Tuesday, 19 January 2016

اردو ہے جس کا نام۔۔۔

0 comments

اردو کے حق میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد دو قسم کے لوگ صدمے کا شکار ہوئے۔ ایک وہ جنہیں انگریزی سے انس ہے۔ یہ طبقہ انگریزی کو جدید علوم کا منبع خیال کرتا ہے اس لیے سمجھتا ہے کہ اردو کا نفاذ ہمارے علمی و تحقیقی معیار کے مزید انحطاط کا باعث بنے گا۔ کسی حد تک ان کی پریشانی بجا ہے کیونکہ بطور سائنس کی طالبہ اور استاد، میں ذاتی طور پر یہ سمجھتی ہوں کہ اردو میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے جدید علوم کو جذب کرنے، لاگو کرنے اور آگے منتقل کرنے کی سکت نہیں۔ ویسے بھی دنیا کا زیادہ تر سائنسی علم انگریزی زبان میں ہے جس تک بذریعہ اردو رسائی شاید ممکن نہیں۔ اس لئے خدشہ ہے کہ کلی طور پر اردو اختیار کرتے ہی ہم سائنسی علوم کے منبع سے محروم ہو جائیں گے۔
اردو کے حق میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر سوگوار ہونے والے دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو علاقائی زبانوں کا دم بھرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے بلکہ ہمیشہ سے مطالبہ رہا ہے کہ صوبائی سطح پر سکولوں، کالجوں اور دفتروں میں صوبائی زبانیں نہ صرف لاگو کی جائیں بلکہ ان کی ترویج کے لیے خصوصی انتظامات ہونے چاہیں۔عرض ہے کہ جب تمام صوبوں کے لوگوں کو آپس میں جوڑنے اور قریب لانے کے لیے ہماری قومی زبان اردو زندہ ہے تو صوبائی زبانوں کی آڑ میں لوگوں کو الگ رکھنا بلکہ ان میں دوریاں پیدا کرنا کہاں کی دانائی ہے؟ لہذا یہ مطالبہ غیر حقیقی معلوم ہوتا ہے۔
زبان و ثقافت کے عروج و زوال اور تنوع کو سمجھنے کے لیے ہم فطری عوامل و مظاہرکا جائزہ لیتے ہیں۔ تاریخ میں جھانکنے پر ہمیں یہ ادراک ہو گا کہ زبان وثقافت کا جو شاندار تنوع ہمیں اس وقت دنیا میں دکھائی دیتا ہے یہ ہمیشہ سے نہیں تھا۔ یہ وقتی ضرویات، بندشوں اور مجبوریوں کی پیداوار ہے۔ زمانہ قدیم میں اکثر خطوں کے لوگ آمدو رفت کے محدود وسائل کی وجہ سے دوسرے خطوں سے تقریباً کٹے ہوئے تھے۔ایسی صورت میں ان خطوں کے افراد نے مقامی آب و ہوا، ضروریات زندگی اور ان ضروریات کی تکمیل کے لیے میسر لوازمات کے تحت رہن سہن اختیار کیا۔ جس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ ہر خطے کی مخصوص ثقافت اور زبان ظہور پذیر ہوئی جو دوسرے علاقوں سے مختلف تھی۔ ایک سادہ سی مثال سے اس کو مزید بہتر انداز سے سمجھتے ہیں۔ اگر ایک وسیع و عریض جھیل کے وسط میں بسنے والے مینڈکوں میں سے چند مینڈک کسی حادثے میں اپنے گروپ سے بچھڑ جائیں اور کسی دلدل میں جا پھنسیں۔ اگر وہاں انہیں آئندہ کئی نسلوں تک زندہ رہنے کا موقع مل جائے تو لمبے عرصے کے بعد وہ بالکل ایک نیا طرز زندگی لے کر ابھریں گے جو ان کے آبائی گروپ سے کسی نا کسی حد تک مختلف ہو گا کیونکہ دلدل کی آب وہوا جھیل سے مختلف تھی اور انہیں بقا کی خاطر مقامی آب و ہوا سے مطابقت پیدا کرنا پڑی جس کے نتیجے میں نہ صرف انکا رنگ اور ہیئت بلکہ عادات و اطوار سمیت افزائش نسل کے طریقے بھی بدل گئے۔ بالکل اسی طرح کے فطری مظاہر ماضی میں انسانی آبادیوں پر بھی اثر انداز ہوئے. انسانوں کی مقامی ماحول سے مطابقت ثقافت کی صورت میں ظاہر ہوئی اور نتیجتاً ایک ہی خطے کے ایک ہی ملک کے ایک ہی صوبے کے مختلف علاقوں میں مختلف ثقافتیں اور مختلف زبانیں ظہور پذیر ہوئیں. یہ وقتی تقاضا تھا اور ناگزیر عمل تھا۔ نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ ثقافت زبان کا منبع ہے اور زبان ثقافت کا واسطہ ہوتی ہے۔ گویا ثقافت اور زبان لازم و ملزوم ہیں اور یہ دونوں ہمارے بیرونی عوامل کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ کسی بھی دیہی علاقے کی زبان کے الفاظ، محاوروں، جملوں اور لوک گیتوں پر پیشہ زراعت کی چھاپ ہوتی ہے۔ شہری علاقوں کی اصطلاحات ان علاقوں کے لوازمات سے اخذ شدہ ہوتی ہیں.
موجودہ عہد اور مستقبل بعید پہ نظر دوڑائیں تو معاملہ ماضی کے برعکس ہوتا دکھائی آتا ہے۔ صدیوں سے الگ خطے جدید اور تیز تر ذرائع آمد ورفت اور مواصلاتی نظام کے ذریعے اب جڑ رہے ہیں۔ دنیا گلوبل ویلج بن گئی۔ جس کسی نے جانے انجانے میں یہ بات کہی، اس نے مستقبل کی درست پیش گوئی کر دی۔ ہم سب مجموعی طور پر ایک عالمی ثقافت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ نیشنل جیوگرافک میگزین کے ایک آرٹیکل کے مطابق ہر چودہ دن میں ایک زبان مر رہی ہے اور اس صدی کے اختتام تک زمین پر بولی جانے والی کل سات ہزار زبانوں میں سے تقریباً نصف صفحہ ہستی سے معدوم ہو جائیں گی۔اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ زبانیں کیوں مر رہی ہیں جب کہ ان کے بولنے والے زندہ سلامت ہیں؟ وجہ عیاں ہے. اقوام عالم یکجا ہونے جا رہی ہیں۔ یکتا عالمی زبان و ثقافت کی طرف ہونے والی فطری پیش قدمی کے حق میں کیا یہ شہادت کافی نہیں؟ اگر نہیں ہے تو اور سنیے۔ علاقائی زبانوں کے حق میں نعرے بلند کرنے والے ہمارے ثقافت کے محافظ جیالوں کو اپنے زیب تن کی ہوئی ٹائی کوٹ اور جینز پہ نظر ثانی کرنی چاہیے اور خود سے سوال کرنا چاہیے کہ یہ لباس ترکی سے لے کر جنوبی ایشیا تک اور امریکہ سے لے کر افریقہ تک سب کا پسندیدہ لباس کیوں بنتا جا رہا ہے؟ انہیں اپنے گھروں سے بلب، اے سی اور فریزر نکال کر لالٹینیں اور گھڑے رکھوانے پہ غور کرنا چاہیے۔سمارٹ فون ترک کرکے دوبارہ کبوتر پالنے چاہئیں۔ یہ مذاق ہے نا طنز۔ صرف یہ باور کروانا مقصود ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کا طرز زندگی تبدیل ہو مگر ثقافت محفوظ رہے؟ یہ بالکل غیر منطقی ہے۔کمپوٹر، لیپ ٹاپ، ٹویٹر، اے سی اور مرسیڈیز جیسی اشیا کو جن کے آپ مزے لوٹتے ہیں اپنی علاقائی زبان میں اپنے بچوں میں کس طرح متعارف کروائیں گے؟ اگر متعارف کروانے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو جب آپ کسی کام کے لیے یا روزگار کے لیے اپنے ہی ملک کے کسی دوسرے صوبے کی طرف ہجرت کریں گے تو کیا عالم ہو گا۔ کیا یہ ہمارے ان بچوں پہ ظلم نہیں جنہیں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پچیدہ قسم کے علوم بھی جذب کرنے ہیں، قومی و بین الاقوامی سطح پر اپنا سکہ بھی جمانا ہے۔ جمود توڑ کر آگے بھی بڑھنا ہے اور ہم ہیں کہ ان کے گلے میں علاقائی زبانوں کا طوق ڈال کر انہیں ہجوں، تلفظ کی ادائیگی اور لغت میں ہی الجھائے رکھنے پہ مصر ہیں۔ وہ کیا سیکھ پائیں گے۔جو سیکھیں گے اس کا معیار کیا ہوگا۔ حقیقی دنیا میں اس کے اطلاق کی نوعیت کیا ہوگی۔ وہ ہماری نسلوں کو پیچھے لے جائے گا یا آگے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر ہمارے زبان دانوں اور دانشوروں کو اپنے مفروضات کی بنیاد رکھ کر اپنے مقدمات پیش کرنے چائیں۔
اس سارے منظر نامے کے بعد اگر اردو کی ترویج کا سوال رکھا جائے تو سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرنا ہی بہتر حکمت عملی ہے۔ کیونکہ یہ زبان ہمیں ایک قومی دھارے میں لانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ اب ہم صوبے یا علاقے بن کر بہتر زندگی کی طرف پیش قدمی نہیں کر سکتے۔ یہ دور حاضر کے تقاضوں کے منافی ہے۔ باقی اقوام کی طرح ہمیں بھی لوگوں کے مختلف گروہوں سے ایک معقول قوم کی صورت میں ڈھلنے کی ضرورت ہے جہاں سے ہم عالمی ثقافت کی طرف خوش اسلوبی سے گامزن ہو سکیں گے۔ اردو کو بطور قومی زبان اور انگریزی کو بطور عالمی زبان اپنانے میں ہی حکمت ہے۔ جن مفکروں کو اردو کی عدم بلوغت کے بارے میں تحفظات ہیں وہ بجا ہیں۔ اردو کی عمر کم ہے۔لغت میں جدت اور تنوع کی کمی ہے۔ رسم الخط کی پچیدگی کا مسئلہ ہے۔ مگر چند ٹھوس اقدامات کے ذریعے ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ابھی ہمیں اس بات پہ فخر محسوس کرنا چاہیے کہ ہماری قومی زبان دنیا کی پانچویں بڑی زبان ہے۔

سیکولرازم سے دشمنی کیوں؟

0 comments

مذہب کی سیاست سے علیحدگی کے نعرے کو عمومی طور پر مذہب دشمنی اور تعصب پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے جو سراسر غلط فہمی پر مبنی رویہ ہے۔ مذہب کی سیاست سے علیحدگی کا مفہوم بہت سادہ اور آسان فہم ہے جسے مغالطوں اور پروپیگنڈے نے اب تک بہت پیچیدہ بنا کر پیش کیا ہے۔ مذہب کی سیاست سے علیحدگی، جسے عرف عام میں سیکولرازم کہتے ہیں، کا مطلب غیر جانبدار طرز حکمرانی ہے جس میں حکومت ہر طرح کے مذہبی تعصبات سے بالاتر ہو کر خالص انسانی بنیادوں پر قوانین وضع کرتی ہے جو معاشرے کے تمام افراد کو عدل و انصاف پر مبنی طرز زندگی بخشتے ہیں۔
آئین و قوانین میں مذہبی احکامات کی ملاوٹ جہاں ایک مذہبی گروہ کو من پسند جانبداری کے قانونی راستے فراہم کرتی ہے، وہیں ملک کے باقی افراد کے حقوق غصب کرنے کے قوی امکانات پیدا کرتی ہے۔ چونکہ قوانین افراد کے ہاتھوں اطلاق کے مراحل طے کرتے ہیں اس لیے ان خدشات کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ افراد ان قوانین کو اپنی منشا کے مطابق لاگو کرنے کی کوشش کریں گے۔ قوانین کی بنیاد میں موجود مخصوص رحجانات اور یک طرفہ جھکاؤ منتظمین کو ایسا کرنے کی حجت فراہم کرے گا۔ یوں مذہبی ریاست کسی نا کسی صورت میں شہریوں سے امتیازی سلوک روا رکھنے کی سزاوار ہو گی جو جدید اقوام کا طرہ امتیاز نہیں ہے۔ یہ دعویٰ کرنا بہرحال ممکن نہیں کہ مذہبی پیشوا غیر جانبدار ہوتے ہیں۔ تاریخ میں ہمیں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔
سیکولرازم کے خلاف زہر افشانی نے لوگوں کے رویے کو اس طرح سے تشکیل دیا ہے کہ وہ اسے مذہب کے خلاف مہم جوئی سے گمان کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت اس کے الٹ ہے۔ سیکولرازم کسی ایک مذہب کی اجارہ داری کو رد ضرور کرتا ہے مگر ساتھ ہی وہ تمام مذاہب کو تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ بیشتر ترقی یافتہ ممالک سیکولر طرز حکمرانی کے تحت چل رہے ہیں جن کے بارے میں ہمارا دعویٰ ہے کہ وہاں اسلام تیزی سے پنپ رہا ہے۔ سیکولر طرز حکومت( جو ہماری ڈکشنری میں مذہب دشمن ہے) میں یہ کیونکر ممکن ہے؟ اگر یہ مان لیا جائے کہ سیکولرازم مذہب دشمن ہے اور ساتھ ہی ہم ایسے اعدادوشمار پیش کریں جہاں مذہب سیکولرازم کے سائے تلے پنپ رہے ہوں تو اس کی منطقی توجیہہ کیا ہو سکتی ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ ان دو دعووں میں سے ایک غلط ہے۔ فی الوقت پہلا دعویٰ غلط تسلیم کر لیا جائے تو ہمیں یہ دعویٰ کرنا پڑے گا کہ سیکولر معاشرے مذہبی بنیادوں سے ماورا ہو کر افراد کو برابری فراہم کر رہے ہیں جہاں لوگ ذہنی و جسمانی طور پر اپنا راستہ چننے میں آزاد ہیں اور یہ آزادی انہیں سیکولر حکومت فراہم کرتی ہے. ایک لمحے کے لیے فرض کریں کہ اگر وہاں کا طرز حکومت عیسائیت پر مبنی ہوتا تو کیا تب بھی ہم اسلام کے فروغ کے اعدادوشمار اتنے ہی فخر سے پیش کر پاتے؟ میرا خیال ہے نہیں۔ کلیسا کے جاری کردہ مذہبی احکامات اور پابندیوں کے سائے تلے یہ ممکن ہی نہ ہو پاتا۔ یہ سیکولرازم ہی ہے جس نے تمام شہریوں کو آزادی دی اور انہیں قانون کے دائرے میں رہ کر اپنی زندگیاں گزارنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا۔ وہاں کا پرسکون، تحفظ کے احساسات سے لبریز اور آزاد ماحول ہی ہے جس کی کشش ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں افراد کو ان ممالک میں کھینچ لاتی ہے۔ یہ لوگ وہاں یونیورسٹیوں میں تعلیم پاتے ہیں، روزی کماتے ہیں اور آزادی سے جیتے ہیں۔ ان تمام مراحل کے دوران کہیں بھی انہیں اپنے معاشرتی یا مذہبی حقوق غصب ہونے کا ڈر نہیں ہوتا۔بلکہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ اپنے ممالک سے زیادہ ان معاشروں میں زیادہ اطمینان اور تحفظ محسوس کرتے ہوں گے۔
آئینی اور حکومتی سطح کے ساتھ ساتھ کسی حکمران کا انفرادی سطح کا مذہبی تعصب بھی کس طرح معاشرے میں انتشار لاتا ہے اسکی زندہ مثال بھارت میں مودی کے حکومتی کارناموں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ سیکولر آئین ہونے کے باوجود وزیراعظم کی ذاتی سوچ معاشرے کو پراگندہ کر رہی ہے۔ کہیں گائے کے گوشت پر پابندی لگائی جا رہی ہے اور کہیں لوگوں کے ذاتیات کے پیمانے طے کیے جا رہے ہیں اور مزید بہت کچھ ہونے کی توقع ہے۔ حکومت کی ذمہ داری کھانے کے نرخ اور معیار کو برقرار رکھنا ہے۔ یہ طے کرنا حکومت کا کام نہیں کہ لوگوں نے کیا کھانا ہے اور کیا پہننا ہے۔ ماضی کی طرح مودی کے اس طرح کے اقدامات ملک میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کا باعث تو بن سکتے ہیں لیکن کوئی مثبت اور تعمیری تبدیلی لانے میں ناکام رہیں گے۔ یہ ترجیحی اور امتیازی سلوک جہاں ایک طرف ہندوؤں کو ناجائز اختیارات فراہم کرے گا وہیں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں میں عدم تحفظ اور ردعمل کے جذبات پیدا کرے گا جس کا نتیجہ انارکی اور تخریب کاری کی صورت میں ہی نکلے گا۔
کچھ عرصہ پہلے ایک بھارتی نے مجھ سے سوال کیا. قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں اقلیتوں کی آبادی چودہ فیصد تھی جو اب گھٹ کر چار فیصد رہ گئی ہے۔ باقی دس فیصد لوگ کہاں گئے؟ میرے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔ شاید آپ کے پاس ہو۔ لیکن اگر آپ جواب میں یہ کہیں کہ دس فیصد لوگ مسلمان ہو گئے تو یہ حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہو گا۔

عہدِ جدید کے قدیم عہد نامے

0 comments

پتھروں کے اوزار کی تیاری کے ساتھ ہی انسانی شعور نے انگڑائی لی اور تہذیب کا آغاز ہو گیا۔ ہمارے پرکھوں نے ہزاروں سال پہلے تہذیب سمیت تمام علوم کی بنیاد رکھی اور انسان نے ادراک کی شمع روشن کر کے اپنے نوزائیدہ ذہن میں ابھرنے والے سوالات کے جواب ڈھونڈنے شروع کر دیے جس کے نتیجے میں ابتدائی مرحلے میں مذہب،فلسفہ اور علم نجوم نے جنم لیا۔ بعد میں علم فلسفہ سے سائنس کی سر سبز شاخیں پھوٹیں جو آج نسل انسانی کے سر پر بھر پور طریقے سے سایہ فگن ہیں۔
علت اور معلول (کاز اور ایفکٹ) کو سمجھنے کی پہلی کوشش فلسفے اور مذہب کی صورت میں کی گئی۔ دونوں انسانی فکر میں آنکھ مچولی کھیلتے بڑے ہوئے۔ آسمان پر بجلی کڑکی تو ننھا منا سا انسانی ذہن جس نے حال میں ہی فطرت کے آنگن میں آنکھ کھولی تھی خوفزدہ کر دینے والی اس بلا دیکھ کر ڈر گیا۔ چونکہ اس وقت انسانی شعور اس بلا پر قابو پانے کی قطعی صلاحیت نہیں رکھتا تھا اس لیے وہ سہم کر حیرت سے اسے تکنے لگا جس کے کڑکنے اور چمکنے کی وجہ اسکی سمجھ سے باہر تھی۔لہٰذا انسان نے اس طاقت اور تابناکی کے سامنے اپنے شعور کو سرنگوں کرتے ہوئے اسے ایسے دیوتا سے تشبہہ دے ڈالی جسے وہ جانتا تک نہیں تھا۔ مگر اس وقت ناپختہ شعور کے سوالات کی اس سے بہتر توجہہ اور کوئی نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ مذہب کا آغاز تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یوں یوں انسان کا اپنے ماحول اور فطرت کے ساتھ رابطہ بڑھا تو اس کے ذہن کو جلا ملتی گئی۔ اس نے پتھر کے ہتھیار سے لوہے کی تلواروں کا سفر طے کر لیا۔ ہواؤں اور بجلی کی منہ زوری کے سامنے بند باندھنا سیکھ لیے۔ اس کے علوم اور شعور کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گا۔ اب وہ چیزوں کی ماورائی وجوہات تلاش کرنے کی بجائے اس کے پیچھے کارفرما طبعی، کیمیائی اور حیاتیاتی اصولوں کی نا صرف نشاندہی کرنے کا اہل ہو گیا بلکہ انہی اصولوں کو بروئے کار لا کر ایک وقت کے ناقابل تسخیر اور ماورا سمجھنے والے عوامل پر قابو پانے میں بھی کامیاب ہو گیا۔ یہ سفر ابھی تک جاری ہے، گماں ہے کہ آنے والے وقت میں انسان اپنے ماحول پر مکمل قابو پانا سیکھ جائے گا۔
مندرجہ بالا سارے عمل کو ارتقا کا نام دیا جا سکتا ہے۔ نظریہ ارتقا کے مطابق حیاتیاتی و طبعیاتی اجسام، ان کے عوامل اور افعال وقت کے ساتھ ساتھ تغیر پذیر رہتے ہیں۔ یہ تغیر سادہ سے پیچیدہ، بے ترتیب سے مرتب شدہ، غیر معیاری سے معیاری، غیر متعدل سے متعدل اور غیر مستحکم سے مستحکم کی طرف رواں دواں ہے۔تغیر کا یہ عمل ازل سے شروع ہوا اور ابد تک جاری رہے گا۔ جب تک مادہ موجود ہے تب تک تغیر بھی موجود ہے۔ یہی بات مادے کے عوامل پر صادق آتی ہے۔ جس کی بنیاد ہم یہ مفروضہ قائم کر سکتے ہیں کہ انسان آج شعور اور ادراک کے جس منارے پر کھڑا ہے یہ ہمیشہ سے اسے میسر نہیں تھا بلکہ یہ کروڑوں برسوں کی ریاضت کا نتیجہ ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے بہت سادہ سی مثال دوں گی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر نسل اپنی پچھلی نسل سے شعوری طور پر دو قدم آگے ہوتی ہے۔ گویا پہلی نسل میں حاصل کردہ شعور اگلی نسل کے شعور کے ساتھ مل کر بہتر شکل میں سامنے آتا ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے اور اسی کا نام ارتقا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسانی شعور مسلسل ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے اور ہمیشہ گزرتا رہے گا تو کیا یہ ممکن ہے کہ انسان کی جبلی و نفساتی ضروریات ہمیشہ مستقل رہیں؟ یا کم از کم اسکی ضروریات پورا کرنے کے ذرائع ہمیشہ مستقل رہیں؟ وہ بھی اس صورت میں جب اس کے ارد گرد کی کائنات حتی کے اس کا اپنا وجود مسلسل ارتقا۶ سے گزر رہا ہو۔ سماج کی اکائی انسان ہے۔ یہ اکائی مسلسل ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ سماج جامد رہے؟ انسانی سماج کا واسطہ براہ راست اپنے ماحول سے ہے۔ ماحولیاتی عوامل تغیر پذیر ہیں۔ کیسے ممکن ہے کہ اس ماحول سے جڑی سماجی ضروریات میں تغیر نا آئے؟ آپ اختلاف رائے کا حق رکھتے ہیں مگر میرا جواب ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔ دلیل یہ ہے کہ ہماری معاشی، جمالیاتی نفسیاتی اور معاشرتی ضروریات ہر دور میں نئے تقاضے اور جہتیں لے کر نمو دار ہوتی رہی ہیں۔ چھوٹی سی مثال ہے کہ ہزاروں سال پہلے ہمارے آباو اجداد نے منڈی کے لیے بھاؤ تاؤ کے کچھ قوانین مرتب کئے تھے۔ اپنے دور کی ضروریات کے مطابق وہ قوانین بہت سود مند رہے ہوں گے مگر نئے ادوار کے نئے تقاضوں کے وقوع پذیر ہوتے ہی وہ خود بخود متروک ہو گئے یا آج وہی قوانین ترمیم شدہ حالت میں بہت بہتر شکل میں ہماری منڈیوں میں لاگو ہیں۔ صورت حال کوئی بھی ہو، یہ بات ڈنکے کی چوٹ پہ کہی جا سکتی ہے کہ ہزاروں سال قبل بنایا جانے والا بہترین سے بہترین قانون بھی اپنی اصلی شکل میں موجود نہیں ہے۔ وقت نے اس میں ترمیم کا تقاضا کیا۔ اگر تو وہ ترمیم کی چھلنی میں سے گزرنے کو تیار ہوگیا تو اس کی بقا ممکن ہوئی لیکن ہٹ دھرمی اور انکار کی صورت میں وہ بوسیدہ اور بدبو دار ہو کرتیز گام وقت کی دھول میں گم ہو گیا۔
اب آ کر انسانی شعور نے جب ارتقا اور تغیر کے اس آفاقی اصول کا ادراک کیا ہے تو ہم دیکھتے ہیں دنیا کی بیشتر قوموں کے معاشرتی رحجانات میں تبدیلی آئی ہے۔ مجبوری کہیے یا ادراک بنی نوع انسان نے ہزاروں برس کی ہٹ دھرمی کے بعد آخر اس بات کا اعتراف کر ہی لیا ہے کہ نظام زندگی کی کوئی بھی تھیوری یکتا یا آخری نہیں ہے۔ بدلتے سماج کے لیے ہزاروں سال پرانا متن کار آمد نہیں رہا۔ سماج کے نظام زندگی کی صحت کے لیے ان قوانین زندگی کو کہیں تغیر کی ضرورت ہے، کہیں اپ گریڈیشن کی اور کہیں معدومیت ہی کار آمد ہے۔۔ لہذا ان کے نزدیک انسانی ضروریات اور فلاح کے لیے ہر متن قابل تحریف ہے اور ہر قانون قابلِ ترمیم ہے۔ ان کے یہاں کوئی ذات بھی تنقید یا شک کی کسوٹی سے بالا تر نہیں رہی۔ یہ عمل بہت ہی معقول اور حقیقت پسندانہ ہے۔
دوسری طرف ہم اگر اپنے سماج کا جائزہ لیں تو واضح ہو جائے گا کہ ہماری قوم اس فطری ادراک سے ابھی بہت دور ہے۔ ہم ہٹ دھرمی سے اپنی فرسودہ روایات سے پاسداری نبھانے کے چکر میں ایک مفلوج اور مس فٹ سماج کا ٹیکہ اپنے سر پر سجائے بیٹھے ہیں۔بقول عامر ہاشم خاکوانی ہمارے معاشرے کی چادر مذہب کے تانے بانے سے بنی ہوئی ہے لہذا میں اسی حوالے سے بات کروں گی۔ قرآن نا قابلِ تحریف ہے اس میں کوئی شک و شبے کی گنجائش نہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ حکم ہے کہ اپنے دور کے لوگ اپنے دور کی ضروریات کے مطابق اجتہاد و قیاس کے ذریعے نا صرف اپنے مسائل کا حل تلاش کریں بلکہ حدود میں رہتے ہوئے بروقت ضرورت نئے قوانین بھی مرتب کر سکتے ہیں۔ مگر ہمارے یہاں عمومی رویہ یہ ہے کہ ہم قرآنی متن کو سمجھنے کی بجائے براہ راست اس سے قوانین اخذ کرنے کی بجائے اسکے ذیلی متن مثلا فقہ یا اپنے دور میں کئے جانے والی اجتماعی و اجتہادی کاوشوں سے جونک کی مانند چمٹے بیٹھے ہیں اور اس سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ہمارے اسلاف کی بہت سی کتابیں ابھی تک ہمارے لیے حرف آخر ہیں۔ ہم یہ بات سمجھنے سے انکاری ہیں کہ اپنے دور میں ان اجتہادی کاوشوں نے سماج کی اپنے تئیں بہت خدمت کی ہو گی مگر اب وقت کے تقاضے بدل گئے ہیں۔ ہم ان میں تجدید یا ترمیم کو گناہ کبیرہ گردانتے ہیں۔ یہ کیوں ممکن نہیں کہ فکر و تحقیق کے جدید آلات کو استعمال کرتے ہوئے ان کا جائزہ لیں اور ان میں تحریف کر سکیں یا کلی طور پر ان کو رد کر سکیں؟ اگر کوئی اتفاقاً ایسا کرنے کی غلطی کر بیٹھے تو ہماری نظر میں وہ مرتد اور قابل سزا مخلوق بن جاتا ہے؟ ایسا کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے ہر قسم کے متن کے ساتھ ہمارا رویہ دانشمندانہ کی بجائے عقیدت مندانہ ہے؟ ہم چیزوں کا تقابلی جائزہ کیوں نہیں لیتے؟ مخالف مسلک یا مکتبہ فکر پر ہونے والی تنقید پر تو ہم خوشی سے دانت نکالتے ہیں مگر جب کوئی ہمارے علما پر انگلی اٹھائے تو ہماری آنکھوں میں خون اتر آتا ہے؟ ہمارے اسلاف میں سے ایک معتبر شخصیت کی قیاس و اجتہاد کی جھلک کے طور پر ان کی مشہور زمانہ کتاب کی عبارت ملاحظہ ہو۔
کسی کے لڑکا پیدا ہو رہا ہو مگر ابھی سب نہیں نکلا۔ کچھ باہر نکلا ہے اور کچھ نہیں نکلا۔ایسے وقت میں ابھی ہوش و حواس باقی ہوں تو نماز پڑھنا فرض ہے قضا کرنا جائز نہیں۔ (بہشتی زیور حصہ دوم نماز کا بیان ص ۹۸،۸۸)
پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک صاحب کو یہ عبارت شئیر کرنے کے پاداش میں صلواتوں سے نوازا گیا۔۔۔ سوال ہے کیوں؟ جرم کیا تھا؟ کیا وجہ ہے کہ 1920ء میں لکھے گئے اس متن پر بحث ممکن نہیں؟ کیوں کوئی اس کو حرف آخر سمجھے؟ کوئی اس عبارت پہ تنقید کیوں نہیں کر سکتا؟ اگر کسی زمانے میں یہ کتاب کار آمد تھی یا تب کے دور کے لوگوں کی علمی استعداد ہی اتنی تھی کہ انہوں نے اس متن کو کافی سمجھا اور سوال نہیں اٹھایا تو کیا یہ اس بات کی سند ہے کہ آئندہ تا قیامت اس پہ بحث یا مزید مکالمہ ممکن نہیں؟ بالکل یہی معاملہ ریپ کیس میں ڈی این اے ٹیسٹ کی شرعی حیثیت کا ہے۔ ہمیں بس چار گواہ درکار ہیں۔ سائنس گئی تیل لینے۔۔۔

جدید انسانی ذہن کے مذہبی رحجانات

0 comments
سائنس کی عمارت عقل، منطق، استدلال اور تجرباتی شہادت پر استوار ہے. ہر وہ نظریہ جسے عقلی بنیادوں پر پرکھا نہ جا سکے اور جس کے حق میں حواسِ خمسہ کے ذریعے کوئی شہادت نہ پیدا کی جا سکے جدید انسانی ذہن اسے رد کرنے کا رحجان رکھتا ہے۔ اس قسم کے رحجانات کی بنیاد اسے سائنس نے فراہم کی ہے. چند سو برس پہلے جو فلسفہ جات اور نظریات انسانی تہذیب و افکار کا محور تھے۔ آج سائنسی علوم کی یلغار کے سامنے متزلزل ہیں. یہ نظریات دقیانوسیت کا لبادہ اوڑھے منظر سے غائب ہو رہے ہیں۔ ہزار ہا سال سے انسانی ذہن پر راج کرتے عقائد اب منطق اور تجرباتی شہادت کے محتاج ہیں کیونکہ دن رات علت و معلول ((Cause & Effectسے نبرد آزما انسانی شعور اب دیومالائی کہانیوں کی طرف متوجہ ہونے سے قاصر ہے کیونکہ انہیں تجرباتی شہادت کے ذریعے پرکھا نہیں جا سکتا۔ یوں یہ کہانیاں قصہ پارینہ پن کر تاریخ کی کتابوں کے پچھلے صفحات میں گم ہوتی جا رہی ہیں. .
مذہب ان عقائد میں سر فہرست ہے جو جدید انسانی ذہن( جسے سائنسی ذہن کہنا زیادہ مناسب ہے) کے تیکھے سوالوں اور عقلی تقاضوں کا سامنا کرنے سے قاصر ہیں۔ ماضی کا یہ مختار کل فلسفہ آج سائنس کے دامن میں پناہ ڈھونڈ رہا ہے. سائنسی استدلال کی یلغار کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ صحائف کی روایات کی سند کے لئے اب سائنسی حوالے تلاش کئے جا رہے ر ہیں۔ ” یہ بات سائنسی تحقیق سے بھی ثابت ہوتی ہے“۔ کیا آپ نے سوچا ہے کہ مذہبی پیشوا اب یہ جملہ کہنے پر مجبور کیوں ہیں؟ کیونکہ سائنسی منطق اپنائے بنا ان کی بات پر اب کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں. مثال کے طور اگر کوئی مذہبی پیشوا یہ دعویٰ کرے کہ فلاں مذہبی روایت کے مطابق کوہ ہمالیہ کی پہاڑیوں پر سبز پانی کے چشمے ہیں تو امکان ہے کہ سائنٹیفک دماغ اس دعوے کو شک کی نگاہ سے دیکھے. البتہ اگر کسی تحقیقی مقالے میں یہ دعویٰ سامنے آئے کہ ناسا کی طرف سے بھیجی ہوئی زمین کی تازہ تصاویر میں کوہ ہمالیہ کی چوٹیوں پر پانے کے ایسے ذخائر دیکھے گئے ہیں جن کا رنگ سبز ہے اور یہ رنگ ممکنہ طور پر سبز کائی کی کثرت کی وجہ سے ہو سکتا ہے تو امکان ہے کہ سننے والا فوراً یقین کر لے۔ کیوں ؟ کیونکہ اس دعوے کے ساتھ ایک منطق اور شہادت جڑی ہے جسے تجربے سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ منطق اور تجرباتی شہادت پر اکتفا کرنا انسانی ذہن کے مثبت ارتقا کی طرف پیش رفت ہے۔
سائنس اور مذہب دو ایسی تلواریں ہیں جو ایک میان میں نہیں رہ سکتیں. سائنس قبولنے والا ذہن ہمیں مذہب بےزار دکھائی دیتا ہے لیکن یہ انکاری ذہن اپنی ترکیب میں بے قصور ہے کیونکہ اسے دلیل اور عقیدے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ گلیلیو، چارلس ڈارون، رچرڈ ڈاکنز، ایلن ٹورنگ، تھامسن ایڈیسن, کارل ساگاں اور آئن سٹائن جیسے فطین سائنس دان عقیدے کے لحاظ سے غیر مذہبی تھے؟ شاید جیسے جیسے کائناتی راز آشکار ہوئے ویسے ویسے وہ عقیدے سے حقیقت اور یقین سے شک کی طرف جھکتے چلے گئے۔ اس وقت بھی چونکہ دلیل کا پلڑا یقین سے کس قدر بھاری ہے لہذا مذہب سائنس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہے. اس کی تازہ ترین شہادت مندر، چرچ، کلیسا اور مسجد کا مفاہمتی رویہ ہے. حالیہ خبریں بتاتی ہیں کہ دو صدیوں کی کشمکش کے بعد آخر سائنس نے پوپ کو مجبور کر دیا کہ وہ آدم اور حوا کی رومانوی کہانی سے دستبردار ہو کر نظریہ ارتقا کی توثیق کر دے۔
گزشتہ نظریات کے اجزائے ترکیبی اعتقادات، رومانوی خواہشات اور دیومالائی کہانیاں تھیں جن کا شاذونادر ہی منطق سے کوئی تعلق ہوا کرتا تھا لہٰذا جدید انسانی ذہن ان عقائد کے ساتھ حالت جنگ میں دکھائی دیتا ہے. اس ذہنی کشمکش کو کرہ ارض پر جاری روحانی بحران کی وجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ شعور کی آنکھ کو خیرہ کر دینے والے ٹیکنالوجی کے قمقموں کی جگ مگ میں گھرے ہونے کے باوجود بسا اوقات انسانی ذہن ضعیف العتقادی کے اندھیروں میں پناہ ڈھونڈتا ہے. بڑی بڑی یونیورسٹیوں کے طلبا کا داعش جیسی تنظیم کی طرف حالیہ رحجان کو اس استدلال پر پرکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح موجودہ انسانی شعور اندھے اعتقاد اور ٹھوس حقیقت کی دو دھاری تلوار پر بیک وقت چلتے ہوئے انتشار کا شکار ہو رہا ہے۔ مستقبل کی نئی جہتوں میں قدم رکھتے ہوئے ماضی کے اثرات سے نجات حاصل کرنے کے لیے اگرچہ وقت درکار ہوگا مگر امید کی جا سکتی ہے کہ یہ بحران وقتی ہے اور جلد یا بدیر جیت منطق اور شہادت کی ہو گی۔
سائنس کو باطل قرار دے کر اسے رد کرنے والوں کی نمایاں اور موثر ترین دلیل یہ ہے کہ انسانی حواس بہت محدود ہیں اس لیے یہ کائناتی سچائیوں کا احاطہ نہیں کر سکتے. ان عقائد کو رد کرنا جسے انسانی ذہن نے ہزار ہا سال کی سوچ بچار کے بعد دریافت( تخلیق) کیا عقل مندی کی روش نہیں۔ لیکن یہ لوگ ان عقائد کی محبت میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ایسے دعوے جنہیں صدیوں کی تکرار نے اب تک اکلوتے سچ بنا کر پیش کیا، ایسے غیر مستند بیانات کے سراب کا پیچھا کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے ناقص اور محدود حواس کے دائرے میں آنے والی سچائیوں پر اکتفا کرتے ہوئے حقیقت کا تعاقب کریں۔

Monday, 4 January 2016

بی اماں

5 comments

''اب اُٹھ بھی جاؤ سکینہ! دیکھ سورج سر پر آنے کو ہے اور تم ابھی تک بے ہوش پڑی ہو ۔ ۔ امی نے تیسری بار سکینہ کو اٹھانے کیلئےآواز دی ۔ ۔ ''امی میں نہیں جاؤں گی سپارہ پڑھنے ۔ ۔ مجھے نہیں پڑھنا بی اماں سے ۔ ۔ میں گھر پر آپ سے ہی پڑھ لونگی ۔ ۔ سکینہ نے کسمندی سے جواب دیا'' ۔ ۔ ''لو اور سن لو!! میری آواز پر تو تیری آنکھ نہیں کھلتی ۔۔۔۔ مجھ سے سپارہ کیسے پڑھے گی ۔ ۔ آخری بار کہہ رہی ہوں شرافت سے اٹھ جاؤ اور وضو کرکے سپارہ پڑھنے جاؤ ۔ ۔ ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ''۔ ۔ امی نے ڈانٹ کر جواب دیا۔ سکینہ سستی سے اٹھی اور پاؤں گھسیٹتی ہوئی غسل خانے کی طرف چلی گئی ۔ ۔ بی اماں کے پاس سپارہ پڑھنے سے اُسکی ہمیشہ جان جاتی تھی ۔ ۔ پڑھنے لکھنے میں تو وہ ہوشیار تھی۔ اس لیے اس حوالے سے اُسے کبھی مشکل پیش نہ آئی تھی لیکن بی اماں سے وہ ویسے ہی خارکھاتی تھی۔ بی اماں تیزمزاج کی مالک ایک کرخت قسم کی خاتون تھیں۔۔اوپر سے انکا ہاتھ بہت چلتا تھا۔۔بات بات پہ دو ہتھڑجڑ دیتیں۔اکثر شرارت کوئی اور کرتا اورشامت کسی اور کی آجاتی کیونکہ انہوں نے کبھی تحقیق کرنے کی زحمت نہ کی تھی۔ ،شکایت لگاؤ اور اماں بی سے پھینٹی لگواؤ۔۔ کے فارمولے کے تحت بچے ایک دوسرے کے ساتھ دشمنیاں نبھاتے کیونکہ اکثر وبیشتر ان کے پاس بدلہ لینے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا تھا۔سکینہ بھی کئ بار بی اماں کے بھاری بھرکم اور کھردرے ہاتھوں کا مزا چکھ چکی تھی۔ ایک دفعہ تو بے وجہ ہی اسکی شامت آگئ۔ وہ اپنے ننھے ننھے ہاتوں سے بڑا سا دو پٹہ جو وہ اپنی امی کا اٹھا لائی تھی اپنے اردگرد لپیٹ رہی تھی کہ اس کی کہنی ساتھ بیٹھی مریم کو جا لگی۔ مریم جوپہلے ہی اسکا نیا دوپٹہ دیکھ کے جل بھن رہی تھی بھاگی گئی اور بی اماں کو بلا لائی۔ بی اماں نے سکینہ کو دو چما ٹے مارے اور سب بچوں سے الگ بٹھا دیا۔ اس دن سکینہ نے سارا وقت ہٹکورے لیتے ہوئے اوردل ہی دل میں مریم سمیت اماں کو کوستے گزارہ۔۔۔۔۔

پڑھائی کے معاملے میں تو بی اماں کااصول ہی نرالا تھا۔ادھر ادھر گردن موڑے بغیر بلند آوازمیں سبق یاد کرو۔ لہذا ہر صبح بی اماں کے صحن میں مچھلی منڈی کا سماں بندھا ہوتا ۔۔بچے جلدی چھٹی ملنے کی آس میں زور زور سے چیخنے کے انداز میں سبق دہراتے جاتے۔ اکثر اوقات تو بی اماں اس لیے چھٹی نہ دیتیں کہ ان کو یاد ہی نہ رہتا کہ چھٹی بھی دینی ہے۔ بچے کن اکھیوں سے بی اماں کی طرف دیکھتے مگر چھٹی کے لیے پوچھنے کا کسی میں حوصلہ نہ ہوتا۔۔آخر تھک ہار کر باہمی مشاورت سے کسی ایک بہادر ساتھی کو بطور سفیر منتخب کیا جاتا جو ادھر ادھر کاموں میں مشغول بی اماں کے پاس ڈرتے ڈرتے سفارش لے کے جاتا کہ بچوں کو چھٹی دے دیں۔ بی اماں کا موڈ ہوتا تو چھٹی کا کہہ دیتیں ورنہ ڈانٹ کے بھگا دیتیں۔ ۔ اگر بی اماں کے مظالم کی حد صرف یہیں تک ہوتی تو گزارہ کیا جا سکتا تھا مگر بی اماں سپارے کے بعد گھر کے کام بھی کرواتیں جو سکینہ کو زہر لگتا تھا ۔ سکینہ ان نا انصافیوں پرکڑھتی رہتی تھی لیکن اسکا اظہار کرنے کی جرأت اس میں کسی طور نہ تھی ۔ اس نے ایک دو دفعہ اپنی امی سے شکایت کرنے کی کوشش کی تو اس کی امی نے آرام سے کہہ دیا۔ نا بیٹا تیری استاد ہیں وہ۔ ہر صورت انکا کہنا ماننا ہے۔ وہ بہت اچھی ہیں۔۔۔۔۔یہ سن کر سکینہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئی ۔۔کسی طرف سے دلجوئی نہ ہونے کی وجہ سے سکینہ کی ناپسندیدگی نفرت میں بدلنے لگی۔بظاہر ہر شے نارمل ہی رہی مگر اندر ہی اندر کوئی بھی ردِعمل ظاہر کیے بغیر سکینہ بی اماں سے نفرت کرنے لگی ۔ ۔ بی اماں کے کالے اور سفید بالوں کی کھچڑی اسے بری لگتی، تھوڑی کے نیچے لٹکتی بوڑھی جلد کی جھالر سے اسے ابکائی آتی ۔وہ مجبوری کے سے انداز میں بی اماں کے پاس پڑھنے جاتی اور ان کی نظروں سے بچ بچا کر جلد از جلد گھر بھاگنے کی کوشش کرتی۔۔

ایک دن بی اماں نے اپنے کسی کام کیلئے اسے سہ پہر میں گھر سے بلا لیا ۔ ۔ اس وقت وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی ۔۔ ایک تو بے وقت کا بلاوہ اور دوسرا کھیل کو مجبوراً چھوڑ کر جانے کی وجہ سے اس کا ننھا سا وجود غصے سے پھٹنے والا ہو گیا ۔ ۔ جب وہ بی اماں کے گھر پہنچی تو دیکھا کہ وہ مزے سے اونگھ رہی ہیں اور بظاہر کوئی کام نہیں تھا ۔ ۔ وہ واپس جانے کیلئے مڑی تو اسکی نظر تایا جی کے پرس پر پڑی جو دروازے کے ساتھ والے میز پر کھلا پڑا تھا اور اس میں سے لال لال اور ہرے ہرے رنگ کے نوٹ جھانک رہے تھے ۔ ۔ اسے پیسوں کی ضرورت تو نہ تھی لیکن اس نے صرف اپنے غصہ کو کم کرنے کیلئے اور بی اماں سے بدلہ لینے کیلئے پرس کو اٹھایا۔۔۔۔۔۔۔ اس میں سے گنے بغیر کئی نوٹ اٹھائے اور مٹھی میں دبا کر بھاگ نکلی ۔گھر پنہچتے پہنچتے سکینہ نے ساری پلاننگ کرلی تھی کہ اگر اس سے پوچھا گیا تو وہ آرام سے مریم کا نام لے دے گی کہ پیسے اس نے اٹھائے ہیں۔۔ سکینہ کے بدن میں خوشی اور سسننی کی لہر دوڑ گئ۔۔اخاہ اب آئے گا مزہ۔۔اس نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا اور سب سے نظرے بچاتے ہوئے پیسے اس سپارے میں چھپا دیے جو وہ ختم کر چکی تھی۔

اگلی صبح جب سکینہ حسبِ معمول سپارہ پڑھنے گئی توبی اماں کے گھر میں ڈھنڈورا پٹا ہوا تھا۔ ۔ سب بچے اسکی جانب دیکھ کر آپس میں سرگوشیاں کر نے لگے ۔۔تایا بھی خونخوار نظروں سے اسے گھور رہے تھے وہ اس لیے کہ بی اماں کی بڑی بہو فضیلت نے پچھلی دوپہر میں سکینہ کو بی اماں کے کمرے سے نکل کر بھاگتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ لہذا سب اسے چور سمجھ رہے تھے۔ چٹائی پر بیٹھنے سے پہلے ہی فضیلت نے اسے بازو سے پکڑ کر باہر کھینچ لیا۔۔بتاؤ پیسے کہاں ہیں؟ چور اچکی کہیں کی۔ اسے سپارے کے لیے بٹھانا ہی نہیں چاہیے تھا۔۔یہ تو شکل سے ہی چور لگتی ہے۔اسکی ماں کو بلائیں اور پیسے نکلوائیں۔۔وہ شدیدغصے میں تھی۔۔مسلسل بولتی گئی۔۔۔۔سکینہ سہم گئی ۔ اس نے تو سوچا بھی نا تھا کہ بازی یوں پلٹ جائے گی۔ اب کیا ہو گا؟ ابّا اسکی کھال ادھیڑ دیں گے؟ بی اماں ہمیشہ کے لیے اسے گھر سے نکال دیں گی؟ اس قسم کے خیالات سوچ کر اسکے دل کی دھڑکن تیز ہو گئ۔۔اس نے ادھر ادھر دیکھا۔۔سارے بچے اسکی حالت سے محظوظ ہو رہے تھے۔ ذلت کے احساس سے سکینہ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور وہ روہانسی ہو گئی ۔۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اپنا دفاع کیسے کرے۔ وہ چپ سادھے کھڑی رہی۔۔۔۔۔ اتنے میں بی اماں کمرے سے نمودار ہوئیں اور کڑک کر بولیں ''خبردار جو اس بچی پر الزام لگایا ۔ ۔ اسے میں نے خود اپنے کام سے بلایا تھا جس کے بعد یہ سیدھی گھر واپس چلی گئی تھی '' ۔ ۔ چور ڈھونڈنا ہے تو کہیں اور ڈھونڈو'' میرے بچے چور نہیں ہو سکتے۔۔چل لڑکی!! چھوڑ اسکا بازو۔۔انہوں نے آگے بڑھ کر فضیلت کے ہاتھ سے اسے چھڑایا۔۔آئے بڑے کھوجی۔۔جس کے جتنے پیسے گم ہوئے ہیں مجھ سے لے لے۔۔لیکن کوئی میرے بچوں پر الزام نہ لگائے ۔ ۔سکینہ کیلئے یہ سب بہت غیر متوقع تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخرکھٹوراور ظالم قسم کی بی اماں آج اچانک کیسے اس پر اتنی مہربان ہو گئیں۔ آج جب انکو اسے زیادہ مارنا چاہیے تھاوہ الٹا اسے مار سے بچا رہی تھیں۔۔سکینہ کو سمجھ نہیں آیا کہ ماجرہ کیا جو انہوں نے اس کی حمایت کی؟ حالانکہ انہوں نے اسے کسی کام کا حکم نہیں دیا تھا پھر یہ کیوں کہا کہ وہ کام کرنے ے بعد گھر چلی گئی تھی؟ سکینہ کا ذہن الجھ کر رہ گیا۔ بی اماں نے سب کو ڈانٹ کر بھگا دیا اوراسکو چٹائی پر بٹھا کر سبق پڑھانے لگیں۔۔۔

سکینہ اپنی اس حرکت پر سخت پشیمان تھی ۔گھر پنہچتے ہی اس نے سب کچھ اپنی ماں کو بتایا اور پیسے نکال کر سامنے رکھ دیے۔ ماں نے اسکو خوب لعن طعن کیا۔ پیسے اٹھائے، اسے ساتھ لیا اور بی اماں کی طرف چل دی۔ سکینہ ماں کے ہمراہ ڈرتے ڈرتے بی اماں کے کمرے میں داخل ہوئی اور دیکھا کہ بی اماں اپنے پلنگ پر نیم دراز تھیں۔ بی اماں! سکینہ کی ماں نے لجاہت سے کہنا شروع کیا۔۔۔ آپکی امانت دینے آئی ہوں۔۔یہ لیں اپنے پیسے ۔۔سکینہ ہی چور ہے۔ بی اماں پر اسرار طریقے سے مسکرائیں اور بولیں ۔۔مجھے پتا ہے۔انہوں نے سکینہ کو کھینچ کر ساتھ لگایا اور اسکی پیٹھ تھپکنے لگیں۔ بیٹا آئیندہ ایسا نہیں کرنا۔۔چلو اب جاؤ گھر تمھاری امی تھوڑی دیر تک آجائے گی۔اس نے سر ہلایا اور باہر نکل گئی۔ پر بی اماں آپ نے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بچے نادانیاں کرتے ہیں بیٹی ۔انہوں نے اسکی بات کاٹ کر کہا۔۔۔پر اگر آج اس پہ الزام ثابت ہو جاتا تو پھرآئیندہ گمشدہ ہونے والی چیزیں بھی اس کے کھاتے میں جایا کرتیں۔ اور میں اپنے بچوں پہ آنچ آنے دوں یہ کیسے ممکن ہے۔ویسے بھی مجھے اپنے ہر بچے کی فطرت کا اچھی طرح پتا ہے۔۔۔تم اب اس بات کی جان چھوڑو اور یہ شربت پیو۔۔۔

اگلے دن جب سکینہ سپارہ پڑھنے بی اماں کے گھر داخل ہوئی تو اس نے خود میں عجیب سی تبدیلی محسوس کی۔ اسے بلند آواز میں ایک ہی سبق بار بار دہرانے ہیں مزہ آیا۔وہ اس تبدیلی پر حیران تھی۔ہر شے ایک نیا ذائقہ دے رہی تھی۔۔حتیٰ کہ آج جب وہ سبق سناتے ہوئے اٹکی تو بی اماں کے دو ہتھڑوں پہ اسے غصہ بھی نہیں آیا۔ سبق سے چھٹی ہونے کے بعد جب بی اماں نے کسی کام کے لیے بچوں کو آواز دی تو سکینہ سب سے پہلے انکی طرف بھاگی۔

Sunday, 3 January 2016

دنیا کے وسائل میں عورت کا حصہ

0 comments

جسم فروشی یا کسی مالدار گدھے سے شادی کے علاوہ  عورت کے پاس دولت کمانے کے بہترین طریقے کون سے ہیں؟؟

اب تک دنیا کی قابل ذکر مالدار عورتیں کون سی رہی ہیں؟
مسلم دنیا میں خاص طور پر پاکستان میں دولتمند ایسی خواتین کے نام بتائیں جنہوں نے مردوں کی طرح خود دولت کمائی ہو؟؟ میرے ناقص علم کے مطابق ایسی خواتین ناپید ہیں.. اگر چند ایک مالدار خواتین ہیں بھی تو ان کی دولت کا زیادہ تر حصہ کسی مردانہ رشتے کی طرف سے عنایت شدہ ہوتا ہے. لیکن کاروبار، شراکت یا دوسرے رائج طریقوں سے دولت کما کر وسائل میں سے قابلِ قدر حصہ بٹورنا اب تک عورت کے نصیب میں نہیں ہوا..

یہی حال اہم عہدوں پر تعیناتی کا ہے..دنیا بھر کے تمام اہم عہدے مردوں کے قبضے میں ہیں.. وزیر اعظم  سے لے کر عدالتوں ,عسکری قوتوں اور بڑی کمپنہوں کے تمام عہدوں پر عورتوں کی تعیناتی کا تناسب انکی شرع آبادی کے حساب سے بہت کم ہے.. امریکہ میں کتنی عورتیں وائٹ ہاوس میں بر سر اقتدار رہی ہیں.؟؟؟ کتنی خواتین سیاست میں سرگرم ہیں؟ کتنی خواتین ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سربراہان ہیں؟
بزنس کی دنیا میں glass sealing کے نام سے ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے. یہ gender discrimination کے حوالے سے عورتوں کی ترقی میں نادیدہ رکاوٹیں پیدا کرنے کے لیے مختلف حربوں کے استعمال کا ایک طریقہ واردات ہے. گلاس سیلنگ تکنیک میں ہوتا یہ ہے کہ بڑی بڑی کمپنیاں بظاہر تو خواتین کو ملازمت دیتی ہیں تا کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ ہم خواتین کے بڑے قدردان اور خیر خواہ ہیں لیکن ان ملازمتوں کی نوعیت کچھ اسطرح کی ہوتی ہے جو خواتین کی ذہنی صلاحیتوں کی یا تو نفی کرتی ہے یا پھر ان صلاحیتوں کو پوری استعداد سے بروئے کار لانے میں معاون ثابت نہیں ہوتیں.. مثال کے طور ہر زیادہ تر کمپنیوں میں خواتین کو بطور سیکٹری... ریسپشنسٹ، اسسٹنٹ وغیرہ کی جابز آفر کی جاتی ہیں. جن کا تعلق پبلک ڈیلنگ سے ہوتا ہے.. یہ خواتین کمپنی کے اعلی عہدوں تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر رہتی ہیں. اور یہی کمپنی کے عہدیداروں کی آرزو ہوتی ہے..

مسلم ممالک میں کتنے ملکوں میں حکومتی عہدوں پر عورتیں کام کر رہی ہیں؟؟مضحکہ خیز سوال ہے. کیونکہ مسلم ممالک میں ابھی یہ بحث جاری ہے کہ عورت کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے یا نہیں.. پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان میں خواتین کو سیاست میں شامل کرنے کا ڈرامہ رچایا گیا.. مگر یہ سب عورتیں سیاسی قبضہ گروپ کی داسیاں ہیں .. بے نظیر بھٹو صاحبہ کے علاوہ کوئی ایک عورت بھی اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر اس میدان میں جگہ نا بنا سکی. ان خواتین کی سیاسی بصیرت صفر کے برابر ہے..قانون سازی اور پالیسی میکنگ میں انکا کردار کہیں دکھائی نہیں دیتا.. حقیقت یہ ہے کہ حقوق نسواں کے نام پر سیاست میں عورتوں کی یہ شمولیت دراصل کرپٹ سیاستدانوں کا سیاست پر اجارہ داری قائم رکھنے کا ایک اور چور دروازہ ہے..اس وقت پارلیمنٹ میں موجود ایک بھی خاتون ایسی نہیں ہو گی جو بذات خود سیاسی بصیرت کی مالک ہو گی.. وہ یا تو کسی سیاست دان کی بیوی ہو گی یا بیٹی اور اس کے الیکشن جیتنے کی وجوہات بھی یہی ہوں گی. یہ خواتین نا تو پاکستان کی خواتین کی نمائندگی کرتی ہیں نا ہی ان کے مسائل اور امنگوں کا ادراک رکھتی ہیں..

یوں ہم یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ تاریخ انسانی کے اس سنہرے دور میں بھی عورت استحصال کا شکار ہے...بڑے بڑے اداروں اور کمپنیوں میں اس کی حیثیت اب بھی سیکس سمبل سے زیادہ نہیں ہے..ایک دعوے کے مطابق عورت اوسطاً مرد سے زیادہ محنتی اور جفا کش ہے. دنیا میں ہونے والی مشقت میں زیادہ حصہ عورت کا ہے.  لیکن مردوں کے مقابلے میں خواتین مزدوروں کی اجرت آدھی سے بھی کم ہے. پوری دنیا کی صرف تین فیصد خواتین ایسی ہیں جو ذاتی جائیداد کی وارث ہیں.  کاروبار کرنے کی خواہشمند خواتین کے لیے منڈی کا ماحول بالکل سازگار نہیں ہے.. ہمارے دیسی لبرل اور سیکولر ٹٹ پونجیے بھی عورت کی آزادی کو بس بے لباسی تک ملحوظ رکھتے ہیں..فیس بک پہ یہ لوگ خواتین کی پورن تصاویر شئیر کرنے کے شوقین ہیں.اس سے زیادہ انکی ذہنی استعداد نہیں ہے..

مندرجہ بالا معروضی حقائق کا دفاع کرتے ہوئے اکثر لوگ یہ دلیل دیتے  ہیں کہ خواتین کی ذہنی استعداد مردوں کے مقابلے میں پسماندہ ہے..وہ حساب کتاب میں کمزور ہیں..ریشنل نقطہ نظر نہیں رکھتیں .. ان میں قائدانہ صلاحتیں نہیں..یہ جذباتی مخلوق ہے..یہ اعصابی طور پر بھی بہت کمزور ہے وغیرہ وغیرہ. اس لیے یہ ان تمام نعمتوں اور وسائل کی حق دار نہیں ہیں جو اس وقت مرد کے قبضے میں ہیں. پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ دعوٰی ہی غلط ہے.. دنیا کی کسی بھی لیبارٹری میں ٹیسٹ کروا لیں.. عورت مرد سے زیادہ مدبر،  ذہین اور مستعد ثابت ہو گی.. البتہ وہ نا تجربہ کار ضرور ہے.. یہ ناتجربہ کاری جسے "سیانے" لوگ ذہنی استعداد میں نقص سے تعبیر کرتے ہیں کوئی جنیٹک ڈیفیکٹ نہیں.  یہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت صدیوں کی پریکٹس کے بعد خواتیں میں ودید کیا گیا ہے تاکہ وہ اکثر معاملات میں مردوں سے کم تر رہیں.. ..

جس طرح آہنی ڈبوں میں سالوں تک بچوں کے سر مقید کر کے دولے شاہ کے چوہے تیار کئے جاتے ہیں اسی طرح عورت کو  صدیوں تک مخصوص اور محدود ماحول میں رکھ کر اسکی ذہنی صلاحتیوں کو زنگ لگانے کی گھناونی سازش کی گئی ہے..گزشتہ تمام معاشروں میں اس کے ذمے لگائے جانے والے کام مرد کی جنسی خواہشات پوری کرنا..کھانا پکانا ,جھاڑپونچھ .کپڑے دھلائی اور خدمت گزاری رہے ہیں..کیا یہ ایسا سیٹ اپ تھا کہ اس میں عورت کی ذہنی صلاحتیں پنپ سکتیں؟ . جس فرد کو ساز گار ماحول میسر نا ہو اسکی مخفی صلاحتیں کیسے نمو پا سکتی ہیں؟؟

دنیا میں طاقت کے دو  سرچشمے ہیں.. اقتدار اور معاشیات.. عورت ان دونوں سے محروم ہے. اور ہمیشہ وسائل سے محروم اور کمزور طبقات کا استحصال ہوتا ہے..اگر عورتیں واقعی برابری چاہتی ہیں.. اپنی زندگی پورے حق سے بتانا چاہتی ہیں..انسانی معراج کے زینے طے کرنا چاہتی ہیں تو انہیں مظلومیت کے سب لبادے اتار کر عملی میدان میں خود کو مظبوط بنانا پڑے گا..اپنی ذہنی صلاحتییں بروئے کار لانا ہوں گی. خود کو علم و دانش سے آراستہ کرنا ہو گا. سیاسی و معاشی میدان کی سرگرم کھیلاڑی بننا ہو گا.. جب تک عورت خود کو معاشی طور پر مضبوط نہیں کرتی وہ اپنے جنسی و جسمانی استحصال کا سد باب نہیں کر سکتی..

میری عزیز خواتین! آپ نا کم عقل ہیں نا کم فہم.. آپ کو بھٹکایا گیا ہے.آپ کو دبانے کے لیے آپ کی مصنوعی کم فہمی اورجسمانی کمزوری کے حق میں دلائل گھڑے گئے ہیں..اس مشینی دور میں جسمانی مشقت اب کوئی حیثیت نہیں رکھتی . لہذا اب وقت ہے کہ آپ درست سمت میں سفر شروع کریں..یہ دنیا آپ کی بھی اتنی ہی ہے جتنی مردوں کی ہے..تمام زمینی وسائل پر آپ کا برابر کا حق ہے. آپ کو خود آگے بڑھ کر یہ حق حاصل کرنا ہو گا..اپنی ذات کے زنگ کھرچنے ہوں گے.دوسری صورت میں شمع محفل بنی رہنے اور ہر طرح کا ظلم سہنے کے لیے تیار رہیے.. جو بھی کرنا ہے آپ نے خود کرنا ہے. کیونکہ اپنے حقوق کے لیے کسی آسمانی صحیفے یا زمینی آئین میں ترمیم کا انتظار کرنا بے سود ہے..

Saturday, 2 January 2016

کیا کتابیں ہمیں جاہل بھی بناتی ہیں؟

1 comments

کیا کتابیں ہمیں جاہل بھی بناتی ہیں؟
.......
ہمارے یہاں ایک عجیب رویہ دیکھنے میں آرہا ہے.. جو شخص چار کتابیں پڑھ لے. انگلش سیکھ لے.. اردو کے ثقیل الفاظ سے واقفیت حاصل کر لے وہ خود کو تاریخ کا ماخذ، حال کا مدبر اور مستقبل کا راہبر سمجھنے لگتا ہے. پھر اسے عام لوگ کیڑے مکوڑے لگتے ہیں.. اپنا گرد و پیش ناقص اور حالات ہیچ نظر آتے ہیں.. لہذا وہ اپنے کتابی علم کو موجودہ حالات پر لاگو کر کے نئے معروضی استدلال اخذ کرنے سے قاصر رہتا ہے اور ماضی میں جینے لگتا ہے. یوں ایک عجیب سی یو ٹوپیائی شخصیت سامنے آتی ہے.. جو اپنی ذات میں تو بہت بڑی علمی علامت ہو سکتی ہے لیکن معاشرے کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ملتا. ایک کمیونیکیشن گیپ در آتا ہے اور لوگ ایسے فرد سے گھبرانے لگتے ہیں. کیونکہ عام آدمی کو اپنے موجودہ دور میں دلچسپی ہوتی ہے.. اسے ماضی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا. لیکن ایسا شخص انہیں ماضی کے قصے اور آوٹ ڈیٹڈ فلسفے سنا کر مرعوب کرنے کی کوشش میں رہتا ہے. لوگ اسکی ذات کے ساتھ ساتھ علم اور کتابوں سے بھی بے زار ہو جاتے ہیں..

عقل و دانش کی تکمیل میں بے شک کتابوں کا بہت کردار ہے.. کتابیں ہمارے اجداد کی مغز ماری کا عرق ہیں. یہ انسان کی ہزار ہا سال کی ذہنی و جسمانی مشقت کے منطقی نتائج ہیں. یہ علم و دانش کا ماخذ ہیں. لیکن کتابیں  پڑھتے ہوئے حال کو نظر انداز کر دینا دانشمندی نہیں.. کتابیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ہماری حال پر بھی نظر ہو.. ہمیں اپنے دور کی خامیوں اور خوبیوں کا ادراک ہو اور ہم اپنے کتابی علم کا حال پر اطلاق کر کے ایسے نتائج اخذ کر سکنے کے قابل ہوں جو زمینی حالات سے مطابقت رکھتے ہوں.

چند کتابیں پڑھ کر اور بڑے بڑے فلسفیوں کے چند جملے رٹ کر یہ سمجھ لینا کہ اب ہم ہی دنیا کی سچائیوں اور دانش سے واقف ہیں جبکہ عام آدمی کوڑھ مغر اور عقل سے پیدل مخلوق ہے سراسر بے قوفی ہے.. فلسفہ و دانش کسی فلسفہ دان یا سائنس دان کی میراث نہیں ہے.. ہر وہ شخص جس کی دماغی حالت معیاری ہو اور حواس خمسہ کام کرتے ہوں وہ سائنسدان بھی ہے اور فلسفی بھی. کچن میں روٹیاں پکاتی عورت سے لے کر دوکان پہ حجامتیں بناتے ہوئے نائی سمیت ہر کوئی کسی نا کسی فلسفے اور سائنسی اصول کے تحت زندگی گزار رہا ہے. لائبریری میں بیٹھا کسی دیوہیکل کتاب کی اوراق زنی میں غرق ایک فلسفی اگر کسی حقیقی سچائی کا ادراک کرتا ہے تو بہت ممکن ہے کہ کسی دور دراز علاقے میں بیٹھا ایک بڑھئی وہی سچائی کسی سادہ سی ضرب المثل کی صورت میں اپنے گاہکوں کو سنا رہا ہو کیونکہ اسکی دوکان کے سامنے بنا چوبارہ بھی ایک لائبریری ہے جس میں روزانہ لاتعداد کتابیں.. فلسفے.. استدلال.. فطری رحجانات اور تجرباتی علمی ماخذ انسانی شکل میں نمودار ہوتے ہیں.

لہٰذا بہت اہم ہے کہ ہمارے یہاں کے اندھوں میں کانے راجے جیسے فلسفی اور دانشور اپنی دیمک لگی کتابوں سے سر اٹھا کر اپنے ٹھنڈے ڈرائینگ رومز کی royal محفلیں چھوڑ کر باہر تپش میں نکلیں.. گلیوں بازاروں اور چوراہوں میں لوگوں کے درمیان حبس میں بیٹھیں اور انسانوں کو سمجھیں. انسانی بدن سے اٹھتی ہمک سے اپنے دماغی خلیوں کو روشناس کروائیں. تب وہ جان پائیں گے کہ زندگی کی حقیقت کیا ہے. عام انسان جن کا حالات و واقعات اور فطرت کے ساتھ exposure ان کتاب زدہ لوگوں سے کہیں زیادہ ہے. انکی کہی ہوئی بات اور استدلال کتابوں سے زیادہ اہم ہے . ان دانشوروں کو حیرت ہو گی کہ ہمارا عام آدمی جسے وہ جہالت کا نمونہ سمجھتے ہیں وہ ارتقاء کر کے انکی دھیمک لگی کتابوں سے بہت آگے نکل گیا ہے جس کے لیے پرانے آزمائے ہوئے گھسے پٹے ضابطوں کی نہیں بلکہ نئے نظام.. نئے فلسفے اور نئے استدلال اخذ کرنے کی ضرورت ہے..

ایک حقیقی مدبر کے لیے انسان اور کتاب دونوں برابر کی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں. اگر کوئی دانشور کتاب کو تو سر پر رکھے مگر انسان کو جوتے تلے دبائے تو اسے اپنی لائبریری کو آگ لگا دینی چاہیے. بدقسمتی سے ہمارے یہاں یہی عالم ہے.. ہمارے اسلامسٹ، سوشلسٹ، لبرل اور ملحد اسی رویے کا شکار ہیں . وہ کتابوں سے حد درجہ مرعوب ہیں  اور انسانوں کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں . میں انہیں بتانا چاہتی ہوں.. سقراط جو یونان کا بلے شاہ تھا اور بلے شاہ جو پنجاب کا سقراط تھا دونوں کسی مکتب سے نہیں پڑھے اور نا ہی انہیں کتابوں سے سروکار تھا..