے اعمال اور ذہنی پسماندگی کی توجہہ کے لیے مغرب سے ریپ کے واقعات درآمد کرنے والوں کو یہ ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہاں فریق کی معمولی نا کو بھی گھناؤنا جرم تصور کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے یہاں پولیس اسٹیشنز پر اجتمائی زیادتیوں پر بھی کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔الٹا اخلاقی گراوٹ کی اصل وجوہات تلاش کرنے کی بجائے خودمختاری کے حصول کے لیے کوشاں خواتین پر قدغن لگانے کے لیے طرح طرح کے جواز تلاش کیے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی انہیں یہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اصل میں وہ کون سے معاشرے ہیں جو ریپ کی لعنت میں گناگوں ڈوبے ہوئے ہیں اور کون سے معاشروں میں قانونی عمل داری کی مقدس چادر تلے  یہ کرائیہ عمل عالم سرور میں سر انجام پاتا ہے۔  کون سے معاشرے ہیں جہاں VICTUM کو مرتے دم تک احساس نہیں ہوتا کہ اس کا ریپ ہوتا رہا ہے۔۔ اس لیے انہیں کبھی رپورٹ درج کرانے کا خیال نہیں آیا۔

ترقی یافتہ ممالک سے اٹھنے ٹیکنالوجی کے ریلے میں دوسری دنیا کے پسماندہ ممالک  نہا تو گئے ہیں مگر بیرونی ماحول میں ہونے والی یہ برق رفتار ترقی ان ممالک کے باسیوں کی ذہنی پسماندگی اور جہالت ختم کرنے میں اب تک ناکام رہی ہے۔ نتیجتا ٹیکنالوجی کے بطن سے جنم لینے والے پرسہولت لوازمات کے غلط استعمال کا تناسب اس کے مفید استعمالات سے زیادہ ہے۔ الٹراساؤنڈ کی سہولت میسر آئی تو بھارت کے جہالت میں ڈوبے معاشرے کو بیٹیوں سے جان چھڑانے کا ایک آسان اور مفید طریقہ ہاتھ لگ گیا۔یہ معلوم پڑتے ہی کہ ماں کے بطن میں بچی ہے اسکا ابارشن کروا دیا جاتا۔۔ گزشتہ سالوں کے دوران لاتعداد لڑکیاں پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دی گئیں۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں جنس کا توازن بگڑ گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں اب ایسے علاقے وجود میں آ چکے ہیں جہاں لڑکوں کو شادی ے لیے لڑکیاں میسر نہیں اور مرد بوڑھے ہو رہے ہیں۔ معاشرے میں ہر طرف جنسی گھٹن پھیل چکی ہے۔یوں بھارت میں شیرخوار لڑکیوں سے لے کر ملکی و غیر ملکی  خواتین سمت ہر عمر کی عورت ریپ کا شکار ہو رہی ہے۔ یہ ماضی کے اعمال کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ فطرت عدم توازن کسی طور برداشت نہیں کرتی۔

صنعتی انقلاب سے پہلے دنیا پر زراعت نے راج کیا ہے۔تمام تاریخ دان اس بات پہ متفق ہیں کہ عورت دیوی اس پیشے کی موجد ہے۔ کھیتی باڑی سے متعلق ایسا کونسا کام ہے جو زرعی تاریخ میں عورت نے سر انجام نہیں دیا۔اس دوران کہیں بھی اسکی جسمانی  کمزوری آڑے نہیں آئی۔ ناہی اس کی جسمانی کشش آسمان سے شہاب ثاقب برسانے کا سبب بنی۔ آج بھی اگر کھیتوں کی طرف نکل جائیں توعورت کھیتوں میں کام کرتی دیکھائی دے گی۔ سڑکوں پہ روڑی کوٹتی ملے گی۔۔ بھٹوں میں اینٹیں پکاتی ملے گی۔ فیکٹریوں میں مشینیں چلاتی ملے گی۔ کھدر بنتی ملے گی۔۔ سیالکوٹ میں فٹ بال سیتی ملے گی۔ ٹریفک کے اشاروں پہ گھگھو گھوڑے بیچتی ملے گی۔ لیکن آپ نے کسی قدامت پسند سے ان کے حق یا مخالفت میں واعظ دیتے ہوئے نہیں سنا ہو گا۔ شائید ہی کسی واعظ کو کبھی ان خواتین کا معاشی و جسمانی استحصال دیکھائی دیا ہو۔ انہیں مسئلہ تب ہوتا ہے جب عورت ادنی سے اعلی کی طرف سفر کرتی ہے۔ جب وہ گارے مٹی میں اٹے چہرے کو دھو کر ریسپشن پہ بیٹھتی ہے۔ رہٹ چلاتی اور کھوتے ہانکتی ادھ ننگی عورت سے انہیں مسئلہ نہیں ہے۔انہیں صاف ستھرا لباس پہننے،سلیقے سے بال جمائے،ڈرائینوگ سیٹ پر بیٹھی عورت سے خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ دفتروں میں عورتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد انہیں خوفزدہ کرتی ہے کیونکہ  انہیں معلوم ہے کہ جس دن ہماری عورت معاشی طورآزاد ہو گئی اس دن وہ اس ذہنی غلامی کو بھی رد کر دے گی جس کی بنیاد پر ہمارا مرد خود کو برتر ثابت کرکے پھولا نہیں سماتا۔

ہمارے ملک کی باون فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ملکی آبادی کے اتنے بڑے تناسب کو معاشی معاملات میں فعال کرنے کی بجائے انہیں مفلوج افراد بنا کر گھروں میں محصور رکھنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ باون فیصد کے تعاون اور کارکردگی کے بغیر ملک کا ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ناممکن ہے۔ یہ وہ زمینی حقائق ہیں جن کو جعلی مفروضوں کی چادر تلے چھپنا ملک دشمنی ہے۔.خواتین کا معاشی معاملات میں کارگر ہونا نا صرف انفرادی سطح پر آسودگی لاتا ہے بلکہ  خاندانی اور ملکی سطح پر خوشحالی کا باعث بھی ہے۔ خوش آئیند بات یہ ہے کہ اس وقت یونیورسٹیوں میں مردوں سے زیادہ خواتین زیر تعلیم ہیں۔ زندگی کے ہر شعبہ میں خواتین اپنا لوہا منوا رہی ہیں۔ ہر شعبے میں خواتین کا بڑھتا ہوا تناسب خواتین دشمن نظریات اور روایات پر کاری ضرب کے مترادف ہے۔

Saturday, 28 February 2015

بیوپار

0 comments

یہ پکڑ کیا یاد کرے گا۔۔۔۔۔۔استاد نے اس کے ہاتھ میں چند نوٹ تھما کر احسان جتایا۔۔وہ بے صبری سے پیسے پکڑکر گننے لگا۔۔۔۔استاد جی! اس میں تو سو روپے کم ہیں؟؟۔۔ اس نے استسفہامی نگاہوں سے استاد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔چل چل بحث نہ کر۔۔۔۔۔۔۔تجھے کھانا بھی تو کھلایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔استاد مکاری سے بولا۔۔۔۔۔پر استاد کھانے کی بات تو نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔تُو یہ بتا کھانا ملا کہ نہیں؟؟؟۔۔ملا ہے استاد۔۔۔۔۔۔تو بس ٹھیک ہے۔۔تیری محنت سے زیادہ دے رہا ہوں۔۔چپ کر کے رکھ لے اور ہاں!!! کل مت آنا۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں استاد جی؟؟؟؟ وہ پیسے بھول کر اس نئی افتاد پر فکر مند نظر آنے لگا۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ کل نیا مزدور آرہا ہے۔۔۔۔۔۔۔استاد یار مجھے پیسوں کی ضرورت ہے۔۔ مزدوری پر رکھ لے۔۔پہلے ہی دو ہفتوں بعد کام ملا ہے۔۔ابھی تو چار دن بھی نہیں گزرے اور ادھر سے بھی انکار ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فکر نا کر جب بھی ضرورت پڑی۔۔۔ تجھے بلا لوں گا یہ کہہ کر استاد بٹوہ نکا لنے لگا تو یونس کی آنکھوں میں چمک پیدہ ہوئی۔۔یار اسلم یہ جاتے جاتے مسجد کو دے جائیں۔۔پانچ سو کا سبز نوٹ جب اس کے سامنے سے لہراتا ہوا اسلم کے ہاتھ میں گیا تو اس کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔۔ اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ استاد کا فون بجنے لگا اور وہ فون سننے کے لیے زرہ دور ہٹ گیا۔۔ یونس کافی دیر وہاں کھڑا فون بند ہونے کا انتظار کرتا رہا مگر فون بند ہونے کے آثار نظر نہیں آرہے تھے کیونکہ استاد اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف تھا۔۔۔ پانچ سو روپے دہاڑی کے معاہدے پرچار دن پہلے اسے بڑی مشکل سے مزدوری ملی تھی کیونکہ اس پسماندہ سے علاقے میں روزگار کے مواقع کم تھے۔ ایک تو مواقع کم تھے اوپر سے اسکو کام بھی کم ملتا۔ ۔۔لوگ اس پر دوسرے مزدورں کو ترجیح دیتے۔۔۔۔اپنے حالات بدلنے کے لیے اس نے کیا کیا نہیں کیا تھا۔۔۔۔ٹھیلے لگائے ۔۔ اپنے مرحوم باپ کی طرح گٹر صاف کیے۔۔۔۔۔۔۔۔ اینٹ پتھر ڈھوئے۔۔۔۔فروٹ بییچا۔۔مگر کمائی وہی چند سرخ نوٹ۔۔جب کے ذمہ داریاں بڑھتی جا رہی تھیں اور ہاتھ تنگ ہوتا جا رہا تھا۔۔ایک دفعہ اس نےاشیاء خورد ونوش کا ٹھیلہ لگایا تو دو ہفتوں میں ہی اسکا کاروبار ٹھپ ہوگیا کیونکہ سیل نہ ہونے کے برابر تھی۔۔الٹا وہ پانچ ہزار کا مقروض ہوگیا تھا۔۔اور دوبارہ سے دہاڑیاں لگانے پر مجبور ہوگیا۔۔اس نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے ایک دفعہ پھر پیسے گِنے۔۔مگر اس دفعہ بھی کاغذوں کی وقعت چار سو سے زیادہ نہ تھی۔۔شکر ہے یہ تو ملے اگر یہ بھی نہ ملتے تو میں کیا کرتا ۔۔اس نے دل ہی دل میں خود کو تسلی دی اور وہاں سے رخصت ہو گیا ۔۔
جب وہ گھر پنہچا تو ایک کمرے،چار گز کے صحن اور تنگ سے غسل خانے پر مشتعمل اسکا گھر مچھلی منڈی بنا ہوا تھا۔۔۔ بچوں نے اودھم مچا رکھا تھا۔باپ کو دیکھتے ہی بچے ادھر ادھر ہو گئے۔۔آج دیر کیوں کر دی؟؟؟؟؟ لاؤ پیسے دو گھی منگوانا ہے۔۔ بیوی نے کسی قسم کے تکلف میں پڑنے کی بجائے کام کی بات کرنے کو فوقیت دی۔۔ اس نے سارے پیسے نکال کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دیے اور چارپائی پر ڈھیر ہوتے ہی سو گیا۔۔۔۔۔۔جب اسکی آنکھ کھلی تو اسکی بیوی اسے کھانے کے لیے اٹھا رہی تھی۔۔سارے دن کی مزدوری کے بعد اسکا بدن تھکاوٹ سے چور تھا۔۔۔۔وہ بڑی مشکل سے اٹھا اور کھانا کھانے لگا۔۔میری کے ابا۔۔ماریہ اور نیشا کی فیس دینے والی ہے۔۔اور تم نے مجھے دیے ہیں تین سوجو کہ ختم بھی ہو گئے۔۔سَرف منگوانا تھا ابھی۔۔شہزاد چپل کے لیے رو رہا ہے اور کاکے کی دوائی۔۔۔۔۔۔۔صابن سے دھو لیا کر کپڑے ۔۔۔۔گزارہ کر!!!!! وہ لقمہ منہ میں ڈالتے ہوئے بے پروائی سے بولا۔۔ اور ۔۔اور۔۔۔ان کو اٹھا لے سکول سے ۔۔پیٹ بھرتا نہیں اور چلی ہیں پڑھنے۔۔نہیں ابا!!! میں نے پڑھنا ہے۔۔ماریا جھٹ سے بولی۔۔۔ کونسی زیادہ فیس ہے۔۔پچاس روپے ہی تو ہے۔۔اتنے پیسے بھی نہیں تیرے پاس؟۔۔۔۔۔۔ ننھی سی ماریہ نے زبان درازی کی۔۔۔۔۔۔ مگر وہ کھانے میں مگن تھا اس لیے سنی ان سنی کر گیا۔۔۔۔اور چپ رہا۔۔۔۔ کچھ توقف کے بعد اس بیوی دوبارہ بات چھیڑنے کی غرض سے کہنے لگی۔۔۔ میں بھی آج گئی تھی کام پہ!!! پر کیا کام کروں ۔۔۔سوائے کپڑے دھونے اور پوچا لگانے کے علاوہ کوئی کام نہیں ملتا۔۔ ۔۔۔ ویسے بھی اتنے چھوٹے بچے کو چھوڑ کرنہ تو میں زیادہ دیر باہر نہیں رہ سکتی ہوں اور نا ہی زیادہ دور جا سکتی ہوں۔۔اسکا اشارہ اپنے پانچ ماہ کے بیٹے کی طرف تھا۔۔یہ ٹھیک بھی نہیں رہتا ۔۔آئے دن پیچس لگے رہتے ہیں۔۔۔ اسکی بیوی کہے جا رہی تھی اور وہ بظاہر بے حس بنا کھانا کھاتا رہا۔۔چاروں طرف ضرورتیں ناگ بن کر منہ کھولے کھڑے تھیں اور وہ تھا کہ بے بس۔۔۔۔۔۔اچھا کچھ نہ کچھ ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔اب سر نہ کھا میرا۔۔۔۔۔۔۔اس نےراہِ فرار حاصل کرنے کے لیے ایک طرح سے سعی کی اور اسے برتن اٹھانے کا اشارہ کرتے ہوئے باہر نکل گیا۔۔
گلی کی نکڑ پر بنے تھڑے پہ بیٹھ کر وہ اپنے گنے چنے دو چار دوستوں کے ساتھ دل بہلاتا رہا۔یار دوست حسبِ معمول ایک دوسرے کودن بھر کی رودار سناتے ہوئے اپنی اپنی ذہنی بساط کے مطابق ایک دوسرے کو مشورے دینے لگے۔ اسی دوران دبئی میں مقیم ان کے مشترکہ دوست پرویز کا فون آگیا تو اس کے چہرے پر ناگواری کے اثرات نظر آنے لگے۔۔جب تک دوسرے دوست فون پہ بات کرتے رہے وہ لاتعلق بنا سائیڈ پہ کھڑا سگریٹ پھونکتا رہا۔۔ لیکن یہ لاتعلقی محض دکھاوہ تھی ورنہ تو اسکی ذہنی پرواز دو سال قبل کے مکان و زمان کی سیر کر رہی تھی جب وہ اور پرویز جگری دوست ہوا کرتے تھے۔۔۔ایک جیسے حالات و واقعات کی پیداوار ہونے کے ناتے ان دونوں کی خوب بنتی۔۔لیکن پھر پرویز نے ایک ایسا قدم اٹھایا جس کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے کا منہ دیکھنے سے بھی رہ گئے۔۔اگرچہ پرویز نے پیش قدمی کرتے ہوئے ایک دو دفعہ اسے منانے کی کوشش کی تھی مگر معاملہ ایسا تھا کہ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔۔۔لے بات کر!!! دوست نے اسکی طرف موبائل بڑھا کر اسکی سوچوں کا تسلسل توڑ دیا۔۔۔۔نہیں۔۔۔دور کر اسکو۔۔اس نے قدرے خفگی سے کہہ کر موبائل کو ہاتھ مار کر پرے کر دیا ۔۔دوست نے اصرار کئے بغیر فون کان کو لگایا اور بات جاری رکھی۔۔اپنا پرویز وہاں درہم و درہم ہوا پڑا ہے۔۔پورے پندرہ سو درہم  تنخواہ لگ گئی ہے اسکی۔۔۔اور تیرا دماغ آسمانوں پر چڑھا ہوا ہے۔۔۔۔۔ فون بند کرنے کے بعد دوست اسے مطعون کرتے ہوئے بتانے لگا۔۔لعنت بھیجو ایسی کمائی پہ جو ایمان بیچ کرحاصل ہو۔۔اس نے نفرت سے جواب دیا۔۔لیکن سابقہ دوست کی ترقی کا سن کر اس کے زہن میں ہیجان برپا ہوگیا تھا ۔لا دکھا جو دکھا رہا تھا ۔۔اس نے موضوع بدلنے کی نیت سے موبائل کھینچا اور مطلوبہ فولڈر کھول کر دیکھنے لگا۔۔ دوست کے موبائل کی دھندلی سی سکرین پرنیم عریاں اداکاروں کی تصویریں دیکھ کے دل تو بہل سکتا تھا مگر نا تو پیٹ کا دوزخ ٹھنڈا ہو سکتا تھا اور نا ہی ناگزیر ضروریاتِ زندگی سے چھٹکارہ ممکن تھا۔۔ ۔۔جلد ہی وہ اکتا گیا اور وہاں سے اُٹھ گیا
رات گئے بچے کی طبیعت مزید بگڑ گئی۔۔۔۔۔۔وہ ریں ریں کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ بیوی جھنجھلا اُٹھی۔۔۔۔۔۔ کبھی شوہر کو کوستی کبھی بچے کو تھپڑمارنے لگتی۔۔ جب وہ چیخنے لگتا تو چھاتی سے لگا لیتی۔۔۔۔۔۔چلو!! ڈاکٹر کے پاس لے چلتے ہیں۔۔۔۔۔۔ یونس کو سخت بے چینی ہورہی تھی ۔۔ ۔۔۔۔پیسے ہیں؟؟ بیوی نے تلخی سے پوچھا تو وہ ٹھنڈہ ہو کے ایک طرف بیٹھ گیا اور سگریٹ سلگانے لگا۔۔تیری انہی عیاشیوں نے یہ دن دکھائے ہیں۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔ یہ عیاشی ہے؟؟؟؟؟ ۔۔اس نے غصے سے سگریٹ ایک طرف پھینک دیا۔۔سگریٹ نہیں پیوں گا تو کیا جج لگ جاؤں گا؟؟؟؟؟ یا چار سو کی بجائے ہزار روپے کی دہاڑی ملنے لگے گی؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔ کم از کم کاکے کی دوائی تو آجاتی ۔۔وہ رو رہی تھی۔۔۔۔ ہائے خداوند تو ہی کچھ کردے میرےبچے کو آرام دے ۔۔۔۔ وہ التجائیں کرنے لگی۔۔۔۔۔ یونس میرے بچے کو بچا لے۔۔۔۔ دیکھ اس کا رنگ زرد ہو رہا ہے ۔۔ بیوی نے بے بسی سے بچے کو دیکھا اورا سے ہوئے سینے سے لگا کر تھپتھپانے لگی۔۔ ۔۔۔ جو بھی ہونا ہے صبح ہونا ہے اس وقت کوئی ڈاکٹر نہیں بیٹھتا ۔۔۔وہ نرم پڑ گیا اور دونوں بچے کو بہلانے لگے ۔۔۔ پچھلا پہرہونے تک بچہ نڈھال ہو کرسوگیا تو کچھ سکون ہوا۔۔۔ ۔کچھ ہی دیر میں اسکی بیوی بھی اونگھنے لگی۔۔۔۔۔۔۔دور جامع مسجد سے فجر کی اذان کی آواز بلند ہو رہی تھی۔۔۔۔۔ اس نے اطراف میں دیکھا۔ ایک چارپائی پہ اسکی تینوں بیٹیاں بے سدھ پڑیں تھیں۔۔۔ صحن کے ایک کونے میں پڑے استعمال شدہ برتنوں میں بلی اپنے حصے کا رزق تلاش کر رہی تھی۔ ۔۔ اسے یقین تھا کہ برتن خالی ہیں تب ہی اس نے بلی کو بھگانے کی زحمت نہیں کی اورجھک کر زمیں پر پڑا سگریٹ کا ٹوٹا اٹھا کر دوبارہ سلگایا اور ٹہلتے ہوئے کش لگانے لگا۔۔۔۔۔ 
صبح تک بچے کی طبیعت کافی حد تک سنبھل چکی تھی۔ جب تک اسکی بیوی ناشتا بناتی وہ اسے گود میں لے کر کھیلتا رہا۔۔اس نے بٹوے کے کونے کھدرے میں برے وقت کے لیے بچا کے رکھا ہوا آخری نوٹ نکال کربیوی کوپکڑایا اور اسے دوائی دارو کی تاکید کرتے ہوئے گھر سے نکل آیا۔۔۔اسکا رخ جامع مسجد کی جانب تھا۔۔۔
چند سعاعتوں کے بعد جامع مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے ایک آواز گونج رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ حضرات !!!!!!!!!! ایک اعلان سماعت فرمائیں۔۔تمام مسلمان بھائیوں کو مبارک با د قبول ہو۔۔آج اللہ کی خاص رحمت کا نزول ہوا ہے۔ خدائے بزرگ و برتر نے ایک بھٹکے ہوئے آدم زاد کو صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے کی توفیق عطا کی ہے۔۔ہمارے ایک عیسائی بھائی یونس مسیح پر اللہ نے اپنا خاص فضل کرکے اسے ہدایت بخشی ہے اور اس نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔۔تمام لوگوں سے التماس ہے کہ مسجد میں تشریف لا کر اس پر مسرت موقع پر اپنے بھائی جس کا نام اب محمد یونس تجویز کیا گیا ہے کی حوصلہ افزائی کریں۔۔۔
شام تک سرخ بوسیدہ گلابوں کے لاتعداد ہاروں کے حلقے میں یونس مسیح عرف محمد یونس کا سانولا چہرہ تمتما رہا تھا۔۔ ۔۔ لوگ آ کر اسے گلے مل کر سلامی بھری مبارکیں دے رہے تھے کیونکہ امام صاحب نے اسکے جزبہِ ایمانی سے خوش ہو کراسے اپنا مشیرِ خاص مقرر کرلیا تھا۔۔ وہ چٹائی پر بڑی تمکنت سے براجمان تھا۔۔اس کے آگے مختلف رنگوں کے نوٹوں کا چھوٹا سا ڈھیر لگ ہوا تھا جبکہ دور ایک خستہ مکان میں بیٹھے خاندان کے نصیب جاگ اٹھے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مونا بی

Friday, 20 February 2015

آگہی عذاب ہے

0 comments


جب دنیا میں نعمتیں تقسیم ہو رہی تھیں تو طے ہوا کہ ہر نعمت کے ساتھ ایک عذاب دیا جائے گا۔ اور ہر محرومی کے ساتھ ایک سہولت ملے گی۔۔ چنانچہ جب انتخاب کا مرحلہ آیا تو دنیا کہ کچھ نا عاقبت اندیش عقل مندوں نے پیش کردہ نعمتوں میں سے ایک نعمت ’ آگہی‘ وصول کر لی۔ جب کہ باقیوں نے اس سے منہ موڑنا مناسب سمجھا۔۔ جنہوں نے منہ موڑا وہ آج راحت میں ہیں۔انہیں ہر معمولی سی چیز پر ذہنی آسودگی میسر آ جاتی ہے جب کہ عقل مند آگہی کا عذاب سہتے ہیں۔۔ معلوم ہے کہ یہ عذاب کیسا ہوتا ہے؟ اک میٹھا میٹھا سا مستقل درد جس سے عشق ہو جاتا ہے۔ پھر انسان ایک سوال یا ایک جواب پر نہیں رکتا۔،، انسان بے اختیار ہو کر جانتا چلا جاتا ہے۔۔مگر جاننے کے اس عمل کے ہر مرحلے کے ساتھ ایک نئی اذیت انسانی روح میں گھر کر لیتی ہے۔یہ ایسی اذیت ہوتی ہے جس کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔۔ بعض دفعہ تو اس کی کوئی طبعی وجہ بھی نہیں ہوتی۔۔سہنے والے کو معلوم نہیں پڑتا کہ درد کہاں سے شروع ہوا اور اسکا آخری سرا کہاں ہے؟ بس یہ اذیت ہماری روح کو بوڑھا کر دیتی ہے۔



Thursday, 19 February 2015

نیلا پھول

2 comments



فوٹو سٹیٹ کی شاپ پر صبر آزما انتظار کے بعد ہماری باری آنے تک مجھے شدید پیاس لگ چکی تھی۔ اگست کے آخری ایام تھے، گرمی جاتے جاتے اپنا رنگ دکھا رہی تھی اور مجھے مرغی کے ڈربے جیسی اس شاپ میں کچھ زیادہ ہی حبس محسوس ہونے لگی تھی۔ میں نے نائلہ کو جو نوٹس ہاتھ میں لیے دکاندار کی نظرِکرم کی منتظر کھڑی تھی کہنی سے ٹہوکا دیکر کہا ۔ ''جلدی کرو یار، بہت پیاس لگ رہی ہے مجھے'' 
‘‘میں کیا کروں؟ تمھارے سامنے ہی ہے! وہ میرے نوٹس پکڑ ہی نہیں رہا'' نائلہ نے جھلا کر کہا۔
میں نے ٹھنڈی آہ بھری اور ادھر ادھر جھانکنے لگی۔ صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ خدا خدا کرکے باری آئی، نوٹس فوٹو کاپی ہوئے اور ہم دونوں یونیورسٹی کی طرف چل پڑیں۔ کلاس روم میں گھستے ہی میری نگاہوں نے پانی ڈھونڈنا شروع کردیا۔ رخشی کے پاس پانی کی بوتل نظر آئی تو میں بوتل سے منہ لگا کر غٹاغٹ پانی پینے لگی ۔ ۔ 
'اگلی دفع تم جاؤ گی شاپ پر، یہ سن لو''
میں نے پانی پی کر رخشی کو مخاطب کیا جو نوٹ بک پر کچھ سکیچ کر رہی تھی ۔ ۔ پتہ نہیں اسے کیا تھا، وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ ڈراء کرتی رہتی تھی۔
''اچھا بابا چلی جاؤں گی، ناراض کیوں ہوتی ہو؟'' 
اس نے میری طرف دیکھے بغیر ہنستے ہوئے جواب دیا۔ اس دوران میری نظر نائلہ پر پڑی جو دروازے میں رکی روزی سے کچھ بات کر رہی تھی۔ روزی نے اشارے سے مجھے اپنے پاس بلایا۔
''پانی پی کر آتی ہوں''
میں نے بوتل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا، مگر اس کو بضد دیکھ کر مجھے اُٹھنا پڑا۔ شاید کوئی خاص بات تھی۔
''یار تمھیں کتنی بار کہا ہے کہ اسے اووئیڈ کیا کرو!'' 
روزی نے رخشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ملامت بھرے لہجے میں کہا۔
''ہم مسلمان ہیں اور ہماری کچھ پریورٹیز ہیں۔ وہ احمدی ہے اور احمدیوں کیساتھ دوستی کرنا گناہ ہے اور تم ہو کہ اسکی بوتل میں سے پانی پی رہی ہو۔ کل جب ہم کینٹین میں گئے تھے تو میرے کزن نے دیکھ لیا۔ شام کو اس کا فون آیا تھا، وہ کہہ رہا تھا کہ اس سے دوستی ختم کرو’’ 
نائلہ کہاں پیچھے رہنے والی تھی۔ اس نے بھی نفرت سے کہا کہ ہمیں صرف تمھاری وجہ سے اس سے بات کرنا پڑتی ہے ورنہ وہ مجھے بہت بری لگتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس نے ماتھے پر تیوریاں چڑھا لیں۔
میں سوچ میں پڑ گئی۔ جب سے میری اور رخشی کی دوستی ہوئی تھی مجھے اکثر یہ لیکچر سننے پڑتے تھے۔ کلاس کا تقریبا ہر فرد مجھے اس سے گریز کرنے کی نصیحت کر چکا تھا۔ میرا دماغ تیزی سے تمام چیزوں کا جائزہ لینے لگا۔ میں نے رخسانہ پر ایک نگاہ ڈالی، وہ ابھی تک اپنے اطراف سے بے نیاز کچھ سکیچ کر رہی تھی لیکن اب اسکے قلم کے نیچے ٹشو تھا۔
''لیکن یار وہ تو اتنی اچھی ہے، میں نے تو اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی''
میں نے کمزور سی آواز میں دلیل دینے کی کوشش کی۔
‘‘یار!! ان لوگوں کی یہی توچلاکی ہے۔۔ سب سازش کا حصہ ہے۔یہ کافر اچھا اخلاق دکھا کر لوگوں کے دلوں میں جگہ بناتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ان کو اپنے مذہب پر قائل کر لیتے ہیں، سمجھو اس بات کو’’ روزی نے رازدارانہ انداز میں سرگوشی کی
میں نے نہایت سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اثبات میں سرہلایا اور میری نظر سامنے دروازے پر لگے سٹکر پر پڑی جس پر کسی مولانا کا قول درج تھا  
''اے مسلمان! جب جب تو احمدی کے ساتھ رہتا ہے، تب تب رسول عظیم
کی روح تڑپتی ہے''

میں اپنے آپ کو روزی کی بات سے اتفاق کرنے پر قائل کرنے لگی۔ میں نے رخشی کی طرف دیکھا تو وہ بھی میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ قدرت نے اسے غزالی آنکھیں دے رکھیں تھیں، لڑکی ہونے کے باوجود میں اکثر مجبور ہو جاتی تھی اسکے سامنے انکی تعریف کروں۔ ان بڑی بڑی آنکھوں میں ایک عجیب سی ہلچل رہتی تھی۔ خاموش مگر شور مچاتی ہوئی، سوال کرتی ہوئی آنکھیں، ویران مگر مسکراتی ہوئی آنکھیں۔ میں نے کبھی اسے روتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ میں دھیرے دھیرے چلتے ہوئے دوبارہ اسکی ساتھ والی چیئر پر ڈھیر ہوگئی۔ مجھے یاد آیا کہ ایم۔ ایس۔ سی کے آغاز میں جب سب ایک دوسرے سے شناسائی حاصل کرنے میں مصروف تھے، متوقع دوستیاں تلاش ہو رہی تھیں تو اسی دور میں میری بھانجی چائے گرنے سے جھلس گئی اور میں دو دن کیلئے سرگودھا چلی گئی۔ ہاسپٹل میں مجھے رخشی کا فون آیا تھا اور ادھر اُدھر کی باتوں کے سوا اس نے کوئی بات نہ کی تھی۔
''رخشی! جب میں سرگودھا میں تھی تو تو نے مجھے فون کس لیے کیا تھا؟''
میں نے رخسانہ سے پوچھا
''سچ بتاؤں یا جھوٹ؟''
اس نے سر اٹھائے بغیر کہا
‘‘سچ سننا ہے مجھے’’  میں نے زور دیکر کہا
''یونیورسٹی کے کام تو بہانہ تھا۔ میں تو ویسے ہی تم سے بات کرنا چاہتی تھی''
رخسانہ نے جواب دیا
''کیوں؟؟'' 
میں نے حیرت سے سوال کیا، مگر وہ خاموش رہی۔ کچھ توقف کے بعد میں دوبارہ گویا ہوئی۔
''اوہ اچھا! سمجھ گئی! تو تم مجھ سے دوستی کرنا چاہتی تھی''
میں نے فخریہ انداز اپنایا۔
''ارے جاؤ! تم میں ایسا کیا ہے جوتم سے دوستی کی جائے؟'' 
اس نے میری چٹکی لیتے ہوئے شرارت سے کہا۔
''کمینی پھر بتاتی کیوں نہیں؟'' 
میں نے اپنا بازو سہلاتے ہوئے کہا۔
 اس بار اس نے سنجیدگی سے جواب دیا ''کیونکہ مجھے تم کلاس میں سب سے مختلف لگیں تھی ۔''
‘‘اور جب تم یہاں نہیں تھیں تو میں نے تمھیں مِس کیا تھا۔’’
اس دوران اس نے ٹشو پیپر پر اپنا آرٹ ورک مکمل کر لیا تھا۔ یہ نیلی بال پوائنٹ سے ٹشو پر سکیچ کیا ہوا یک رنگ مگر نفیس ادھ کھلا نیلا گلاب تھا۔ میں نے دل ہی دل میں اسے داد دی۔ وہ جسے خدا نے احمدی ہونے کے باوجود صلاحتیوں، نفاستوں اور مسکراہٹوں سے نواز رکھا ہے میں اس سے کیسے نفرت کروں؟ میں کون ہوں اس کے مقدر کا فیصلہ کرنے والی؟ میرے ذہن کی تمام الجھنیں معدوم ہونے لگیں۔
''یہ تمھارے لیے ہے''
رخشی نے ٹشو پیپر میں طرف بڑھایا۔ میں اسکا چہرہ تکنے لگی۔ میری نظریں سوالیہ تھیں، وہ خاموشی سے مسکراتی رہی۔
‘‘ تو یہ کہ میرا انتخاب درست ہے’’

اس کی چڑاتی ہوئی مسکراہٹ سے میں نے جواب اخذ کیا۔ میں نے اپنے وجود میں اس کیلئے نفرت تلاش کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔
‘‘کسی غلط فہمی میں نہ پڑو ۔ تو اس لیے مختلف لگی کیونکہ پوری کلاس میں صرف تو عقل سے پیدل ہے’’ اس نے اپنا مخصوص نقاب درست کرتے ہوئے شرارت سے کہا۔
کمینی عورت! میں نے بھی اپنا فیورٹ سلینگ ورڈ استعمال کرتے ہوئے اسے جھوٹ موٹ کوسا اور پھر سے اسکی بوتل سے پانی پینے لگی۔۔

Tuesday, 17 February 2015

محبت نما

1 comments


میں نے فرسٹ ائیرمیں ایڈمشن کے بعد سے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفرشروع کر دیا تھا۔۔مجھے پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔مگر میں یہ شوق اس طرح پورا کرنا چاہتی تھی کہ میرے والد پر کم سے کم معاشی بوجھ بنے اسلیے ابو کے اصرار کے باوجود ہاسٹل میں رہنے کی بجائے میں نے بسوں میں لٹکنے کو ترجیح دی۔۔

جب میں پہلے دن سفر پہ نکلی تھی تو باجی نے سمجھایا تھا۔۔ کڑوے کسیلے لہجے والے مرد پر بھلے اعتماد کر لینا مگر میٹھے لہجے والوں اور ہمدردیاں جتانے والوں سے چوکنّی رہنا۔ یہ وہ دور تھا جب میرے پیشِ نظر تعلیم کے سوا کچھ بھی اہم نہیں تھا لہزا میں نے اس بات کو پلو سے باندھا اور شروع دن سے محتاط رویہ اپنایا۔۔کبھی کسی سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی ۔۔ اور اگر کسی خود کوشش کی تو ایک خشک جملے میں رسپانس دے کر ہری جھنڈی دکھا دی۔ ۔۔اگرچہ بظاہر کھردرے لہجے اور چہرے پہ سختی طاری کیے رکھتی مگر دل میں انجانے خوف کے سانپ کنڈلی مار کے بیٹھے رہتے۔۔ گرتے پڑتے ،مشقت کرتے سفر جاری رہا۔۔شروع شروع میں تنگ کرنے والوں نے تنگ بھی کیا۔۔ کچھ لوگوں نے منہ کی کھائی۔۔پھر آہستہ آہستہ سب میری موجودگی کے عادی ہو گئے اور میں ان کی موجودگی کی عادی ہوتی چلی گئی۔۔ حتیٰ کے بس کے کنڈکٹر بھی میرے سٹاپ کے پوائینٹس پہچاننے لگے۔۔

پھر اچانک وہ نمودار ہوا۔ شائید وہ سالوں سے میرا ہمسفر تھا مگر میں نے تھرڈ ائیر تک بھیڑ میں کبھی اسکی موجودگی نوٹ نہیں کی تھی۔۔ ایک دن صبح جب میں نے بھاگ کر چھوٹتی بس پکڑی تو حسبِ معمول رش دیکھ کر دل گھبرانے لگا۔ صبح کے وقت بس سکولز، کالجز ، فیکٹریوں اور دفاتر جانے والے افراد سے کچھا کھچ بھری ہوتی۔۔مگر کسی نا کسی طرح میری سیٹ کا انتظام ہو ہی جاتا۔ لیکن جب تک انتظام نا ہوتا میرے بدن کا رواں رواں بھیڑ میں سے ہونے والی کسی الٹی سیدھی حرکت کی فوری نشاندہی کے لیے چھٹی حس میں تبدیل ہو جاتا۔۔۔اس دن بھی میں دھڑکتے دل کے ساتھ سیٹ مل جانے کی دعائیں کر رہی تھی کہ اچانک بس کے پچھلے حصے سےسفید لٹھے کے سوٹ میں ملبوس ایک چمکتا سراپا لوگوں کوپرے دھکیلتا آیا اور مجھے پیچھے جانے کا اشارہ کیا۔میں نے سیٹ پر پہنچ کر اسکی طرف دیکھا۔۔وہ بالکل بے نیاز کھڑا تھا۔۔میرے لیے سیٹ چھوڑنے والا وہ کوئی پہلا آدمی نہیں تھا اور نا ہی یہ فعل انوکھا تھا۔کیونکہ دیہی علاقوں میں خواتین کے احترام میں سیٹ کا بندوبست کرنا عام بات ہے۔

مگر اسکے انداز میں کچھ ایسا ضرور تھا کہ میں ٹھٹھک گئی۔۔میں نے چپکے سے اسکا جائزہ لیا۔۔ وہ پینتیس سے چالیس کے درمیان عمر کا معلوم ہوتا تھا۔ متناسب جسامت اور روشن آنکھوں کے ساتھ وہ بہت نفیس نظر آتا۔ پھر ایسا اکثر ہونے لگا۔ اگر وہ بس میں موجود ہوتا تومجھے اسکی آنکھیں اپنا پیچھا کرتی محسوس ہوتیں۔۔ وہ مجھ پہ نظر رکھتا۔۔ کسی لڑکے کو یا آدمی کو میری سیٹ کے پاس کھڑے تک نا ہونے دیتا۔ ۔۔۔ میرے بس میں سوار ہوتے ہی یا تو وہ خود سیٹ چھوڑ دیتا یا کسی لڑکے کو ااٹھا دیتا۔ شائید وہ ایسا عرصے سے کر رہا تھا مگر میں نے محسوس اب کرنا شروع کیا تھا۔۔یا وہ ایسا کچھ بھی نہیں کر رہا تھا مگر میں محسوس کرنے لگی تھی۔۔ ادھر میں مختلف زاویوں سے اس کے بارے میں سوچنے لگی۔۔ چھیچھورا انکل! مجھے امپریس کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔۔دیکھنا ایک دن اسکی اصلیت کھل کے سامنے آ جائے گی جب اس نے خود کوئی حرکت کی۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔ مگر یہ بھی سچ تھا کہ میں بغیر کسی مقصد کے اس کی موجودگی کی خواہش کرنے لگی تھی۔ بس میں سوار ہوتے ہی میری نگاہیں اسکو ڈھونڈھنے لگتیں ۔جیسے ہی وہ دکھائی دیتا مجھے خوشگوار احساسات گھیر لیتے۔

 کبھی کبھی اتفاقا ہم ایک ہی سٹاپ پہ اترتے ۔۔فٹ پاتھ پر چند گز کا فاصلہ رکھتے بظاہر لاتعلق بنے آگے پیچھے چلتے ہوئے اپنی اپنی منزل کی طرف گامزن ۔۔ مجھے اسکی طرف سے خدشہ رہتا ۔ یہ کسی دن بات کرے گا۔۔ کسی بہانے سے رک کے مڑے گا اور کچھ کہے گا۔۔ شائید یہ پوچھے گا کہ کس کالج پڑھنے جاتی ہو؟ یا یہ پوچھے گا کہ کس کی بیٹی ہو؟ یا یہ کہ تمھارا نام کیا ہے؟ یا یہ کہے گا کہ سنو ۔۔ تم اچھی لڑکی ہو اس لیے میں تمھارا خیال رکھتا ہوں۔۔ یا شائید سیدھا سیدھا فون نمبر مانگ لے گا۔یا فون نمبر لکھر کر میری طرف پھینکے گا۔ ایسی کئی باتیں میرے ذہن میں گردش کرتی رہتیں۔ لیکن اسکی نوبت نا آئی اور سب کچھ نارمل ہی رہا ۔

  مہینوں یہ معمول چلتا رہا میں بس میں سوار ہوتی۔۔ چپکے چپکے اسکو ڈھونڈتی۔۔وہ مجھے بیٹھا دکھائی دیتا میرا دل فرحت سے بھر جاتا۔۔میں خود کو ریلیکس فیل کرنے لگتی۔وہ یا تو خود میرے لیے سیٹ خالی کرتا یا کسی سے کروا دیتا۔۔ مگر اس کے بعد وہ مکمل طور پر مجھ سے لاتعلق ہو جاتا۔۔ لاتعلق ایسے کہ میں نے کبھی اسے اپنی طرف دیکھتے نہیں پایا۔۔ کتنی عجیب بات تھی۔۔۔ کبھی کبھی وہ کالج سے واپسی پہ بھی موجود ہوتا۔۔ میں نے بہانے سے ابو سے اس کے بارے پوچھ گچھ کی تو پتا چلا کہ وہ میرے گاؤں کا ہے اور غیر شادی شدہ ہے۔ مجھے وہ مزید اچھا لگنے لگا۔


ایک دن یوں ہوا کہ میں کالج سے واپس آرہی تھی۔۔ میں بس کے پچھلے حصے میں کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھی ۔۔ بس میں حسبِ معمول رش تھا۔کھینچا تانی جاری تھی ۔میں کبھی لوگوں کی حالت سے لطف اندوز ہونے لگتی اور کبھی کھڑکی سے باہر جھانکنے لگی کہ اچانک لمحے کے ہزارویں حصے میں میں نے اپنی پشت پر ناخشگوار حرکت محسوس کی۔۔ مڑ کر دیکھا تو سیٹ کی سائیڈ سے ایک ہاتھ غیر محسوس طریقے سے آگے بڑھ رہا تھا۔میں نے گردن اٹھا کر تیور چڑھاتے ہوئے اس خبیث کو آنکھوں ہی آنکھوں میں پیغام دیا کہ جو تم کرنا چاہ رہے ہو میں اس سے اچھی طرح باخبر ہوں اس لیے باز رہو۔۔ مگر ہر چند لمحے بعد اسکی طرف سے دست درازی کی کوشش جاری رہی۔۔کوئی چوتھی مرتبہ میں نے اٹھ کر اسے تھپڑ جڑ دیا اور اونچی آواز میں اسے کوسنے لگی جس پہ وہ بجائے شرمندہ ہونے کے مجھ سے الجھ پڑا کہ میں نے تو کچھ کیا ہی نہیں۔۔

لوگوں نے گردن گھما کر اسے گھور کر دیکھا۔ میں بھی سیدھی ہو کر بیٹھ گئ۔۔ تھپڑ نے اپنا اثر دکھایا اور سفر کا باقی ایک گھنٹہ سکون سے گزرا۔ ۔ بس نے میرے گاؤں کی طرف جانے والا موڑ کاٹا۔۔۔۔ میرا گاؤں بس کا دوسرا آخری سٹاپ تھا۔۔ اسلیے اب بس میں اکا دکا لوگ رہ گئے تھے۔ ۔۔فرنٹ سیٹ سے وہ اٹھا،۔۔بس رکوائی۔۔ میرے سے پچھلی سیٹ پر پہنچا ۔۔اس آدمی کو گریبان سے گھسیٹتا ہوا نیچے لے گیا۔۔اور اسکی دھلائی شروع کر دی۔۔ کوئی دس منٹ بعد اس آدمی کو زودوکوب حالت میں لا کر دوبارہ اسی سیٹ پر پھینکا اور واپس اپنی نشت پر چلا گیا۔۔میں خوف زدہ ہو گئی۔۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔ اتنے میں میرا سٹاپ آگیا اور میں اتر کر گھر چلی گئی۔۔ اسکو کیسے پتا چلا کہ میرے ساتھ پیچھے یہ واقعہ پیش آیا؟ یہ تو بس کے اگلے حصے میں فرنٹ سیٹ پر تھا جبکہ میں بالکل پچھلے حصے میں۔۔ اور۔۔۔اور۔۔۔۔ اور اس کو کیا ضرورت تھی اسکی دھلائی کرنے کی۔۔۔ انجانے خوشگوار احساسات زور پکڑنے لگے۔۔

جمعے کو فیکٹریوں میں تعطیل کی وجہ سے بس میں آسانی سے سیٹ دستیاب ہوتی۔۔اس دن صبح کالج جاتے سمے میرے ساتھ والی نشت خالی تھی۔۔ ایک شوخ سا لڑکا سوار ہوا تو خالی سیٹ دیکھ کر میرے ساتھ آبیٹھا۔۔ شائید دو منٹس ہی گزرے تھے کہ وہ پیچھے سے اٹھ کر آیا اور اس لڑکے کو اٹھا کر خود بیٹھ گیا۔۔ یا خدا! میرا کلیجہ حلق میں آگیا۔۔ آج تو کچھ ہو کہ ہی رہے گا۔۔ میں بظاہر رخ دوسری طرف کیے بیٹھی تھی مگر میرا دھیان اسکی حرکات و سکنات پر تھا۔۔ میں نے کن اکھیوں سے اسکا جائزہ لیا۔ وہی معمول کی بدامی یا سفید رنگ کی اجلی شلوار قمیض اور تلّے والا کھسہ ۔۔ وہ باہر کی طرف ٹیڑھا ہو کراس طرح بیٹھا تھا کہ اس کے وجود کا کوئی حصہ مجھ سے مَس نہیں ہو رہا تھا۔۔ یہ اب کوئی حرکت کرے گا۔۔ اب کرے گا۔۔۔۔ اب تو کر ہی ڈالے گا۔۔ اور کچھ نہیں تو منہ موڑ کر کچھ نا کچھ بولے گا ضرور۔۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا میری بے چینی بڑھتی رہی۔

پورا ایک گھنٹہ گزر گیا مگر کچھ بھی نہیں ہوا۔۔ اسکا سٹاپ آیا اور وہ خاموشی سے اتر گیا۔۔

پھر رفتہ رفتہ میری کنفیوزن دور ہوتی گئی۔۔ میں اسکو سمجھ گئی۔۔اس کو سمجھ گئی تو مطمئین ہو گئی۔۔اور ہم اسی طرح رہنے لگے۔۔

 اسکا میرا تعلق یہی تھا۔ یہ بہت خوبصورت تعلق تھا۔۔ جس میں الفاظ بے معنی تھے۔۔ عہد و پیمان کے ادوار غیر ضروری تھے۔ محبت کی گزارشات بے مقصد تھی۔۔اسکی طرف سے توجہ، عزت اور محبت کا پیغام اتنا بھرپور اور واضح تھا جبکہ میں پگلی مکالمے تلاش کر رہی تھی۔ ۔۔۔۔

تحریر: مونا بی