Monday, 23 May 2016

فرد کی آزادی کی اہمیت

0 comments


حقیقتیں اب یک جہت و یک سمت نہیں رہیں۔ یہ ملٹی ڈائمینشل ہو چکی ہیں۔ حقیقتیں اب پرت در پرت اور تہہ در تہ مختلف ہیتوں کی حامل ہیں۔ کسی کا سچ اب مکمل سچ نہیں ہے۔ بلکہ بہت سی نا مکمل، بسا اوقات متضاد سچائیاں مل کر ایک مکمل سچ کا روپ دھارتی ہیں۔ وہ مکمل سچ بھی ایک مخصوص دور کے لیے کارآمد ہوتا ہے ۔بعدازاں اسکی افادیت بتدریج کم ہو جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے میٹر کا اینٹی میٹر ہے، پروٹان کا اینٹی پروٹان ہے۔ مثبت چارج کا متقابل منفی چارج ہے جو نا صرف مثبت چارج کو جواز فراہم کرتا ہے بلکہ اسکو متوازن اور نیوٹرل بھی بناتا ہے۔ ایسے ہی ہرتھیس کا اینٹی تھیس ہوتا ہے اور ہر ہائیپوتھیسسز کا اینٹی ہائیپوتھیسز ہے۔ ہائیپوتھیسسز کی ویلیدٹی کو جانچنے کے لیےاینٹی  ہائیپوتھیسسز کا ہونا ناگزیر ہے۔ اگر کسی کا دعواہ ہے فرد کی آزادی فرد سمیت پورے سماج کے لیے مہلک ہے تو لازم ہو گا کہ اس کے متقابل کوئی اس کا اینٹی تھیسز پیش کرتے ہوئے یہ نظریہ پیش دے کہ فرد کی آزادی فرد سمیت پورے سماج کے لیے مہلک نہیں ہے۔ دنوں تھیسز اپنی ویلڈٹی اور حقانیت کو ثابت کرنے کے عمل سے گزرتے ہوئے بہت سے اہم علمی و فکری مراحل عبور کر کے ناصرف منطقی اور حقیقت سے نزدیک تر نتائج پر پہنچ جائیں گے بلکہ فکری تنوع بھی جنم لے گا۔ یہاں کوئی تیسرا مفکر یہ دعواہ بھی کر سکتا ہے کہ فرد کی آزادی فرد کے لیے تو مہلک ہے لیکن سماج کے لیے مفید ہے

اب ذرہ ایک ایسی صورتحال کا تصور کریں جہاں یہ تھیس قائم کرنا تو قابل ستائش ہے کہ فرد کی آزادی فرد سمیت پورے سماج کے لیے مہلک ہے لیکن وہاں کسی فرد یا گروہ کو اسکا انکار کرنے کی اجازت نہیں تو کیا خیال ہے وہاں زہنی ارتقا اور فکری نمو کی مشق ہو سکتی ہے؟ میرا خیال ہے نہیں۔۔

ایسی سوسائٹی میں جہاں متضاد حقائق ، متضاد نظریات یا متضاد ہائیپوتھیسسز کو جگہ میسر نا ہوں وہاں فرد کے ذہنی ارتقا کا عمل رک جاتا ہے۔ وہ نظریات و حالات کا مختلف زاویوں سے ادراک حاصل کرنے سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس کی فکر ایک نقطہ پر مرکوز ہو کر رہ جاتی ہے۔ وہ ایک یا چند ایک حقائق کی اندھی تلقید شروع کر دیتا ہے۔ ایسے معاشرے میں پھر  من پسند حقائق انتہاؤں کو چھونے لگتے ہیں کیونکہ متقابل اور متضاد حقائق اسے چیلنج کرنے کے لیے موجود نہیں ہوتے۔ یوں توازن بگڑنے لگتا ہے۔ مثال تو خطرناک ہے لیکن سوشل میڈیا کے تناظر میں یہی مثال جائز بنتی ہے۔ فرض کریں اگر کسی کالونی میں کوئی مزہب بے زار خاندان رہائش پذیر ہے وہ ایک ایسے معاشرے کا فرد ہے جہاں اسکے ساتھ والے گھر میں مذہب پسند  خاندان کو بسنے کی اجازت ہے۔ عین ممکن ہے کہ  مذہب پسند ہمسائے کی پرسکون اور آسودہ زندگی ہمیشہ اسے شک میں مبتلا کیے رکھے اور وہ اپنے نظریات پر مسلسل نظر ثانی پر مجبور رہے گا۔ مذہبی شخص بھی اپنے ہمسائے کی زندگی سے ضرور کچھ نا کچھ مثبت یا منفی نتائج اخذ کرکے اپنے نظریات و طرز زندگی میں ترامیم کرنے پر آمادہ ہو گا۔ گویا وہ علاقہ فکری واخلاقی حوالوں سے معتدل اور متنوع ہو گا۔۔۔ جمود کے خلاف مذاحمت پر آمادہ ہو گا۔۔ وہاں طرز زندگی کے نئے امکانات زیر بحث رہیں گے۔ ۔


لیکن ایسے معاشرے میں شدت پسند جنم لے گی جہاں کے  افراد کو کسی نا کسی طریقے سے یہ باور کروایا گیا ہے کہ حق کے علمبردارصرف وہ  ہیں ۔اس فیصلے کا اختیار صرف انہی کے پاس ہے کہ باقیوں نے کیا کرنا ہے۔ یہ رویہ خطرناک ہے۔ ہر فرد عقلمند ہے۔ ہر فرد کے پاس شعور ہے۔ ہر فرد کے جنیٹک میک اپ میں ایسا پروگرام انسٹال ہے جو اسے بہتر کا انتخاب کرنے، ضرر سے بچنے اور بقا کی جنگ لڑنے جیسے رویے اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔  لہزا چارٹر آف ھیومنیٹی  کی پہلی شق یہ ہے کہ ہر انسان آزاد پیدا ہوا ہے۔ کسی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ اس کی زندگی کی سمت کا تعین کرے اور اپنے فیصلے جبرا ان پر مسلط کرے۔ ہم اس فرد کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کر سکتے ہیں، اسے کنونس کرنے کے لیے اس سے مکالمہ کر سکتے ہیں لیکن اسے اس بات پر مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ ہم سے ہر حال میں متفق ہو۔ جبرذدہ  سماج میں چند افراد اپنی دانش کے مطابق طے کر لیتے ہیں کہ افراد کے لیے کیا درست ہے، یہ ناقابل ترمیم ہو گا۔ باقی سب  غلط اور خرافات کا ایسا مجموعہ ہے جس پر مکالمے کی گنجائش بھی نہیں نکلتی۔  ایسا سماج یا ریاست نا صرف فرد کی آزادی کی غاصب ہے بلکہ اسکی ذہانت، دانش اور قوت فیصلہ کی بھی دشمن ہے۔ ایسے سماج کا فرد کبھی بھی ذہین، باشعور اور اعلی اخلاقیات کا حامل نہیں ہو گا۔ داخلی خواہشات کے سیلاب، متنوع مزاجی کے طاقتور جنیٹک پریشر اور بیرونی جبر کی آہنی بندشوں میں جکڑا 
یہ فرد یا تو مجذوب ہو گا۔ یا پھر منافق۔۔

میرے پاس امیرکن ایکونومسٹ فریڈرک اے ہائیک کا ایک آرٹیکل ہے۔ ہائیک کہتا ہے۔ علم کسی فرد یا مخصوص گروہ کی ملکیت نہیں ہے۔ بلکہ یہ سماج کے تمام افراد میں پھیلا ہوا ہے۔ کسی ایک فرد کے پاس نالج کا کچھ حصہ تو پو سکتا ہے لیکن یہ سمجھنا کہ سوسائیٹی کا کل علم کسی ایک شخص کے پاس مرتکز ہو سکتا ہے۔۔ احمقانہ خیال ہے۔ عملی طور پر یہ ممکن نہیں۔ لہذا یہ تصور بھی احمقانہ ہی ہو گا کہ کسی فرد یا قلیل التعداد افراد کے ایک  گروہ جس کے پاس کل علم کا ایک چھوٹا سا پورشن ہے  کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ  وہ ان کثیر التعدا افراد کی زندگیوں کے فیصلے کرے جو زائد علم کے مجموعہ کے حامل ہیں ۔ آپ میں سے بہت سے لوگ کبھی نا کبھی ایسے تجربات سے گزرے ہوں گے جب آپ نے دیکھا کہ ایک اخبار فروش کی سیاسی بصیرت پارلیمنٹ میں بیٹھے کسی قد آور اور نامور سیاستدان سے زیادہ ہے۔ یا ایک پرچون فروش مسئلہ طلب و رسد پر زیادہ اچھے طریقے سے بحث کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یا  کھیتوں میں بھینسیں چراتی دیہاتی عورت  اے سی کی ٹھنڈک تلے بیٹھی کسی خاتون ڈرامہ نویس سے زیادہ پائیدار بات کرتی ہے۔ تو خدارا فرد کو مکمل جاہل اور بےکل مت سمجھیے۔

ماضی قریب میں چرچ نے عرصہ دراز تک ایک مخصوص سماجی و مذہبی بیانیے کی سر پرستی کی اور جمود میں لپٹی ہوئی انارکی کا شکار رہا۔ جہاں سرکاری سرپرستی کی گود مین کھیلنے والے تھیسز کی نفی کرنے والوں اور راج کرتے تھیسز کا اینٹی تھیسز پیش کرنے والے معطون ٹھرائے گئے۔ فکری و علمی طور پر منفرد معصوم مگر مظلوم افراد پر مظالم ڈھائے گیے۔ چرچ نے کہا زمین چپٹی ہے۔ گلیلیو نے اس سچائی سے انکار کیا اور کہا نہیں زمین گول ہے۔ یہ بات سرپرست اور آمر چرچ کو ناگوار گزری اور ہزار ہا صعوبتیں دے کر گلیلیو کو مجبور کیا کہ وہ اپنا یہ بیان واپس لے کیونکہ یہ لوگوں کے ایمان متززل کرنے کا باعث ہے۔ چوتھی صدی عیسوی میں مصر کی ایک ہائی پیشیا نامی خاتون جو ریاضی دان ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفی اور سائنسدان بھی تھی۔ سکندریہ کی ایک درس گاہ میں فلسفہ اور علم فلکیات پڑھاتی تھی اور فارغ اوقات میں زمین سمیت مختلف سیاروں کی حرکیات کے مسائل حل کرنے کی کوشش کیا کرتی تھی۔ وہ  کلاسک پیریڈ کے علوم اور شہر کی سب سے بڑی لائیبریری کی کتابوں کی حفاظت کرتی ہوئی سماجی و مذہبی شدت پسندی کے ہاتھوں نا حق ماری گئی۔ اسکندریہ جو تہذیب اور معشیت کا بہت بڑا گڑھ تھا اور ہزار سال تک مصر کا دارلحکومت رہا۔ یہ اندوہناک المیہ اس شاندار شہر کے وسط میں وقوع پذیر ہوا۔ اس خاتون کو مارنے والا ایک کٹر عیسائی تھا۔ چرچ سے لے کر مسجد تک آپ کو ایسے لاتعداد واقعات ملیں گے جو اینٹی تھیسز پہیش کرنے والوں کی دشمنی کی گواہی دیں گے۔


چرچ تو زوال پذیر ہو گیا اور آجکل ماضی کی غلطیوں پر نا صرف شرمندہ ہے بلکہ معافیاں بھی مانگ رہا 
ہے۔ لیکن ہم اس وقت تاریخ کے اسی موڑ پر کھڑے ہیں جہاں پانچ سو سال یا ہزار سال پہلے چرچ کھڑا تھا۔ لائن توڑنا اور فراہم کردہ تصور سے منہ موڑنا ہمارے یہاں جرم  اور گناہ ہے۔ میرا سوال ہے۔۔ جب آپ لوگوں کو روایت سے ہٹ کر سوچنے نہیں دیں گے۔ بولنے نہیں دیں گے۔ پڑھنے نہیں دیں گے۔ تجربات کرنے نہیں دیں گے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آپ کس طرح توقع رکھتے ہیں کہ ایسے سماج میں ترقی بڑھوتری اور ارتقائی عمل وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔۔ہم نے اپنی ایک سمت متعین کی۔ اپنے لیے ایک زاویہ نظر طے کیا اور باقی سب دروازے بند کر لیے۔ یوں ہم  تازہ ہوا اور نئی روشنی سے محروم ہو کر رہ گئے۔ ہم کچھ نیا  دیکھنے،نیا سننے ، نیا جانچنے، نیا پرکھنے اور نتیجتا کچھ نیا کرنے سے نابلد ہیں۔۔ ہم ہر شے، ہر بات اور ہر حقیقت کو مغرب کی سازش، جانبداری اور تعصب کا نام دے کر نہیں تال سکتے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ، دنیا کی بہترین تہذیب کے ضامن ہونے کے دعواہدار ہو کربھی ۔  کیمسٹری، الجبرا ،طب سمیت تمام سائنسی علوم  کے بانی ہو کر آج تہی داماں ہیں ۔ دنیا کی یونیورسٹیوں کی ریکنگ ہوتی ہے تو ہم اس لسٹ میں دور دور کہیں موجود نہیں ہوتے۔ وہ اس لیے کہ  ہم نے اپنے فرد کو روشن امکانات سے محروم کر کے اسکی سوچ پر تالے لگا رکھے ہیں۔ اس کے شکم میں نوالا تو ہے مگر ذہن کے طاقچے میں نئی روشنی کا چراغ نہیں ۔۔اقلیتوں کو تحفظ دینے میں ناکامی سے لے کر فرقہ واریت کی آگ میں جلنے تک کی بنیادی وجوہات فرد کی آزادی اور احترام آزادی کی ناکامی کے مقدمے میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔۔

جن اقوام نے متنوع سچائیوں کو افراد کی زندگیوں میں جگہ دی۔ اور فرد کو حصول علم کے لیے اور راہ جستجو کے انتخاب کے لیے آزاد چھوڑ دیا وہ علمی و فکری حوالوں سے ترقی یافتہ ہیں۔ انکی سوچ ، علم اور فکر مختلف ڈائمینشنز میں پھیلی ہے۔ یہ وہ معاشرے ہین جو فرد کی ذہنی وجسمانی آزادی اور اسکی فری ول کی حفاظت کے کسی نا کسی حد تک ضامن ہیں۔ متنوع اورآزاد ماحول کی فراہمی فرد کی  زہنی ترقی کی موجب ہے۔ اور یہی ان معاشروں کی مادی ترقی کا باعث بنی ہے۔کیونکہ  فکری تبدیلیاں ہی مادی تبدیلیوں کا ماخذ ہیں۔ ورنہ قدرتی وسائل کی کثرت اور افرادی دولت مل کر بھی سماجی و سائنسی ترقی برپا نہیں کر سکتی۔ نرگس موالوالا ہرگز نرگس موالوالا نہیں بن سکتی تھیں اگر اسکی فردی شناخت اور آزادی کا بندوبست نا ہوتا۔ کوئی تسلیم کرے یا نا کرے لیکن یہ سچ ہے کہ یہ بندوبست کم از کم پاکستان میں اسے میسر نا آتا کیونکہ یہاں کی سماجی پابندیاں کسی بھی فطین خاتون کی صلاحتیوں کو نگلنے کے لیے کافی ہیں۔ صادق خان کا انتخاب کرنے والوں نے اس سے نام، شجرہ، نسب، حلیہ یا مذہب تبدیل کرنے کا مطالبہ کرنے  کی ضرورت محسوس نہیں کی۔  یہ شخصی آزادی کی فراہمی، اس کے تحفظ اور مثبت ثمرات کی 
جاندار مثالیں ہیں۔

 so there is no development without cognitive development. Without cognitive 
development you can hardly  adopt new things but cant create them. And cognitive development is not seen in prison. It always requires freedom.


ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ فرد کی آزادی کے تصور کو ہمارے یہاں بطور گالی استعمال کیا جاتاہے۔ جیسے یہ معیوب ہو۔ اور اسکے حصول کی کوشش جرم ہو۔ اکثر فیس بک پر اسلامی پیجز اور مختلف پوسٹس نظر سے گزرتی رہتی ہیں۔ جنہیں پڑھ کر یہ تاثر ملتا ہے جیسے فرد کو آزادی ملتے ساتھ ہی معاشرے میں افرتفری، جرائم کی بھرمار، لوٹ کھسوٹ اور بے حیائی کا دور شروع ہو جائے گا۔ خصوصا اگر آزادی کا یہ لفظ عورت زات سے منسوب ہو تو یوں ردعمل آتا ہے جیسے آزادی ملتے ساتھ ہی عورتیں برہنہ ہو کر گلیوں میں نکل آئیں گی۔ ایسی بات کرنا نہایت نا معقول اور بات کرنے والے کے ذہنی دوالیہ پن کا اظہار ہے۔میری نظر میں یہ بات کرنا عورت کی توہین ہے۔ گویا عورت وہ نجس اور مخبوط الحواس  مخلوق ہے جسے مرد نے زبردستی کپڑے پہنا کر تہذیب یافتہ بنا رکھا ہے اور جیسے ہی پہناوے کا حق عورت کے پاس گیا وہ کپڑے پہہنے سے انکار کر دے گی۔ میں یہاں عورت کا دفاع نہیں کروں گی بس ایک چھوٹا سا واقعہ گوش گزار کروں گی۔ ایک صاحب جن کا تعلق ایک نامور مذہبی جماعت سے ہے۔ شادی شدہ ہیں۔ ستڈی ویزہ پر برطانیہ میں مقیم ہیں۔ایک دن انکا میسج آیا۔ میری گرل فرینڈ بن جاؤ۔ میں نے کہا محترم۔ آپ پاگل ہیں؟ برطانیہ کی کی خوبصورت،، داد نظارہ دیتی گوریوں کو چھوڑ کر آپ مجھ پر کیوں مہربان ہیں۔ وہ صاحب افسردگی سے گویا ہوئے۔ سوچا کچھ تھا اور نکلا کچھ۔۔۔۔ یہ گوریاں بہت عیار ہیں۔ لفٹ نہیں کرواتیں۔ جلدی دام میں نہیں آتیں۔۔۔ تو قارعین عورت جب اپنی تمام تر ذمہ داری کے ساتھ باہر نکلتی ہے یا نکلے گی تو اس کے بائیولوجیکل سسٹم میں کم ازکم اتنی ذہانت تو فیڈ ہے کہ وہ اپنے لیے مناسب چیزوں کا چناؤ کر سکے۔ اگر ایسا نا ہوتا تو انجلینا مرکل سینٹ کے اجلاس میں قابل اعتراض لباس  پہن کرجاتی  اور
ہیلری کلنٹن بھی فحش انداز سے الیکشن کمپین چلاتی۔

مرنا اور بعد ازمرگ اسکا حساب یقینا ضروری ہو گا۔ لیکن صاحب مرنے سے پہلے جینا اس سب سے زیادہ اہم ہے۔ فرد کی زندگی، اسکا معیار۔ بامقصد کائینات کے رازوں کو فتح کرتے ہوئے اذہان کی موجودگی کسی بھی سماج کی صحت مندی کے لیے اہم ہے۔ لیکن یہ تب تک ممکن نہیں جب تک ہم میں سے ہر شخص اپنے ہمسائے کو۔کولیگ اپنے کولیگ کو باپ اپنے بچے کو، دوست اپنے دوست کو، بھائی اپنے بھائی کو خود سے مختلف سوچنے اور کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ بطور فرد ہمیں فرد کی آزادی کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ اپنے اردگرد دیکیے افراد اپنی شخصی ازادی اور انفرادی شناخت کے لیے لشکر کی مانند آگے بڑھ رہے ہیں اگر ہم ڈیسنٹ طریقے سے انہیں راستہ نہیں دیں گے تویہ طے ہے کہ ہم انہیں روک نہیں پائیں گے
کیونکہ بغاوت ان کے اطوار سے عیاں ہے اور فتح انکی پیشانیوں پہ ثبت ہے





Tuesday, 19 January 2016

ریاستی بیانیہ تبدیل ہو رہا ہے

0 comments

بظاہر منتخب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں وقتاً فوقتاً باہمی رسا کشی کا گمان گزرتا ہے لیکن یہ گمان اب تک ’بے پر کی اڑانا‘ کے مصداق بے پرکی ہی ثابت ہوا ہے۔ یہ قیاس آرائیاں ، جن کو قصداً ہوا دی جاتی ہے، دراصل ماضی کی روایات کی نفسیاتی کڑی ہیں جس کا شکار اب تک ہماری سیاست رہی ہے۔ آمریت کی رسیا قوتوں کے لیے جمہوریت کا موجودہ تسلسل بدہضمی کا سبب بن رہا ہے کیونکہ کہ ان کے موقع پرست معدوں کو جمہوریت کی دوا موافق نہیں آتی۔ ماضی کی طرح ہوتا کچھ یوں ہے کہ جب عسکری اداروں اور جمہوری قوتوں کے درمیان ذرا سے اختلافات جنم لیتے ہیں تو یہ فصلی بٹیرے آمریت کو گود میں اٹھانے کے لیے تالی بجاتے ہوئے باہیں کھول دیتے ہیں اور یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے محض آمریت ہی عوامی مسائل کی اکلوتی مسیحا ہے۔ ان کا اپنا عالم یہ ہے کہ انہوں نے مذہبی منافرت اور سرحد پار کے عناد کو ملکی مسائل سمجھ لیا ہے اور عوام کو بھی زبردستی یہی باور کرانے پر مصر ہیں کہ اللہ لوکو ! تمھارے مسائل وہ نہیں جن کے لیے تم ووٹ دینے کے لیے قطار بنائے کھڑے ہو بلکہ تمھارے مسائل تو وہ ہیں جو ہم در و دیوار پر نقش کرتے ہیں۔ لیکن بدلتے ملکی حالات اور عوام کے ابھرتے سیاسی شعور نے ان جمہوریت مخالف طاقتوں کو واضح پیغام دیا کہ نہیں اب قوم ایسے تجربات کے لیے بالکل تیار نہیں۔ کچھ ہماری وردی والی سرکار نے بھی اب تک نہایت سمجھداری کا ثبوت دیا ہے اور تمام تر دھماچوکڑی سے کنارہ کش رہتے ہوئے مدبرانہ خاموشی سے ان شر پسند عناصر اور جمہوریت مخالف قوتوں کو لال جھنڈی دکھائی ہے ۔
امن و جمہور مخالف قوتیں اب بھی مختلف حربوں سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ کہیں آپ کو احمدیوں کے خلاف لن ترانیاں سنائی پڑ رہی ہوں گی تو کہیں شیعہ سنی فسادات کو ہوا دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ سب کسی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے بغیر ممکن نہیں۔ نہ ہی کوئی عام شخص ایسی مجرمانہ حرکت کی جرات کر سکتا ہے جب تک اس پیچھے ہلا شیری دینے والا مضبوط ہاتھ موجود نا ہو وہ بھی اس صورت میں جب کئی ماہ سے شر انگیز مواد کی تشہیر پر پابندی عائد ہے۔ کہیں ان قوتوں کو بھارت کی مخالفت کے مروڑ اٹھتے ہیں اور کہیں فتوی بازی کے ذریعے صدرِ پاکستان کے خالف مہم جوئی کی سعی کی جاتی ہے۔ جبکہ مہم کار بھی وہ ہیں جن کے اپنے پیٹ منافع خوری کے مقابلہ جات میں اول انعام یافتہ ہیں۔ مگر حالیہ عسکری و سویلین پالیسیوں سے یہ اشارے مل رہے ہیں کہ چالیس سال تک نظریاتی صحراو ¿ں کی خاک چھاننے کے بعد ہمیں اب ذرخیز فکری جزیرہ میسر آنے کو ہے جہاں کسی ایک مکتبہ فکر کی اجارہ داری نہیں ہو گی بلکہ ہر مکتبہ فکر کو بھرپور انداز سے اپنی فکر کے نا صرف اظہار بلکہ تشریح کا حق ہو گا اور ریاست ان کے اس حق کی حفاظت کرے گی.. یہی لبرل ازم کا نقارہ ہے. یہی زندہ اور وسیع القلب معاشروں کی پہچان ہے۔ جدید دنیا کی تہذیب ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ ہم اب رنگ، نسل، مذہب اور قومیت سے ابھر کر ایک متحد انسانی تشخص قائم کریں جو مستقبل میں دوسری دنیاو ¿ں کے ساتھ میل ملاپ میں ہماری پہچان بنے گا ۔.
آثار بتاتے ہیں کہ ہم بھی یہ سبق سیکھ رہے ہیں تب ہی ریاستی بیانیہ بہت خاموشی اور سلیقے سے بدل رہا ہے۔ پاکستانی معاشرہ ایک روشن خیال اور لبرل ازم کی روایات سے مزین نمونے کی طرف بڑھ رہاہے۔ گزشتہ ہفتے جس طرح احمدی برادری کے خلاف نفرت آمیز بینر کا سختی سے نوٹس لیا گیا اور ہر قسم کی شرانگیز تقریر و تحریر کی راہ روکنے کے لیے کارروائی کی گئی، یہ سب ٹھنڈی خوشبودار ہوا کے جھونکوں کی مانند تھا۔ ریاست ایک نئی قومی پالیسی کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے۔ اس بات کا خوشگوار احساس اس وقت شدت اختیار کر گیا جب کل ٹیلیویژن پر آئزک ٹی وی نامی چینل کی نشریات دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ چینل پچھلے دو دن سے مسیحی برادری کے ساتھ کرسمس منا رہا ہے۔ اپنے وطن کی اقلیتی قوم کو میسر یہ آزادی اور رواداری کی فضا دیکھ کر پوری قوم کا سر فخر سے بلند ہے۔
اب تک ریاستی بیانیہ داخلی طور پر تبدیل ہو رہا ہے۔ تبدیلی سست مگر پائیدار ہے( یہ دعویٰ اس امید کیا جا رہا ہے کہ پائیدار ہو) اس لیے اوپری سطح تک ثمرات پہنچنے میں تھوڑا وقت لگے گا۔ اس لیے معتدل قوتوں کو تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جن دوستو کو یہ گلہ ہے کہ احمدیوں کے خلاف لگے بینر کا نوٹس تو لیا گیا مگر بینر اتارا نہیں گیا۔ انہیں ریاست کی اس جرات پر کلمہ شکر ادا کرنا چاہیے کہ حکومت نے اس قبیح فعل کو جرم تو گردانا۔

جماعت اسلامی کی فرسودہ سیاست

0 comments
مودی کی مذہبی منافرت پر مبنی سیاست پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک صاحب علم شخصیت نے فرمایا۔ ہمیں بلا جھجک اور بلا مبالغہ یہ دعویٰ کرنا چاہیے کہ پاکستانی عوام کو یہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے اپنی ستر سالہ تاریخ میں کبھی کسی مذہبی جماعت کو ووٹ دے کر پارلیمنٹ میں نہیں بھیجا۔ یوں پاکستانی عوام بھارتی عوام سے زیادہ عقل مند اور سمجھدار واقع ہوئے ہیں۔ کہنے کو یہ بات معمو لی اور مذاق لگتی ہے۔ رجعتی نظریات کے متوالے اسے تعصب نظری سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔مگر سرحد کے دونوں جانب کی بنیاد پرست جماعتوں کی حالیہ حرکات و سکنات اس نقطہ نظر کو تقویت دینے کے لیے کافی ہیں کہ مذہبی جماعت کا سیاسی چناو ¿ انتشار اور پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے اور ایک گروہ کے نظریات کو کل پر لاگو کرنا مسائل کو جنم دیتا ہے۔ مودی نے پچھلے چند مہینوں میں جو گل کھلائے اس کے ثمرات آنا شروع ہو گئے ہیں۔ عوامی ردعمل بہار الیکشن میں شکست کی صورت میں سامنے آیا۔ عالمی سطح پر بھی وزیراعظم کو سبکی کا سامنا ہے۔ برطانیہ میں مودی کے خلاف مظاہرے اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ کہیں کہیں سے ہندو طالبان کا لقب بھی عنایت ہوا چاہتا ہے۔
سرحد کے اِس پار موجود پاکستان کی سب سے نمایاں مذہبی اور متحرک سیاسی جماعت، جماعت اسلامی کے رخساروں پر بھی آج کل مودی ازم کے رنگ کھل رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے حالیہ مرحلے میں عبرت ناک شکست کے بعد جماعت اضطراب اور بوکھلاہٹ کا شکار نظر آرہی ہے۔ پچھلے دنوں پہ در پہ ہونے والے چند معمولی مگر اہم واقعات نے جماعت اور اس کے کارکنوں کی محدود سیاسی بصیرت، غیر معتدل رویوں اور تعصبانہ نفسیات کو عیاں کیا ہے۔ کراچی میں طالبات پر تشدد کرنا قابل مذمت فعل تھا جس کا جمعیت و جماعت کے پاس کوئی معقول جواز نہیں۔ اگرچہ اس واقعے کی تردید کی گئی مگر سمجھنے والے سمجھتے ہیں اور جاننے والے جانتے ہیں کہ پہاڑ بنانے والوں کو رائی درکار ہوتی ہے۔ اس رائی کا پہاڑ بنانے والوں کے لاشعور میں جمیعت کا سابقہ ریکارڈ قوی امکان کی صورت میں موجود تھا جس کے مطابق ماضی میں جمیعت کے خود ساختہ اصلاحی کارکنان لڑکے لڑکیوں پر تیزاب پھینکا کرتے تھے. لہذا کچھ بعید نہیں کہ جس خبر کو پروپیگنڈا کہہ کر مسترد کیا جا رہا ہے یہ حال یا مستقبل کی حقیقت ثابت ہو۔
کراچی کی ہی ایک تقریب میں امیرِ جماعت کی شعلہ بیانیاں بے ربط اور بے وزن معلوم ہوئیں۔موصوف جہاں قائد و اقبال کو جماعت کی رکنیت سے نواز رہے تھے وہیں انہوں نے یہ کہہ کر متعدد پاکستانیوں کی شہریت کینسل کرنے کی کوشش کی کہ سیکولزم کے خواہش مند ملک چھوڑ کر کہیں اور جا بسیں۔ اس قسم کے بیانات پس پردہ چھپے تعصب، آمریت و بادشاہت کی ممکنہ تمنا اور مذہبی شدت پسندی کا عندیہ دیتے ہیں۔ ایسا غیر ذمہ دار بیان دینے سے پہلے امیر جماعت کو ایک دفعہ یہ ضرور سوچنا چاہیے تھا کہ یہ دھرتی جتنی رجعت پسندوں کی ہے اتنی ہی جدت پسندوں کی بھی ہے۔ جدت پسندوں کے اسلاف بھی اسی دھرتی کی گود میں مدفن ہیں۔ صدیوں سے یہاں بسنے والے لوگ جنہیں آزادانہ سوچنے، سمجھنے اور اپنی طرز زندگانی کا انتخاب کرنے پیدائشی حق حاصل ہے آپ کس اصول کے تحت انہیں یہ حکم نامے جاری کر رہے ہیں۔ آپ ایک جمہوری عمل کے پیروکار ہیں۔ اس جمہوری سسٹم کے تحت ہر الیکشن میں ٹکٹ جاری کر کے ووٹ لینے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اس لیے کم از کم آپ کو جمہوریت کا بنیادی اصول معلوم ہونا چاہیے کہ مخالفین سے آپ بھلے اتفاق کریں یا نا کریں مگر ان کے موقف کا احترام کیے بنا اور ان کے حق رائے دہی کو تسلیم کیے بغیر جمہوری عمل پورا نہیں ہوتا۔ جمہوریت میں ڈنڈا نہیں مکالمہ کارگر ہوتا ہے۔ مکالمے کے ذریعے اپنا موقف جیتیے، عوام کو قائل کیجئے۔ اپنے حق میں ذہن سازی کیجئے۔ ووٹ لیجئے، اقتدار میں آئیے اور اسے قانون کی شکل میں لاگو کر دیجئے۔ ڈنڈے کے زور پر اپنے مطالبات منوانے کو لغت جدید میں طالبانیت کہتے ہیں۔
دو دن پہلے کی ایک خبر مزید مایوس کن تھی۔ جب معلوم پڑا کہ جماعت نے کے پی کے بوائز سکولوں میں پیٹی ٹراوز کو بطور یونیفام لاگو کرنے کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ یہ نظام تعلیم کو امریکن کرنے کی کوشش ہے لہٰذا بوائز کا ڈریس کوڈ شلوار قمیض رہے گا۔ اگر یہ مخالفت مذہب کی محبت میں ہے تو عرض کرنا چاہوں گی کہ اسلام کا ڈریس کوڈ شلوار قمیض نہیں ہے۔ نہ ہی اسلام کو پینٹ کوٹ پہ کوئی اعتراض ہے۔ اس لیے جماعت کا یہ اعتراض قومی نہیں، ذاتی مسئلہ ہے۔ مانند پڑتی سیاست کو پھر سے چمکانے کی یہ کوشش بہت سطحی ہے۔ اس دقیانوسی ہتھکنڈوں سے شاید آپ چند شر پسند عناصر کی حمایت تو حاصل کرلیں مگر لمبے عرصے تک یہ ہتھکنڈے ساتھ دینے کی سکت نہیں رکھتے۔ جماعت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عوام کا مسئلہ رجعت پسندی نہیں ہے. ہمارے مسائل بہت جینوئن اور سنجیدہ ہیں جو سطحی نعرہ بازی اور کھینچا تانی سے حل ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ عوام آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ برق رفتاری سے آگے بڑھتی دنیا سے قدم ملانا چاہتے ہیں جبکہ آپ انہیں پچھلی جانب کھینچنے پر مصر ہیں۔
جماعت اسلامی ملک کی واحد جماعت ہے جو حقیقی معنوں میں جمہوری نظام رکھتی ہے۔ جماعت میں باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں جس میں خالص جمہوری طریقے سے امیر منتخب کیا جاتا ہے۔ ایسی مثال کسی دوسری پارٹی میں نہیں ملتی۔ اس کے باوجود جماعت سیاست کے افق کا ڈوبتا ہوا ستارہ بنتی جا رہی ہے۔ تلملاہٹ اور غیر معیاری اور غیر جمہوری رویہ اپنانے کی بجائے جماعت کو اپنی شکست کی اصل وجہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں سنجیدگی سے اس سوالات پر غور کرنا چاہیے کہ بہترین جمہوری نظام، خدمت خلق اور ایماندار امیدواروں کی نامزدگی کے باوجود کیا وجہ ہے جو پاسکتانی عوام ہر دفعہ انہیں رد کرتے ہیں؟ کہیں ان کی سیاست کی عمارت غلط بنیادوں پر تو استوار نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پارٹی ایجنڈے عوامی مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے ان نظریات پر قائم کیے گئے ہیں جو عوامی مسائل کے حل تجویز کرنا تو درکنار کسی طور پر عوامی مسائل کی تعریف پر ہی پورا ہی نہیں اترتے؟

جمہور ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

0 comments

سالہا سال سےعوام کو مائل بہ مٹر گشت کرنے کے لیے جس شے کو بطور چارا استعمال کیا جاتا ہے اسکا نام انقلاب ہے۔ انقلاب عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لفظی معنی ایک حالت کی جگہ اس کی متضاد حالت کی صورت حال کا ظہور کے ہیں۔ مفہوم کے اعتبار سے انقلاب کا مطلب اچانک اور یک مشت تبدیلی ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ میں انقلاب سے زیادہ شاید ہی اور کوئی دوسرا لفظ استعمال کیا گیا ہو۔ اسے استعمال کرنے والے مداری اس کی افادیت سے بھی خوب واقف ہیں۔ تب ہی ذاتی مفادات کے لیے بار بار اپنی پٹاریوں سے اس چارے کو برآمد کرکے عوام کی فکری سمت کو پاتال میں دھکیلنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
چونکہ انقلابی تبدیلی اچانک واقع ہوتی ہے اس لیے اسے برپا کرنے کے لیے کم محنت اور کم وقت درکار ہوتا ہے۔ یوں یہ لفظ کاہل یا کم مشقت کے ساتھ زیادہ وقت صرف کیے بنا راتوں رات کایا پلٹنے کے خواہش مندوں کے لیے بہت پرکشش ہے۔ ہم اپنے عوام کا جائزہ لیں تو بد قسمتی سے ہم بھی مجموعی طور اسی قسم کی تبدیلی کے رسیا واقع ہوئے ہیں۔ہم صبح صادق سے پہلے پہلے امیر ہونے کا خواب دیکھتے ہیں اس لیے انعامی پر چیوں کے نام پر دھوکا کھاتے ہیں۔ کسی قسم کی ورزش کے بغیر صرف کیپسول اور بھوک کے ذریعے سات دن کے اندر اندر ایک سو اسی پاو ¿نڈز وزن گھٹانا چاہتے ہیں۔ پھر سات دن بعد یا تو ہم ہسپتال پہنچ چکے ہوتے ہیں یا ہڈیاں ماس چھوڑ دیتی ہیں۔ یہی حال ہمارا سیاسی سطح پر ہے۔ ہمیں انقلاب کا نعرہ بہت بھاتا ہے۔ بے عملی میں لپٹا اسلامی انقلاب، کام چوری میں گندھا معاشی انقلاب اور چاپلوسی کی ملمع کاری سے آراستہ بوٹ مارکہ انقلاب۔ جب کبھی جس بھی سمت سے یہ صدا بلند ہوتی ہے ہم بنا سوچے سمجھے اس جانب لپکتے ہیں۔ انجام کار خواری اور انارکی کے سوا ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔
درحقیقت ہمارے یہاں انقلاب کا تصور بہت بڑے فکری مغالطے پر قائم ہے۔ اس کی مارکیٹنگ کرنے والے وہ لوگ ہیں جو سخت ذہنی و جسمانی جفاکشی سے گھبراتے ہیں اور شارٹ کٹ کے متلاشی رہتے ہیں . عملی جدوجہد کی راہ اختیار کرنے کی بجائے یہ لوگ محض تقریر و تبلیغ سے نظام تبدیل کرنے پر زور دیتے ہیں. ان لوگوں نے یہ تاثر قائم کر رکھا ہے جیسے انقلاب بہت ہی مثبت شے ہے۔ اس کے آتے ہی ہر طرف شانتی پھیل جاتی ہے، تمام مسائل چٹکی بجاتے حل ہو جاتے اور راوی چین ہی چین لکھنے لگتا ہے۔ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ انفرادی و گروہی سطح پر جدوجہد کے بغیر اور اصلاحات کے عملی اطلاق کے بنا نظام و مقام میں کسی قسم کی بہتری ممکن نہیں. اس لیے انقلاب کوئی مثبت تبدیلی نہیں۔ یہ تعمیری بھی نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک تخریبی عمل ہے۔ چونکہ انقلاب اچانک تبدیلی ہوتی ہے لہذا نا تو یہ پائیدار ہوتی ہے اور نا ہی سود مند۔ یہی تبدیلی اگر انسانی سماج میں ہو تو نقصانات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ حالیہ دو صدیوں میں دنیا میں دو بڑے انقلابات دیکھنے کو ملے۔ انقلاب فرانس اور ایرانی انقلاب۔ دونوں انقلابات اپنے ساتھ تخریب، انارکی، جبر اور تشدد لے کر آئے جس نے انسانی تاریخ کے چہرے کو لہو رنگ کیا۔ ایران تو اب بھی ریاستی جبر کے زیر اثر معاشرتی و سیاسی جمود کا شکار ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر انقلابی تغیر سود مند نہیں تو کون سا تغیر ہے جو انسانی سماج کو بہتری اور تعمیری روش پر گامزن کر سکتا ہے؟ جواب ہے ارتقا۔ جی ہاں ارتقا کائنات کی بنیادی سر گرمی ہے۔ یہ جنگل کے ویران غار میں پڑے بے جان پتھر سے لے کر انسان نما انتہائی پچیدہ ذی روح میں ہر لحظہ رواں دواں ہے۔ اگرچہ یہ سست اور مشقت طلب تغیر ہے مگر اسکا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں خامیاں جھڑتی جاتی ہیں اور خوبیاں جڑتی جاتی ہیں۔ اس عمل میں بچتا وہ ہے جو بہترین ہوتا ہے اس لیے یہ پائیدار ہوتا ہے اور دیر پا بھی۔ انسانی سماج بھی ارتقا پذیر ہے۔ ہماری روایات، عمرانیات، سیاسیات سمیت دیگر تمام علوم و شعبے ارتقا کی چکی میں پستے ہوئے ہم تک پہنچے ہیں۔ یہ ماضٰی سے بہتر ہیں اور آئندہ اس سے بہترین ہوں گے۔
جمود اور ارتقا ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ان میں سے ایک کی موجودگی میں دوسرا قطعا واقع نہیں ہوتا۔ چونکہ ارتقا خود کار عمل ہے اس لیے یہ آزاد معاشرت، معاشیات اور سیاسیات جیسے خام مال کی موجودگی میں بغیر کسی بیرونی قوت کے اپنے جوہر دیکھانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ دوسری طرف جمود کے لیے جبر درکار ہے کیونکہ یہ غیر فطری ہے۔ انسانی سماج کے وہ شعبے جہاں تسلسل ، سرگرمی، گہماگہمی، انسانی ذہنی و جسمانی مشقیں ملوث ہوں وہاں ممکنہ ارتقا کو روکنے کے لیے اگر جبراً جمود قائم کر دیا جائے تو یہ آمریت اور فاشزم کو جنم دیتا ہے۔ آمریت یا فاشزم کو انسان دوست سمجھنا ایک اور فکری مغالطہ ہے۔
پاکستان میں گزشتہ تمام ادوار میں آمریت کا دور دورا رہا ہے (ضیاء دور کو فسطائیت کا عہد کہنا بھی درست ہو گا کیونکہ تمام تر مشینری کو ارباب اختیار نے اپنے مذموم عزائم کے لیے استعمال کیا) جس میں سیاسی و سماجی سرگرمیوں کو جبراً تعطل کا شکار بنایا گیا۔ جس کے نتیجے میں جمہوری عمل جمود کا شکار رہا۔سیاست بہترین معاشرتی سر گرمی ہے جو عوام کو ذہنی طور پر پختہ اور توانا رکھتی ہے۔ ارتقائی عمل کے تحت عوام ہر دفعہ گزشتہ اناڑی پن اور غلطیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے درست انتخاب کے ذریعے بہتر سے بہتر فیصلے کرنے کی قابلیت حاصل کرتے ہیں۔ دوسری طرف سیاستدان کی شخصی تراش خراش بھی متوازی جزوی عمل کے طور پر جاری رہتی ہے۔ لیکن گزشتہ آمریت زدہ دور نے جوہڑ کے ساکن بدبودار پانی کی طرح ایک جامد سرانڈ مارتا ہوا مفلوج معاشرہ تشکیل دیا جس میں ارتقا مفتود تھا۔ تسلسل بہتری ناپید تھی۔ آگے کی طرف حرکت نہیں تھی۔ نتیجہ آج سامنے ہے۔ ہماری فکری، سیاسی، معاشرتی اور معاشی بنیادیں کھوکھلی ہیں۔ گزشتہ چالیس برس میں ہماری زمین کی بانجھ کوکھ نا بڑے سیاستدان پیدا کر سکی ہے، نا بڑے فنکار اور نا ہی عالمی سطح کے دانشور۔
لیکن گزشتہ بیس برس کے جبر، انارکی اور انتشار کے بعد جمود کے اس جامد جوہڑ میں سعی کی ہلکی سی جنبش اب امڈتی ہوئی محسوس ہو ئی جب نواز شریف نے پاکستان کے لبرل اور جمہوری مستقبل کی پیش گوئی کی۔ مندرجہ بالا طویل متن کے تناظر میں وزیراعظم کا یہ بیان بہت اہم ہے۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں واضح برتری سے ان کا سیاسی طاقت پر یقین بحال ہوا ہے۔یقینا یہ طاقت انہیں عوام نے فراہم کی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں اکثر یہ ہوائی اڑائی جاتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جسے اکثر آمریت کے روپ میں ظہور کا شرف حاصل ہوتا ہے قدامت پسند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار کے ایونوں کا راستہ ناپتے ہوئے قدامت پسند فصلی بٹیروں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو انقلابی جھنڈا لہراتے ہوئے عشروں سے عوام کو غیر متعلقہ ،غیر موثر اور خیر اہم ریاستی جز خیال کرتے ہوئے چند افراد کو ملت کے ستارے سمجھنے اور سب سمجھانے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ جمہوریت کو ناقص اور غیر موثر کہہ کر جمہوری تعطل کا خیر مقدم کیا. ان کے اصولی موقف کے مطابق سیاست سمیت معاشرے کے تمام شعبوں کا ایک مخصوص فکر کے سامنے سرنگوں ہو کر آمریت کی چھتری تلے پناہ لینے میں ہی ملک و ملت کی عافیت ہے۔ وزیر اعظم کامذکورہ بیان ان کے ارمانوں پر اوس بن کر پڑا ہے۔ انہیں رک کر اس مرحلے پر اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسانی ترقی کا سرچشمہ جبر و جمود نہیں تنوع و ارتقا ہے۔ عوامی طاقت کے حصول کا سرچشمہ بوٹ نہیں ووٹ ہے۔ جب یہ طاقت حاصل ہوتی ہے تو پھر جمود اور جبر کو زیادہ دیر قائم نہیں رکھا جاسکتا۔ پھر ارتقا شروع ہوتا ہے۔ذہنی غلامی سے ذہنی آزادی کی طرف.... تنزلی سے عروج کی طرف.... ۔ آمریت سے جمہوریت کی طرف اور قدامت پسندی سے روشن خیالی کی طرف۔ انتخابی عمل کے حالیہ تسلسل نے مختصر سے وقت نے جمہوریت جیسے ارتقائی عمل کی پائیداری اور اس کے جاندار ہونے کی گواہی دے دی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے جمود ٹوٹ رہا ہے. وزیراعظم کا حالیہ بیان اس کی ٹھوس شہادت ہے۔

اردو ہے جس کا نام۔۔۔

0 comments

اردو کے حق میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد دو قسم کے لوگ صدمے کا شکار ہوئے۔ ایک وہ جنہیں انگریزی سے انس ہے۔ یہ طبقہ انگریزی کو جدید علوم کا منبع خیال کرتا ہے اس لیے سمجھتا ہے کہ اردو کا نفاذ ہمارے علمی و تحقیقی معیار کے مزید انحطاط کا باعث بنے گا۔ کسی حد تک ان کی پریشانی بجا ہے کیونکہ بطور سائنس کی طالبہ اور استاد، میں ذاتی طور پر یہ سمجھتی ہوں کہ اردو میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے جدید علوم کو جذب کرنے، لاگو کرنے اور آگے منتقل کرنے کی سکت نہیں۔ ویسے بھی دنیا کا زیادہ تر سائنسی علم انگریزی زبان میں ہے جس تک بذریعہ اردو رسائی شاید ممکن نہیں۔ اس لئے خدشہ ہے کہ کلی طور پر اردو اختیار کرتے ہی ہم سائنسی علوم کے منبع سے محروم ہو جائیں گے۔
اردو کے حق میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر سوگوار ہونے والے دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو علاقائی زبانوں کا دم بھرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے بلکہ ہمیشہ سے مطالبہ رہا ہے کہ صوبائی سطح پر سکولوں، کالجوں اور دفتروں میں صوبائی زبانیں نہ صرف لاگو کی جائیں بلکہ ان کی ترویج کے لیے خصوصی انتظامات ہونے چاہیں۔عرض ہے کہ جب تمام صوبوں کے لوگوں کو آپس میں جوڑنے اور قریب لانے کے لیے ہماری قومی زبان اردو زندہ ہے تو صوبائی زبانوں کی آڑ میں لوگوں کو الگ رکھنا بلکہ ان میں دوریاں پیدا کرنا کہاں کی دانائی ہے؟ لہذا یہ مطالبہ غیر حقیقی معلوم ہوتا ہے۔
زبان و ثقافت کے عروج و زوال اور تنوع کو سمجھنے کے لیے ہم فطری عوامل و مظاہرکا جائزہ لیتے ہیں۔ تاریخ میں جھانکنے پر ہمیں یہ ادراک ہو گا کہ زبان وثقافت کا جو شاندار تنوع ہمیں اس وقت دنیا میں دکھائی دیتا ہے یہ ہمیشہ سے نہیں تھا۔ یہ وقتی ضرویات، بندشوں اور مجبوریوں کی پیداوار ہے۔ زمانہ قدیم میں اکثر خطوں کے لوگ آمدو رفت کے محدود وسائل کی وجہ سے دوسرے خطوں سے تقریباً کٹے ہوئے تھے۔ایسی صورت میں ان خطوں کے افراد نے مقامی آب و ہوا، ضروریات زندگی اور ان ضروریات کی تکمیل کے لیے میسر لوازمات کے تحت رہن سہن اختیار کیا۔ جس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ ہر خطے کی مخصوص ثقافت اور زبان ظہور پذیر ہوئی جو دوسرے علاقوں سے مختلف تھی۔ ایک سادہ سی مثال سے اس کو مزید بہتر انداز سے سمجھتے ہیں۔ اگر ایک وسیع و عریض جھیل کے وسط میں بسنے والے مینڈکوں میں سے چند مینڈک کسی حادثے میں اپنے گروپ سے بچھڑ جائیں اور کسی دلدل میں جا پھنسیں۔ اگر وہاں انہیں آئندہ کئی نسلوں تک زندہ رہنے کا موقع مل جائے تو لمبے عرصے کے بعد وہ بالکل ایک نیا طرز زندگی لے کر ابھریں گے جو ان کے آبائی گروپ سے کسی نا کسی حد تک مختلف ہو گا کیونکہ دلدل کی آب وہوا جھیل سے مختلف تھی اور انہیں بقا کی خاطر مقامی آب و ہوا سے مطابقت پیدا کرنا پڑی جس کے نتیجے میں نہ صرف انکا رنگ اور ہیئت بلکہ عادات و اطوار سمیت افزائش نسل کے طریقے بھی بدل گئے۔ بالکل اسی طرح کے فطری مظاہر ماضی میں انسانی آبادیوں پر بھی اثر انداز ہوئے. انسانوں کی مقامی ماحول سے مطابقت ثقافت کی صورت میں ظاہر ہوئی اور نتیجتاً ایک ہی خطے کے ایک ہی ملک کے ایک ہی صوبے کے مختلف علاقوں میں مختلف ثقافتیں اور مختلف زبانیں ظہور پذیر ہوئیں. یہ وقتی تقاضا تھا اور ناگزیر عمل تھا۔ نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ ثقافت زبان کا منبع ہے اور زبان ثقافت کا واسطہ ہوتی ہے۔ گویا ثقافت اور زبان لازم و ملزوم ہیں اور یہ دونوں ہمارے بیرونی عوامل کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ کسی بھی دیہی علاقے کی زبان کے الفاظ، محاوروں، جملوں اور لوک گیتوں پر پیشہ زراعت کی چھاپ ہوتی ہے۔ شہری علاقوں کی اصطلاحات ان علاقوں کے لوازمات سے اخذ شدہ ہوتی ہیں.
موجودہ عہد اور مستقبل بعید پہ نظر دوڑائیں تو معاملہ ماضی کے برعکس ہوتا دکھائی آتا ہے۔ صدیوں سے الگ خطے جدید اور تیز تر ذرائع آمد ورفت اور مواصلاتی نظام کے ذریعے اب جڑ رہے ہیں۔ دنیا گلوبل ویلج بن گئی۔ جس کسی نے جانے انجانے میں یہ بات کہی، اس نے مستقبل کی درست پیش گوئی کر دی۔ ہم سب مجموعی طور پر ایک عالمی ثقافت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ نیشنل جیوگرافک میگزین کے ایک آرٹیکل کے مطابق ہر چودہ دن میں ایک زبان مر رہی ہے اور اس صدی کے اختتام تک زمین پر بولی جانے والی کل سات ہزار زبانوں میں سے تقریباً نصف صفحہ ہستی سے معدوم ہو جائیں گی۔اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ زبانیں کیوں مر رہی ہیں جب کہ ان کے بولنے والے زندہ سلامت ہیں؟ وجہ عیاں ہے. اقوام عالم یکجا ہونے جا رہی ہیں۔ یکتا عالمی زبان و ثقافت کی طرف ہونے والی فطری پیش قدمی کے حق میں کیا یہ شہادت کافی نہیں؟ اگر نہیں ہے تو اور سنیے۔ علاقائی زبانوں کے حق میں نعرے بلند کرنے والے ہمارے ثقافت کے محافظ جیالوں کو اپنے زیب تن کی ہوئی ٹائی کوٹ اور جینز پہ نظر ثانی کرنی چاہیے اور خود سے سوال کرنا چاہیے کہ یہ لباس ترکی سے لے کر جنوبی ایشیا تک اور امریکہ سے لے کر افریقہ تک سب کا پسندیدہ لباس کیوں بنتا جا رہا ہے؟ انہیں اپنے گھروں سے بلب، اے سی اور فریزر نکال کر لالٹینیں اور گھڑے رکھوانے پہ غور کرنا چاہیے۔سمارٹ فون ترک کرکے دوبارہ کبوتر پالنے چاہئیں۔ یہ مذاق ہے نا طنز۔ صرف یہ باور کروانا مقصود ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کا طرز زندگی تبدیل ہو مگر ثقافت محفوظ رہے؟ یہ بالکل غیر منطقی ہے۔کمپوٹر، لیپ ٹاپ، ٹویٹر، اے سی اور مرسیڈیز جیسی اشیا کو جن کے آپ مزے لوٹتے ہیں اپنی علاقائی زبان میں اپنے بچوں میں کس طرح متعارف کروائیں گے؟ اگر متعارف کروانے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو جب آپ کسی کام کے لیے یا روزگار کے لیے اپنے ہی ملک کے کسی دوسرے صوبے کی طرف ہجرت کریں گے تو کیا عالم ہو گا۔ کیا یہ ہمارے ان بچوں پہ ظلم نہیں جنہیں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پچیدہ قسم کے علوم بھی جذب کرنے ہیں، قومی و بین الاقوامی سطح پر اپنا سکہ بھی جمانا ہے۔ جمود توڑ کر آگے بھی بڑھنا ہے اور ہم ہیں کہ ان کے گلے میں علاقائی زبانوں کا طوق ڈال کر انہیں ہجوں، تلفظ کی ادائیگی اور لغت میں ہی الجھائے رکھنے پہ مصر ہیں۔ وہ کیا سیکھ پائیں گے۔جو سیکھیں گے اس کا معیار کیا ہوگا۔ حقیقی دنیا میں اس کے اطلاق کی نوعیت کیا ہوگی۔ وہ ہماری نسلوں کو پیچھے لے جائے گا یا آگے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر ہمارے زبان دانوں اور دانشوروں کو اپنے مفروضات کی بنیاد رکھ کر اپنے مقدمات پیش کرنے چائیں۔
اس سارے منظر نامے کے بعد اگر اردو کی ترویج کا سوال رکھا جائے تو سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرنا ہی بہتر حکمت عملی ہے۔ کیونکہ یہ زبان ہمیں ایک قومی دھارے میں لانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ اب ہم صوبے یا علاقے بن کر بہتر زندگی کی طرف پیش قدمی نہیں کر سکتے۔ یہ دور حاضر کے تقاضوں کے منافی ہے۔ باقی اقوام کی طرح ہمیں بھی لوگوں کے مختلف گروہوں سے ایک معقول قوم کی صورت میں ڈھلنے کی ضرورت ہے جہاں سے ہم عالمی ثقافت کی طرف خوش اسلوبی سے گامزن ہو سکیں گے۔ اردو کو بطور قومی زبان اور انگریزی کو بطور عالمی زبان اپنانے میں ہی حکمت ہے۔ جن مفکروں کو اردو کی عدم بلوغت کے بارے میں تحفظات ہیں وہ بجا ہیں۔ اردو کی عمر کم ہے۔لغت میں جدت اور تنوع کی کمی ہے۔ رسم الخط کی پچیدگی کا مسئلہ ہے۔ مگر چند ٹھوس اقدامات کے ذریعے ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ابھی ہمیں اس بات پہ فخر محسوس کرنا چاہیے کہ ہماری قومی زبان دنیا کی پانچویں بڑی زبان ہے۔

سیکولرازم سے دشمنی کیوں؟

0 comments

مذہب کی سیاست سے علیحدگی کے نعرے کو عمومی طور پر مذہب دشمنی اور تعصب پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے جو سراسر غلط فہمی پر مبنی رویہ ہے۔ مذہب کی سیاست سے علیحدگی کا مفہوم بہت سادہ اور آسان فہم ہے جسے مغالطوں اور پروپیگنڈے نے اب تک بہت پیچیدہ بنا کر پیش کیا ہے۔ مذہب کی سیاست سے علیحدگی، جسے عرف عام میں سیکولرازم کہتے ہیں، کا مطلب غیر جانبدار طرز حکمرانی ہے جس میں حکومت ہر طرح کے مذہبی تعصبات سے بالاتر ہو کر خالص انسانی بنیادوں پر قوانین وضع کرتی ہے جو معاشرے کے تمام افراد کو عدل و انصاف پر مبنی طرز زندگی بخشتے ہیں۔
آئین و قوانین میں مذہبی احکامات کی ملاوٹ جہاں ایک مذہبی گروہ کو من پسند جانبداری کے قانونی راستے فراہم کرتی ہے، وہیں ملک کے باقی افراد کے حقوق غصب کرنے کے قوی امکانات پیدا کرتی ہے۔ چونکہ قوانین افراد کے ہاتھوں اطلاق کے مراحل طے کرتے ہیں اس لیے ان خدشات کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ افراد ان قوانین کو اپنی منشا کے مطابق لاگو کرنے کی کوشش کریں گے۔ قوانین کی بنیاد میں موجود مخصوص رحجانات اور یک طرفہ جھکاؤ منتظمین کو ایسا کرنے کی حجت فراہم کرے گا۔ یوں مذہبی ریاست کسی نا کسی صورت میں شہریوں سے امتیازی سلوک روا رکھنے کی سزاوار ہو گی جو جدید اقوام کا طرہ امتیاز نہیں ہے۔ یہ دعویٰ کرنا بہرحال ممکن نہیں کہ مذہبی پیشوا غیر جانبدار ہوتے ہیں۔ تاریخ میں ہمیں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔
سیکولرازم کے خلاف زہر افشانی نے لوگوں کے رویے کو اس طرح سے تشکیل دیا ہے کہ وہ اسے مذہب کے خلاف مہم جوئی سے گمان کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت اس کے الٹ ہے۔ سیکولرازم کسی ایک مذہب کی اجارہ داری کو رد ضرور کرتا ہے مگر ساتھ ہی وہ تمام مذاہب کو تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ بیشتر ترقی یافتہ ممالک سیکولر طرز حکمرانی کے تحت چل رہے ہیں جن کے بارے میں ہمارا دعویٰ ہے کہ وہاں اسلام تیزی سے پنپ رہا ہے۔ سیکولر طرز حکومت( جو ہماری ڈکشنری میں مذہب دشمن ہے) میں یہ کیونکر ممکن ہے؟ اگر یہ مان لیا جائے کہ سیکولرازم مذہب دشمن ہے اور ساتھ ہی ہم ایسے اعدادوشمار پیش کریں جہاں مذہب سیکولرازم کے سائے تلے پنپ رہے ہوں تو اس کی منطقی توجیہہ کیا ہو سکتی ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ ان دو دعووں میں سے ایک غلط ہے۔ فی الوقت پہلا دعویٰ غلط تسلیم کر لیا جائے تو ہمیں یہ دعویٰ کرنا پڑے گا کہ سیکولر معاشرے مذہبی بنیادوں سے ماورا ہو کر افراد کو برابری فراہم کر رہے ہیں جہاں لوگ ذہنی و جسمانی طور پر اپنا راستہ چننے میں آزاد ہیں اور یہ آزادی انہیں سیکولر حکومت فراہم کرتی ہے. ایک لمحے کے لیے فرض کریں کہ اگر وہاں کا طرز حکومت عیسائیت پر مبنی ہوتا تو کیا تب بھی ہم اسلام کے فروغ کے اعدادوشمار اتنے ہی فخر سے پیش کر پاتے؟ میرا خیال ہے نہیں۔ کلیسا کے جاری کردہ مذہبی احکامات اور پابندیوں کے سائے تلے یہ ممکن ہی نہ ہو پاتا۔ یہ سیکولرازم ہی ہے جس نے تمام شہریوں کو آزادی دی اور انہیں قانون کے دائرے میں رہ کر اپنی زندگیاں گزارنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا۔ وہاں کا پرسکون، تحفظ کے احساسات سے لبریز اور آزاد ماحول ہی ہے جس کی کشش ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں افراد کو ان ممالک میں کھینچ لاتی ہے۔ یہ لوگ وہاں یونیورسٹیوں میں تعلیم پاتے ہیں، روزی کماتے ہیں اور آزادی سے جیتے ہیں۔ ان تمام مراحل کے دوران کہیں بھی انہیں اپنے معاشرتی یا مذہبی حقوق غصب ہونے کا ڈر نہیں ہوتا۔بلکہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ اپنے ممالک سے زیادہ ان معاشروں میں زیادہ اطمینان اور تحفظ محسوس کرتے ہوں گے۔
آئینی اور حکومتی سطح کے ساتھ ساتھ کسی حکمران کا انفرادی سطح کا مذہبی تعصب بھی کس طرح معاشرے میں انتشار لاتا ہے اسکی زندہ مثال بھارت میں مودی کے حکومتی کارناموں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ سیکولر آئین ہونے کے باوجود وزیراعظم کی ذاتی سوچ معاشرے کو پراگندہ کر رہی ہے۔ کہیں گائے کے گوشت پر پابندی لگائی جا رہی ہے اور کہیں لوگوں کے ذاتیات کے پیمانے طے کیے جا رہے ہیں اور مزید بہت کچھ ہونے کی توقع ہے۔ حکومت کی ذمہ داری کھانے کے نرخ اور معیار کو برقرار رکھنا ہے۔ یہ طے کرنا حکومت کا کام نہیں کہ لوگوں نے کیا کھانا ہے اور کیا پہننا ہے۔ ماضی کی طرح مودی کے اس طرح کے اقدامات ملک میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کا باعث تو بن سکتے ہیں لیکن کوئی مثبت اور تعمیری تبدیلی لانے میں ناکام رہیں گے۔ یہ ترجیحی اور امتیازی سلوک جہاں ایک طرف ہندوؤں کو ناجائز اختیارات فراہم کرے گا وہیں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں میں عدم تحفظ اور ردعمل کے جذبات پیدا کرے گا جس کا نتیجہ انارکی اور تخریب کاری کی صورت میں ہی نکلے گا۔
کچھ عرصہ پہلے ایک بھارتی نے مجھ سے سوال کیا. قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں اقلیتوں کی آبادی چودہ فیصد تھی جو اب گھٹ کر چار فیصد رہ گئی ہے۔ باقی دس فیصد لوگ کہاں گئے؟ میرے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔ شاید آپ کے پاس ہو۔ لیکن اگر آپ جواب میں یہ کہیں کہ دس فیصد لوگ مسلمان ہو گئے تو یہ حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہو گا۔

عہدِ جدید کے قدیم عہد نامے

0 comments

پتھروں کے اوزار کی تیاری کے ساتھ ہی انسانی شعور نے انگڑائی لی اور تہذیب کا آغاز ہو گیا۔ ہمارے پرکھوں نے ہزاروں سال پہلے تہذیب سمیت تمام علوم کی بنیاد رکھی اور انسان نے ادراک کی شمع روشن کر کے اپنے نوزائیدہ ذہن میں ابھرنے والے سوالات کے جواب ڈھونڈنے شروع کر دیے جس کے نتیجے میں ابتدائی مرحلے میں مذہب،فلسفہ اور علم نجوم نے جنم لیا۔ بعد میں علم فلسفہ سے سائنس کی سر سبز شاخیں پھوٹیں جو آج نسل انسانی کے سر پر بھر پور طریقے سے سایہ فگن ہیں۔
علت اور معلول (کاز اور ایفکٹ) کو سمجھنے کی پہلی کوشش فلسفے اور مذہب کی صورت میں کی گئی۔ دونوں انسانی فکر میں آنکھ مچولی کھیلتے بڑے ہوئے۔ آسمان پر بجلی کڑکی تو ننھا منا سا انسانی ذہن جس نے حال میں ہی فطرت کے آنگن میں آنکھ کھولی تھی خوفزدہ کر دینے والی اس بلا دیکھ کر ڈر گیا۔ چونکہ اس وقت انسانی شعور اس بلا پر قابو پانے کی قطعی صلاحیت نہیں رکھتا تھا اس لیے وہ سہم کر حیرت سے اسے تکنے لگا جس کے کڑکنے اور چمکنے کی وجہ اسکی سمجھ سے باہر تھی۔لہٰذا انسان نے اس طاقت اور تابناکی کے سامنے اپنے شعور کو سرنگوں کرتے ہوئے اسے ایسے دیوتا سے تشبہہ دے ڈالی جسے وہ جانتا تک نہیں تھا۔ مگر اس وقت ناپختہ شعور کے سوالات کی اس سے بہتر توجہہ اور کوئی نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ مذہب کا آغاز تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یوں یوں انسان کا اپنے ماحول اور فطرت کے ساتھ رابطہ بڑھا تو اس کے ذہن کو جلا ملتی گئی۔ اس نے پتھر کے ہتھیار سے لوہے کی تلواروں کا سفر طے کر لیا۔ ہواؤں اور بجلی کی منہ زوری کے سامنے بند باندھنا سیکھ لیے۔ اس کے علوم اور شعور کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گا۔ اب وہ چیزوں کی ماورائی وجوہات تلاش کرنے کی بجائے اس کے پیچھے کارفرما طبعی، کیمیائی اور حیاتیاتی اصولوں کی نا صرف نشاندہی کرنے کا اہل ہو گیا بلکہ انہی اصولوں کو بروئے کار لا کر ایک وقت کے ناقابل تسخیر اور ماورا سمجھنے والے عوامل پر قابو پانے میں بھی کامیاب ہو گیا۔ یہ سفر ابھی تک جاری ہے، گماں ہے کہ آنے والے وقت میں انسان اپنے ماحول پر مکمل قابو پانا سیکھ جائے گا۔
مندرجہ بالا سارے عمل کو ارتقا کا نام دیا جا سکتا ہے۔ نظریہ ارتقا کے مطابق حیاتیاتی و طبعیاتی اجسام، ان کے عوامل اور افعال وقت کے ساتھ ساتھ تغیر پذیر رہتے ہیں۔ یہ تغیر سادہ سے پیچیدہ، بے ترتیب سے مرتب شدہ، غیر معیاری سے معیاری، غیر متعدل سے متعدل اور غیر مستحکم سے مستحکم کی طرف رواں دواں ہے۔تغیر کا یہ عمل ازل سے شروع ہوا اور ابد تک جاری رہے گا۔ جب تک مادہ موجود ہے تب تک تغیر بھی موجود ہے۔ یہی بات مادے کے عوامل پر صادق آتی ہے۔ جس کی بنیاد ہم یہ مفروضہ قائم کر سکتے ہیں کہ انسان آج شعور اور ادراک کے جس منارے پر کھڑا ہے یہ ہمیشہ سے اسے میسر نہیں تھا بلکہ یہ کروڑوں برسوں کی ریاضت کا نتیجہ ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے بہت سادہ سی مثال دوں گی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر نسل اپنی پچھلی نسل سے شعوری طور پر دو قدم آگے ہوتی ہے۔ گویا پہلی نسل میں حاصل کردہ شعور اگلی نسل کے شعور کے ساتھ مل کر بہتر شکل میں سامنے آتا ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے اور اسی کا نام ارتقا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسانی شعور مسلسل ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے اور ہمیشہ گزرتا رہے گا تو کیا یہ ممکن ہے کہ انسان کی جبلی و نفساتی ضروریات ہمیشہ مستقل رہیں؟ یا کم از کم اسکی ضروریات پورا کرنے کے ذرائع ہمیشہ مستقل رہیں؟ وہ بھی اس صورت میں جب اس کے ارد گرد کی کائنات حتی کے اس کا اپنا وجود مسلسل ارتقا۶ سے گزر رہا ہو۔ سماج کی اکائی انسان ہے۔ یہ اکائی مسلسل ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ سماج جامد رہے؟ انسانی سماج کا واسطہ براہ راست اپنے ماحول سے ہے۔ ماحولیاتی عوامل تغیر پذیر ہیں۔ کیسے ممکن ہے کہ اس ماحول سے جڑی سماجی ضروریات میں تغیر نا آئے؟ آپ اختلاف رائے کا حق رکھتے ہیں مگر میرا جواب ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔ دلیل یہ ہے کہ ہماری معاشی، جمالیاتی نفسیاتی اور معاشرتی ضروریات ہر دور میں نئے تقاضے اور جہتیں لے کر نمو دار ہوتی رہی ہیں۔ چھوٹی سی مثال ہے کہ ہزاروں سال پہلے ہمارے آباو اجداد نے منڈی کے لیے بھاؤ تاؤ کے کچھ قوانین مرتب کئے تھے۔ اپنے دور کی ضروریات کے مطابق وہ قوانین بہت سود مند رہے ہوں گے مگر نئے ادوار کے نئے تقاضوں کے وقوع پذیر ہوتے ہی وہ خود بخود متروک ہو گئے یا آج وہی قوانین ترمیم شدہ حالت میں بہت بہتر شکل میں ہماری منڈیوں میں لاگو ہیں۔ صورت حال کوئی بھی ہو، یہ بات ڈنکے کی چوٹ پہ کہی جا سکتی ہے کہ ہزاروں سال قبل بنایا جانے والا بہترین سے بہترین قانون بھی اپنی اصلی شکل میں موجود نہیں ہے۔ وقت نے اس میں ترمیم کا تقاضا کیا۔ اگر تو وہ ترمیم کی چھلنی میں سے گزرنے کو تیار ہوگیا تو اس کی بقا ممکن ہوئی لیکن ہٹ دھرمی اور انکار کی صورت میں وہ بوسیدہ اور بدبو دار ہو کرتیز گام وقت کی دھول میں گم ہو گیا۔
اب آ کر انسانی شعور نے جب ارتقا اور تغیر کے اس آفاقی اصول کا ادراک کیا ہے تو ہم دیکھتے ہیں دنیا کی بیشتر قوموں کے معاشرتی رحجانات میں تبدیلی آئی ہے۔ مجبوری کہیے یا ادراک بنی نوع انسان نے ہزاروں برس کی ہٹ دھرمی کے بعد آخر اس بات کا اعتراف کر ہی لیا ہے کہ نظام زندگی کی کوئی بھی تھیوری یکتا یا آخری نہیں ہے۔ بدلتے سماج کے لیے ہزاروں سال پرانا متن کار آمد نہیں رہا۔ سماج کے نظام زندگی کی صحت کے لیے ان قوانین زندگی کو کہیں تغیر کی ضرورت ہے، کہیں اپ گریڈیشن کی اور کہیں معدومیت ہی کار آمد ہے۔۔ لہذا ان کے نزدیک انسانی ضروریات اور فلاح کے لیے ہر متن قابل تحریف ہے اور ہر قانون قابلِ ترمیم ہے۔ ان کے یہاں کوئی ذات بھی تنقید یا شک کی کسوٹی سے بالا تر نہیں رہی۔ یہ عمل بہت ہی معقول اور حقیقت پسندانہ ہے۔
دوسری طرف ہم اگر اپنے سماج کا جائزہ لیں تو واضح ہو جائے گا کہ ہماری قوم اس فطری ادراک سے ابھی بہت دور ہے۔ ہم ہٹ دھرمی سے اپنی فرسودہ روایات سے پاسداری نبھانے کے چکر میں ایک مفلوج اور مس فٹ سماج کا ٹیکہ اپنے سر پر سجائے بیٹھے ہیں۔بقول عامر ہاشم خاکوانی ہمارے معاشرے کی چادر مذہب کے تانے بانے سے بنی ہوئی ہے لہذا میں اسی حوالے سے بات کروں گی۔ قرآن نا قابلِ تحریف ہے اس میں کوئی شک و شبے کی گنجائش نہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ حکم ہے کہ اپنے دور کے لوگ اپنے دور کی ضروریات کے مطابق اجتہاد و قیاس کے ذریعے نا صرف اپنے مسائل کا حل تلاش کریں بلکہ حدود میں رہتے ہوئے بروقت ضرورت نئے قوانین بھی مرتب کر سکتے ہیں۔ مگر ہمارے یہاں عمومی رویہ یہ ہے کہ ہم قرآنی متن کو سمجھنے کی بجائے براہ راست اس سے قوانین اخذ کرنے کی بجائے اسکے ذیلی متن مثلا فقہ یا اپنے دور میں کئے جانے والی اجتماعی و اجتہادی کاوشوں سے جونک کی مانند چمٹے بیٹھے ہیں اور اس سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ہمارے اسلاف کی بہت سی کتابیں ابھی تک ہمارے لیے حرف آخر ہیں۔ ہم یہ بات سمجھنے سے انکاری ہیں کہ اپنے دور میں ان اجتہادی کاوشوں نے سماج کی اپنے تئیں بہت خدمت کی ہو گی مگر اب وقت کے تقاضے بدل گئے ہیں۔ ہم ان میں تجدید یا ترمیم کو گناہ کبیرہ گردانتے ہیں۔ یہ کیوں ممکن نہیں کہ فکر و تحقیق کے جدید آلات کو استعمال کرتے ہوئے ان کا جائزہ لیں اور ان میں تحریف کر سکیں یا کلی طور پر ان کو رد کر سکیں؟ اگر کوئی اتفاقاً ایسا کرنے کی غلطی کر بیٹھے تو ہماری نظر میں وہ مرتد اور قابل سزا مخلوق بن جاتا ہے؟ ایسا کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے ہر قسم کے متن کے ساتھ ہمارا رویہ دانشمندانہ کی بجائے عقیدت مندانہ ہے؟ ہم چیزوں کا تقابلی جائزہ کیوں نہیں لیتے؟ مخالف مسلک یا مکتبہ فکر پر ہونے والی تنقید پر تو ہم خوشی سے دانت نکالتے ہیں مگر جب کوئی ہمارے علما پر انگلی اٹھائے تو ہماری آنکھوں میں خون اتر آتا ہے؟ ہمارے اسلاف میں سے ایک معتبر شخصیت کی قیاس و اجتہاد کی جھلک کے طور پر ان کی مشہور زمانہ کتاب کی عبارت ملاحظہ ہو۔
کسی کے لڑکا پیدا ہو رہا ہو مگر ابھی سب نہیں نکلا۔ کچھ باہر نکلا ہے اور کچھ نہیں نکلا۔ایسے وقت میں ابھی ہوش و حواس باقی ہوں تو نماز پڑھنا فرض ہے قضا کرنا جائز نہیں۔ (بہشتی زیور حصہ دوم نماز کا بیان ص ۹۸،۸۸)
پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک صاحب کو یہ عبارت شئیر کرنے کے پاداش میں صلواتوں سے نوازا گیا۔۔۔ سوال ہے کیوں؟ جرم کیا تھا؟ کیا وجہ ہے کہ 1920ء میں لکھے گئے اس متن پر بحث ممکن نہیں؟ کیوں کوئی اس کو حرف آخر سمجھے؟ کوئی اس عبارت پہ تنقید کیوں نہیں کر سکتا؟ اگر کسی زمانے میں یہ کتاب کار آمد تھی یا تب کے دور کے لوگوں کی علمی استعداد ہی اتنی تھی کہ انہوں نے اس متن کو کافی سمجھا اور سوال نہیں اٹھایا تو کیا یہ اس بات کی سند ہے کہ آئندہ تا قیامت اس پہ بحث یا مزید مکالمہ ممکن نہیں؟ بالکل یہی معاملہ ریپ کیس میں ڈی این اے ٹیسٹ کی شرعی حیثیت کا ہے۔ ہمیں بس چار گواہ درکار ہیں۔ سائنس گئی تیل لینے۔۔۔